• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نرس کی مُٹھی دھیرے دھیرے کُھلی اور چاندی کا ایک پتلا سا چھلا اُس کی ہتھیلی سے لڑھک کر میرے سامنے میز پر رینگنے لگا۔ ایمرجینسی رُوم میں سنّاٹا چھا گیا۔ میٹرن، جو ابھی ایک لمحہ پہلے اس نرس کے ساتھ ہنسی مذاق کر رہی تھی، بُت کی طرح کھڑی خالی خالی نظروں سے اس چھلے کو تکنے لگی۔ 

اُس کے ہونٹوں پر پہلے کی چپکی ہوئی مسکراہٹ اس کے اترے ہوئے چہرے پر نہایت عجیب سی لگ رہی تھی۔ ’’بات کیا ہے یار…؟‘‘ مَیں نے حیرت سے نرسنگ اردلی کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا، لیکن جواب دینے کے بجائے وہ چھت کو گھورنے لگا۔ مایوس ہو کر مَیں نے میٹرن کی طرف دیکھا۔

اُس کے ہونٹ یوں نیچے لٹک گئے تھے، جیسے وہ کسی گہری سوچ میں غرق ہو۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے سر اوپر اُٹھایا اور نرس کو مخاطب کرتے ہوئے بولی۔ ’’اب کس کی باری ہے؟‘‘ ’’گیارہ نمبر کی۔‘‘ نرس نے جواب دیا اور جب میٹرن پھر بھی اس کی طرف تکتی رہی تو بولی۔ ’’ابھی ابھی جب مَیں اُس کا ٹمپریچر لینے گئی تو یہ چھلا وہاں دوائی کی شیشیوں کے پاس پڑا ہوا تھا۔‘‘’’مریضہ کو اس کا علم تو نہیں ہوا؟‘‘ 

میٹرن نے پوچھا۔ ’’شاید نہیں!‘‘ نرس نے جواب دیا۔ ’’کیوں کہ اِس سےپہلے کہ اُسے کچھ شک ہو، مَیں نے ہاتھ بڑھا کر اِسے یوں اٹھایا، جیسے یہ چھلا میرا اپنا ہی ہو۔‘‘ ’’بےچاری… آج ہی تواس کا آپریشن ہوا ہے۔‘‘ میٹرن نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور پھر کسی سوچ میں غرق ہوگئی۔ کمرے میں ایک بار پھر سناٹا چھا گیا۔

اچانک میٹرن نے سکوت توڑا اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولی۔ ’’ایک کام کریں گے آپ، ڈاکٹر صاحب!‘‘’’کیا؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔’’اگر آج رات آپ گیارہ نمبر میں ڈیوٹی دے دیں تو…‘‘ ’’کیوں؟‘‘ مجھے میٹرن کا یوں حُکم دینا کچھ بُرا سا لگا۔ ’’پانچ برس ہوئے، یہ چھلا مَیں نےپہلی بار ایک نوجوان کے ہاتھ میں دیکھا تھا۔‘‘ میٹرن نے بغیر تمہید کےبولنا شروع کیا۔ ’’اور اس کے چند ہی منٹ بعد یہ چھلا ایک لاش کی انگلی میں تھا۔‘‘ ’’لاش کی انگلی میں…؟‘‘ 

مَیں نے حیرت سے پوچھا۔ ’’ہاں…‘‘ وہ بولی۔ ’’اُس رات بھی میری ڈیوٹی ایمرجینسی وارڈ ہی میں تھی۔ وہ لوگ کار کے حادثے میں زخمی ہو کر آئے تھے۔ نوجوان کا سر پھٹ گیا تھا اور اُس کے بچنے کی کوئی اُمید نہیں تھی۔ لڑکی کے دائیں بازو کی ہڈی کئی جگہ سے ٹوٹ چُکی تھی۔ ہم نے اُس کے بازو پر پلاسٹر لگا کر یہیں بستر پر لٹا دیا۔‘‘ میٹرن خاموش ہوگئی اور کمرے کے اندر پڑے پلنگ کو یوں تکنے لگی، جیسے و ہ واقعہ ایک بار پھر نظروں کے سامنے آگیا ہو۔

’’رات کے پچھلے پہر وہ نوجوان مر گیا۔‘‘ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اُس نے پھر کہنا شروع کیا۔ ’’اس وقت بھی مَیں اس کے پاس ہی تھی۔ مرنے سے پہلے اس نے دو ایک بار اپنی انگلی میں پڑے چاندی کے ایک چھلےکو نوچنے کی کوشش کی اور جب مَیں نے وہ چھلا اتار کر اُس کی ہتھیلی پر رکھ دیا تو اُس نے ایک گہری سانس لی اور دَم توڑ دیا۔ 

مَیں نے لاش کو چادر سے ڈھانپ دیا اور ڈاکٹر کو اطلاع دینے چلی گئی۔‘‘ ’’پھر…؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔ ’’دس منٹ بعد مَیں واپس آئی تو وہی چھلا لڑکی کی انگلی میں پڑا تھا اور اس کی ہتھیلی سے پلاسٹر یوں اکھڑا ہوا تھا، جیسے اُسے دانتوں سے کاٹ کر اکھاڑا گیا ہو۔ 

جب مَیں نے پلاسٹر ٹھیک کرنے کے لیے اس کا بازو پکڑا، تو وہ برف کی طرح سرد تھا۔‘‘ ’’عجیب بات ہے!‘‘ مَیں نے استہزائیہ انداز میں کہا، کیوں کہ مجھے میٹرن کی کہانی پر بالکل بھی یقین نہیں آیا تھا۔ ’’ہاں… اور شاید آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ اس واقعے کے بعد اسی اسپتال میں یہ چھلا تین بار ظاہر ہوا اور تینوں باراس کا نتیجہ موت…‘‘ اُس نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا اور پھر کسی گہری سوچ میں گم ہوگئی۔ 

تھوڑی دیر بعد وہ اُٹھی اور انجیکشن کا سامان لےکرجانے لگی۔ مَیں نے بھی اوور کوٹ پہن لیا اور تاش کی ایک گڈی اُس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔ ’’میں رائونڈ لگا کر تھوڑی دیر میں آتا ہوں، تم یہ تاش لےلو، رات کو کھیلیں گے۔‘‘’’تھینک یو ڈاکٹر!‘‘ وہ شُکر گزار لہجے میں بولی۔ ’’ذرا جلدی آئیے گا، مَیں چائے تیار رکھوں گی۔‘‘

راؤنڈ میں مجھے کچھ زیادہ ہی وقت لگ گیا۔ فارغ ہو کرمَیں سیدھا گیارہ نمبر کمرے میں چلا گیا۔ مریضہ نہایت سکون سے سو رہی تھی۔ ’’میٹرن! تم واقعی بدھو ہو۔ خواہ مخواہ مجھے پریشان کیا۔‘‘ مَیں نے بناوٹی غصّے سے نرس کو ڈانٹا۔ وہ گردن جُھکائے کرسی پر بیٹھی تھی اور اس کے سامنے میز پر چائے کے دو کپ رکھے تھے۔ ’’اٹھو! جلدی کرو، مَیں اسے انجیکشن لگا دوں۔‘‘ 

میرا لہجہ قدرے تحکمانہ سا تھا۔ مگر وہ پھر بھی اُسی طرح گردن جُھکائے بیٹھی رہی۔ ’’شاید میرے دیر سے آنے پر ناراض ہے۔‘‘ مَیں نے سوچا اور مسکراتا ہوا اُس کی طرف بڑھا۔ لیکن مَیں نے اس کا بازو پکڑا ہی تھا کہ وہ کرسی سے لڑھک کر فرش پرآگری۔ اس کے دائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی میں چاندی کا ایک پتلا سا چھلا چمک رہا تھا۔

سنڈے میگزین سے مزید