• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا ایک شعر ہے

مری زمین بھی ہے کائنات کا ذرہ

مرا یہ مسئلہ،میں خود کو کائنات کہوں

یہ بیک وقت انسان کی خامی بھی ہے اور خوبی بھی کہ جیسے جیسے وہ شعوری طور پر بالغ ہونے لگتا ہے اس کا اور اس کے ارد گرد اس کی دنیا یا کائنات کا تعلق بھی ارتقا پانے لگتا ہے یہ خوبی اس لیے ہے کہ وہ اپنے انہی تجربات کی وجہ سے اپنے وجود اور کائنات کے تعلق کو سمجھنے کے قابل ہونے لگتا ہے جو اس کی زندگی کو ایک مخصوص راستے پر لے جانے میں ممد ثابت ہوتے ہیں اور خامی اس لیے کہ اگر وہ اپنے اور کائنات کے تعلق میں کسی کج روی ، غلط فہمی یا اعتدال اور حقیقت پسندی کے فقدان کا شکار ہو جائے تو وہ اپنے لیے نہ صرف غیر ضروری مسائل پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے بلکہ اپنے معاشرے کے لیے خود بھی ایک مسئلہ بن جاتا ہے عربی کا ایک محاورہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا مصائب یا مسائل کا گڑھ ہے اگر مذہبی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو حضرت آدم علیہ السلام کی ایک غلطی کی وجہ سے انہیں جنت سے نکال کر دنیا میں بھیج دیا گیا تھا گویا دنیا میں بھیجے جانا ایک سزا تھی اور سزا کے لیے تو جیل میں ہی بھیجا جا سکتا ہےـ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا انسان کے لیے ایک جیل کی مانند ہے اور جیل میں مصائب ہی ہو سکتے ہیں۔

بہشت سے نکال کر زمین پہ قید کر دیا

کہ قید خانے میں میاں مصیبتیں تو ہونی تھیں

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس قید خانے میں گزارا ہوا وقت یا تو آپ کو جزا کے قابل بنا دیتا ہے یا مزید سزا کا حقدارـ۔ اس دنیا میں مسائل کے بغیر زندگی کا تصور محض ایک یوٹو پیائی خیال ہے اصل کامیابی یہ ہے کہ آپ نہ صرف مسائل سے حقیقی طور پر آگاہ ہوں بلکہ ان کے حجم اور سنگینی کا حقیقی ادراک بھی رکھتے ہوں مسائل کو بڑھا چڑھا کر دیکھنا اس کیفیت سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے جب انہیں ان کے قد و قامت سے کم کر کے دیکھا جاتا ہے۔ـ اپنی انگلی کی صحیح لمبائی دیکھنے کیلئےاسے اپنی آنکھ سے ایک مناسب حد تک دور رکھنا پڑتا ہے اگر آپ اس کو آنکھوں کے بالکل قریب لے جائیں تو نہ صرف انگلی کی جسامت خوفناک حد تک بڑھ جائے گی بلکہ بہت قریب لے جانے پر انگلی کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دے گا۔ اس لیے مسئلے کے ساتھ ساتھ اس کی جسامت اور گہرائی کا صحیح ادراک بھی نہ صرف آپ کی پریشانی کو کم کرتا ہے بلکہ اس مسئلے کو حل کرنے میں بھی آپ کو حقیقت پسندی کے قریب لے جاتا ہےـ ۔ہم اکثر اوقات اس لیے بھی مضطرب اور پریشان رہتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو اپنی حقیقی حیثیت سے بہت بڑا بنا دیتے ہیں اور اسی بڑائی کے زعم میں غیر ضروری مسئلوں میں گرفتار ہونے لگتے ہیں ـ اس کائنات میں اپنے حقیقی وجود کو سمجھنے کیلئے ہمیں سب سے پہلے کائنات کے حقیقی حجم اور وسعت کے بارے میں سوچنا ہوگا پھر ہمیں احساس ہوگا کہ ہماری اس کرہ ارضی میں حقیقی حیثیت کیا ہےـ ہمارے سیارے کا تعلق نظامِ شمسی سے ہے اور ہماری زمین کی جسامت اور حیثیت سورج کی جسامت سے اتنی چھوٹی ہے اس میں اربوں زمینی سیارے سما سکتے ہیں سورج کے مدار میں گھومنے والے بہت سے سیارے زمین سے بہت بڑے ہیں گویا زمین بذاتِ خود کائنات کا ایک ذرہ ہے۔ اب اس سورج کو ہی لے لیجئے جس کے نظام کا ہم ایک بہت ہی معمولی حصہ ہیں اور جو ایک بڑے بہت بڑے نظام کو چلا رہا ہے اسے ہم آسمان پر ہر روز دیکھتے ہیں اس عظیم سورج نے بھی آسمان کا بہت ہی تھوڑا حصہ گھیرا ہوتا ہے جو آسمان کی وسعت میں بذاتِ خود ایک ذرے کی مانند ہے باقی آسمان میں کیا کچھ ہے ہم نہیں جانتے ـ۔

جب ہم بچے تھے تو چاندنی راتوں میں چھت پر اپنی چارپائیوں پر لیٹے ستارے گننے کی کوشش کرتے تھے لیکن ستارے گنے نہیں جا سکتے ـ ستارے گننا ایک ناقابل عمل کام کرنے کا محاورہ ہےـ۔ اس سارے تناظر میں کہ ہمارا کرہ ارضی نظامِ شمسی کا نہایت معمولی حصہ ہے اور نظام شمسی بھی کائنات کی وسعت میں ایک نقطے کی مانند ہے اور ہم انسان جو اس کرہ ارضی پر آباد ہیں وہ تقریبا آٹھ ارب سے زیادہ ہو چکے ہیں ان آٹھ ارب انسانوں میں سے ایک انسان کی حقیقی حیثیت کیا ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم خود کو وجود عمر اور وقت کے لحاظ سے بذاتِ خود ایک کائنات سمجھتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ علم کی کمی انسان کو اس کی غیر حقیقی سوچ کی وجہ سے اتنا بڑا بنا دیتی ہے کہ اس کا پھیلاؤ بذاتِ خود اس کے لیے بھی ایک خطرہ بن جاتا ہے جبکہ حقیقی علم سے پیدا ہونے والا ادراک اور عاجزی انسان کو محفوظ طریقے سے سمیٹ دیتا ہے اور یہ سمٹاؤ سوچ اور عمل کے حسین امتزاج کے ذریعے اس کے مسائل بھی حل کر دیتا ہے ـ ۔ہر دور کی طرح آج بھی خوشی اور اطمینانِ قلب حاصل کرنے کا واحد طریقہ مسائل کو ان کے حقیقی پس منظر اور جسامت میں دیکھنا ہے ۔ایک شعر

یہ انا جو ہے یہ ہے سرطان سے بھی خوفناک

ہاں یہی چیونٹی تیرے کہسار کو کھا جائے گی

تازہ ترین