’’مہر! ذرا دیکھنا پلیز، باہر کون ہے؟‘‘ اطلاعی گھنٹی بجی، تو سلائی مشین پر جُھکی گل نے مہر سے کہا۔ گل اس وقت مہر کا کُرتا سی رہی تھی۔ اگروہ یہ کام نہ کر رہی ہوتی، تو مہر اسے صاف انکار کردیتی۔ ناچار اُسے اُٹھ کر جانا پڑا۔ باہر ڈاکیا تھا، جو اس مہینے کا میگزین لے کر آیا تھا۔ مہر نے لفافہ وصول کیا، دروازہ بند کیا، بےصبری سے لفافہ پھاڑا اور چلتے چلتے جلدی سے فہرست پر ایک نظر دوڑائی۔ فہرست میں اس کا نام شامل تھا۔
وہ بھاگ کر کمرے میں آئی۔ ’’یاہو! یہ دیکھو، اس مہینے کے شمارے میں میرا افسانہ بھی آیا ہے۔‘‘ مہر نے فہرست گل کے سامنے کی۔ گل نے فہرست پرایک نظر ڈالی اور مُسکرادی۔ ’’واہ بھئی! ہماری ’’وڈی رائٹر‘‘ کی کہانی بھی آئی ہے، رسالے میں۔‘‘ مہر کو لکھنے کا شوق تھا، کچھ خداداد صلاحیت بھی تھی۔
چھوٹی موٹی تحریریں لکھتی رہتی، جن میں سے کچھ شائع ہوجاتیں کچھ رد کردی جاتیں۔ جب اس کی کوئی کہانی شائع ہوتی، تو وہ اس خوشی کو پورے اہتمام سے مناتی، سب کو بتاتی اور پھر مزید کچھ لکھنے بیٹھ جاتی۔
مستقل مزاجی کی کمی تھی اس میں اور مطالعے سے ویسے ہی جی گھبراتا تھا۔ گل یہ دونوں باتیں جانتی تھی اس لیے اُس کو’’وڈی رائٹر‘‘ کہہ کر چڑاتی۔ ’’ہاں تو بن جائوں گی ایک دن ’’وڈی رائٹر‘‘ بھی، بلکہ ان بڑے بڑے رائٹرز سے بھی اُوپر جاؤں گی۔‘‘ مہر نے تھوڑا اِترا کے کہا۔ ’’کہیں زیادہ اُوپرہی نہ چلی جانا، ورنہ واپسی مشکل ہوجائے گی اور پھر ’’وڈی رائٹر‘‘ بننے کا خواب ادھورا ہی رہ جائے گا۔‘‘ گل قہقہہ لگا کر ہنس پڑی۔ ’’ہاں توکیا ان بڑے رائٹرز کے سر پر سینگ ہوتےہیں، جو میرے سر پر نہیں؟‘‘
مہرغصے میں آگئی۔ ’’نہیں، مگر اُن لوگوں نے محنتیں کی ہوئی ہیں، جان ماری ہے، دن رات ایک کیے ہیں، تب کہیں جا کراس مقام تک پہنچے ہیں۔‘‘ گل نے حقیقت بیان کی۔ ’’کرلوں گی میں بھی محنت، زیادہ نصیحتیں نہ کیا کرو۔‘‘ مہر کا لہجہ بےمہر ہوگیا۔ ’’اچھا اچھا پیاری بہن! غصہ نہ کرو، یہ لو تمھارا کُرتا تیار ہے۔
یہ پکڑو، ابھی مَیں نے اپنا اسائنمینٹ بھی مکمل کرنا ہے۔ کل آخری تاریخ ہے۔‘‘ گل نے اس کا دھیان بٹایا۔ گل بوٹنی میں ماسٹرز کررہی تھی اور یہ سلائی اس کا مشغلہ تھی۔ شوق شوق میں سیکھی ہوئی اِس سلائی سے گھرمیں سب سے زیادہ مہر ہی فائدہ اُٹھاتی تھی۔
’’امّی، ابوّ…!! یہ دیکھیں، میرا افسانہ بھی آیا ہے اس دفعہ، دیکھیں اپنی لائق فائق بیٹی کا ایک اور کارنامہ۔‘‘’’بھیا! یہ دیکھیں، اپنے خان دان کی پہلی رائٹر کا نیا افسانہ…‘‘ حسبِ سابق وہ فرداً فرداً سب کے پاس گئی۔ سوشل میڈیا پر تو وہ پہلے ہی پوسٹ لگا آئی تھی اور اب بیٹھی لائیکس گن رہی تھی۔ پھراُس نےبیٹھ کر افسانے کے اہم فقروں کے ایڈیٹس بنا کر بھی لگانے تھے۔ ایک تحریر کی اشاعت، گویا اُسے ہفتے بھر کے لیے مصروف کردیتی تھی۔
ثانیہ چچی کےبھائی کی بڑے بڑے ادیبوں سے دوستی تھی۔ اُن کی شادی ہوئی تو مہر بڑے لوگوں سے ملاقات کی لالچ میں شادی میں شریک ہوئی۔ وہاں کافی جانے پہچانے ادیب، رائٹرز موجود تھے، مگرمہر زیادہ تر سے واقف نہیں تھی۔ اچانک مہر کی نظر کونے والی میز پر پڑی، تو وہاں براجمان شخصیت کو دیکھ کر اُس کی باچھیں کھل گئیں۔
سامنےاس کے پسندیدہ ترین سینئر رائٹر رضوی صاحب بیٹھے تھے۔ مہر فوراً سے پیش تراُدھر جادھمکی۔ ’’آپ میرے پسندیدہ ترین رائٹر ہیں، سر!!‘‘ سلام دُعا کے بعد مہر نے کہا تو رضوی صاحب مُسکرا دیے۔ ’’سر! مَیں آپ کی بہت بڑی فین ہوں۔‘‘ مہر کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیا کر گزرے۔ رضوی صاحب اُسے واقعتاً پسند تھے۔ وہ انفرادیت پسند لکھاری تھے، مگر مہر نے اُن کی ایک دو تحریروں کے کچھ اقتباسات کے
علاوہ آج تک ان کا لکھا کچھ نہیں پڑھا تھا۔ ’’اچھا تو میری کون سی کتاب، تحریر ہے، جس نے آپ کو بہت زیادہ متاثر کیا؟‘‘ رضوی صاحب نے اچانک پوچھا، تو مہر کھسیانی سی ہو کر ہنسی۔ ’’وہ سر! وہ اس وقت نام یاد نہیں آرہا۔‘‘ رضوی صاحب ہنس دیے، وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ لڑکی بھی ان بہت سارے فینز کی طرح بس ان کی ’’فین‘‘ ہی تھی، جنھیں ان کے اصل کام سے کوئی لینادینا نہیں تھا۔
بس وہ ان کے چند فقرے، جملے رٹ کر ہی ان کے فین بن گئے تھے۔ ’’سر! مجھے لکھنے کا بہت شوق ہے، پلیز آپ میری راہ نمائی کیجیے۔‘‘ مہر نے بڑی عاجزی سے درخواست کی۔ ’’اچھا! آپ کو لکھنے کا شوق ہے؟‘‘رضوی صاحب کا لہجہ نرم، دھیما تھا۔ ’’جی، جی سر!کئی بڑے بڑے رسالوں، میگزینز میں میری تحریریں چَھپتی رہتی ہیں۔‘‘ مہر نے شیخی بگھاری۔ ’’اچھا! آپ ہر روز مطالعے کو کتنا وقت دیتی ہیں؟‘‘
رضوی صاحب نے دل چسپی اور سنجیدگی سے پوچھا۔ ’’مطالعے کا تو وقت ہی نہیں ملتا سر…‘‘جملے کے اختتام تک لہجے میں شرمندگی در آئی تھی کہ اُسے بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ ایک مستند لکھاری اور دو چار تحریریں پڑھ، لکھ کر خُود کو لکھاری کہلوانے والے کی بول چال، اندازِ گفتگو میں کس قدرواضح فرق ہوتاہے۔ کہاں وہ اور کہاں رضوی صاحب۔ اتنا بڑا نام، مگر غرور نام کو بھی نہیں۔ الٹا مزاج میں اتنی شائستگی، دھیما پن دَر آیا ہے کہ اُسے ان کے سامنے اپنا آپ بہت ہی چھوٹا معلوم ہو رہا تھا۔
وہ جی ہی جی میں سوچ رہی تھی کہ گل بالکل صحیح کہتی ہے۔ ’’آپ کے پاس مطالعے کا وقت نہیں اور آپ لکھنا چاہتی ہیں؟‘‘ مہر کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ’’میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے گا کہ ایک اچھے لکھاری کے لیے مطالعہ اُتنا ہی ضروری ہے، جتنا لکھنے کے لیے سیاہی سے بَھرا ہوا قلم۔
آپ کو لکھنے کا کتنا ہی شوق کیوں نہ ہو، مطالعے کے بغیر یہ شوق بےکار ہے۔‘‘ رضوی صاحب نے طنز کا کوئی تیر چلانے کی بجائے شفیق لہجے میں گُر کی بات بتائی، تو شرمندہ شرمندہ سی مہریہ سوچ کرواپس ہولی کہ بلاشبہ علم بڑی دولت اور استاد و تجربے کا کوئی مول نہیں۔