• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئی کہانی، نیا فسانہ: خواب راستے پر تھمے قدم (آخری قسط)

مدوّن و مرتب: عرفان جاوید

(محمد عاطف علیم)

اگر اطمینان کی کوئی ایک بات کہی جائے، تو یہ کہ وہ کرائے داروں کے قدرے معزز اور محفوظ طبقے سے تعلق رکھتے تھے، سرکاری ہائرنگ اور پکّے ایگری منٹ والے لوگ، جنھیں ہر چوتھے ماہ سامان ڈھونا نہیں پڑتا تھا، لیکن اس کےباوجود مختاری کا یہ عالم کہ اپنی مرضی سے دیوار میں ایک کیل تک تو ٹھونک نہیں سکتے تھے۔

بس یہی ایک محرومی تھی، جسے وہ ان سارے برسوں میں عادت نہ بنا سکی۔ وہ ساری محرومیاں، جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا جانا تھا، اُن میں آزادی سے محرومی شامل نہ ہوتی، اگر اُن کے سر پر اپنی چھت ہوتی۔ چلو نہ سہی، لیکن وہ تو نہ ہوتا، جس کا ہونا کسی ناکردہ گناہ کی سزا کے سوا کیا تھا۔

پہلی بیٹی کے کئی برس بعد جب حیدر اور عباس پیدا ہوئے، تواُن کا گھر پھولوں اور تتلیوں سے بھرگیا تھا۔ اُن کی زندگی اچانک سے اتنی مصروف ہوگئی کہ ذاتی گھر، اپنی چھت وغیرہ وغیرہ، اُنھیں کچھ بھی یاد نہ رہا۔ ایک کھلکھلاتی بیٹی اور دو دمکتی پیشانیوں والے جُڑواں بیٹے، اب وہ گھونگھٹ کاڑھے کیوں پِھرے، کیوں نہ لوگوں کو مضبوط قدموں چلتی خود پرمغرور ہونےکی خبردے؟ سو، وہی نہیں، اس کا شوہراوربیٹی بھی اُڑےاُڑے پِھرتے رہے، یہاں تک کہ کسی نےاچانک موم بتی کو پھونک مار دی اور گھر بھر میں گہری خاموشی اور ٹھنڈی ٹھار تاریکی چھا گئی۔

اُن دونوں کی عُمر کا (جنھوں نے باپ کے شینتھ جوان، دایاں، بایاں بازو بننا تھا) پانچواں برس پورا ہونے سے پہلے ایک قاتل دسمبر آیا تھا، جب انسانی آبادیاں قدیم برفانی دَورمیں داخل ہوگئی تھیں۔ تب ساتوں براعظموں میں کئی روز تک برف کی بارش ہوتی رہی تھی۔ برسوں بعد لکھی جانی والی تواریخ میں مرقوم ہوگا کہ اُن دنوں برفانی طوفانوں کی یلغار کا یہ عالم تھا کہ جہنم کے ساتوں طبقات بھی برف کی دبیز تہوں میں چُھپ گئے تھے۔ 

ایسے میں اُن کا گھرکیسے بچتا؟ سو، ایک صُبح انھوں نے دیکھا کہ رات بھر کی برفانی بارش نے اُن کا صحن برف کے بڑے بڑے تودوں سے بھر دیا تھا۔ اُنھوں نے پلٹ کر دیکھا کہ ان کے حیدر اور عباس اپنے بستر میں نہیں تھے۔ وہ جب اُنھیں اپنی بانہوں میں اُٹھائے اسپتال کی سمت ننگے پاؤں دوڑ رہے تھے، تو ادھ راہ انھوں نے پتھرائی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ دونوں سنومین بن چُکے تھے۔ 

اُن کے ناکردہ گناہوں کی سزا میں، یہ سزا بھی شامل تھی کہ برفانی بارشیں جاتے جاتے تند ہواؤں کو اُن کے گھر کا قبضہ دیتی جائیں۔ سو، اب وہاں برسوں تک شرلاٹے بھرتی ہواؤں نے چکرائے پھرنا تھا۔ جب سے اُن کا گھر تند ہواؤں کی تحویل میں آیا تھا، دونوں میاں بیوی کے درمیان تعلق بھی کچھ زیادہ ہی برادرانہ تکلف والا ہوگیا تھا، جب مل بیٹھتے تو تھوڑی گپ شپ لگالی، ورنہ اپنا اپنا کنجِ عافیت تو ہے ہی۔ خیر، گزری کہ اُن کی بیٹی جی دار نکلی۔ 

جب اُس کے بھائی برفانی تتلیوں کے تعاقب میں گئے، تو وہ بالڑی سی تھی، جس کے لیے وہ دونوں پلاسٹک کے گڈے تھے، جن کی وہ روز شادی رچایا کرتی تھی اور اس کے لیےاسُے جانے کس کس سہیلی کی منّتیں کرنا پڑتی تھیں کہ اپنی گڑیائیں کسی اور کے نام نہ کریں۔ اُس روز جب اُس نے اپنی ماں اور باپ کو اسپتال سے یخ بازو لیے لوٹتے دیکھا تو وہ دھک سی رہ گئی۔ بہت روئی کُرلائی، بہت تڑپی تڑپائی، لیکن تابکے؟ ہوتے ہوتے اُس کا بین کرنا، جب کبھی کبھار کی ہچکیوں میں بدلا، تب بھی وہ اکثر آسمان کو دیکھ کر فریاد کیا کرتی۔ ’’اللہ جی، اتے پالے پالے سے تو وہ تھے، یہ کیا کیا…؟‘‘

تب اُس نے ایک نظر ماں اور باپ کے سیاہ پڑتے چہروں کو دیکھا اور یک لخت بہادر بن گئی۔ اس نے الٹی ہتھیلی سےاپنے آنسو پونچھے اور اُنھیں دِکھا دِکھا کر مُسکرانے لگی۔ وہ جماندر و سیانی اور زندگی سے لب ریز تھی، سو، اتنی سی عُمرمیں اُن کی بڑی آیا بن کر خُود ہی اُنھیں جینے میں مدد دینے کی ذمّے داری سنبھال لی۔ 

اُس نے اتنی شدت سے اُن کی توجّہ اپنی جانب مبذول کرلی کہ اُن کے لیے کُھل کر سانس لیناممکن ہوگیا۔ سنومین، آسیب کی صُورت اب بھی گاہے گاہے گھر کا چکر لگایا کرتے تھے، لیکن جیسےآتے، ویسے چلے جاتے، بہت ہوا تو تھوڑا بہت رونا دھونا ہوگیا، ورنہ زندگی ان کی بیٹی کی سیانپ کے طفیل معمول کی چال چلتی رہتی۔

جب وہ بھی رخصت ہوئی، تو اِس گھر نے ایک بار پھر لمبی چُپ اوڑھ لی۔ وہ پھر سے اداس اور خاموش تھے۔ ایسے میں کوئی بڑی آپا جیسی بیٹی نہ تھی، جو بڑھ کر اُنھیں گدگدی کرکے کِھلکھلانے پر مجبور کرتی۔ تب دونوں نے پلٹ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کچھ سوچ کر ایک دوسرے کو تھام لیا۔ بہت کچھ ایسا بھی تھا، جو نہیں بدلا تھا، لیکن کچھ نہ کچھ تو اُن کے درمیان ضرور بدلا تھا۔ اُس کے لیے بیٹی کے سِکھائے ہوئے اسباق ان کے بہت کام آئے تھے، جنھیں اچھے بچّوں کی طرح دہراتے ہوئے انھوں نے کام چلاؤ حد تک ہی سہی، رشتوں کے بغیر زندگی کرنے کا ہنر سیکھ لیا تھا۔

اب وہ دونوں بوڑھے ہوچلے تھے۔ مرد کی ریٹائرمنٹ کوبھی ایک ڈیڑھ برس ہی رہ گیا تھا۔ اب اُنھیں حیدر اور عباس کے آسیبوں کی پیہم یلغار سے بچنےکےلیے کسی بھاری مصروفیت کی ضرورت تھی کہ جس میں وہ ایسے مگن ہوتے کہ دُکھن کا احساس ہی نہ رہتا۔ ’’آؤ اُمید، اُمید کھیلیں۔‘‘ اُس نے کہا اور ایک بھولی بسری اُمید کو چمکا کر اپنی بیوی کے سامنے رکھ دیا۔ بیوی نے بھی گہری سانس لی اور مُسکرادی۔

ریٹائرمنٹ پراُن کے گھر میں اتنا پیسا تو ضرور آنا تھا کہ وہ ایک مختلف زندگی جی سکتے۔ بھلے سمے اُنھوں نے ایک نئی آبادی میں پانچ مرلے کا پلاٹ لے رکھا تھا۔ اُن پیسوں سے وہ اُس پرچھت بھی ڈال سکتے تھے اور کچھ پیسے بچا کر سیکنڈ ہینڈ گاڑی بھی خرید سکتے تھے۔ اب اُن کے پاس جی بہلانے کے لیے امکانات کے رنگ برنگے کھلونے تھے، جن سے وہ روز خُوب خُوب کھیلا کرتے تھے۔ وہ کہ سنو مین کی یلغاروں سے تھکی ہوئی تھی، اُمید کے اِس کھیل میں اپنی عادت کے برخلاف کُھل کر شریک ہونے پر آمادہ تھی۔ ’’ہم پتا ہے، کیا کریں گے؟‘‘

وہ دریافت کی سنسناہٹ میں آئے بچّے کے سے جوش کے ساتھ کہتا۔ ’’ہم اپنے گھر کے کچے صحن میں کچن گارڈننگ کیا کریں گے، ذرا سوچو کہ تازہ سبزیاں اور زہریلے پانی کے بغیر۔‘‘ ’’اورپھل دار درخت بھی لگائیں گے، جن پر پرندے بسیرا کیا کریں گے۔‘‘ وہ جس اُمید سے برسوں پہلے دست بردار ہوچُکی تھی، اُس کے اچانک سے زندہ ہونے پر سہمی ہوئی خوشی کی دھیمی سی لے میں کہتی۔ ’’مَیں درختوں پر چڑھ کر امرود توڑا کروں گی۔‘‘ ’’تم…؟‘‘ وہ تصّور میں اُسے درخت پر چڑھے دیکھ کر خُوب ہنسا۔ ’’تم درخت پر چڑھوگی، اِس عُمر میں؟‘‘ ’’کیوں اس عُمر کا کیا ہے؟‘‘ وہ کھسیانی سی ہو جاتی۔

’’ارررے نہیں، مَیں تو یونہی…‘‘ وہ اُس کا دل دُکھنے کے خیال سے فوراً بات بدلتا۔ ’’ایسا نہ کریں کہ اپنے گھر میں ایک چھوٹا سا پولٹری فارم بھی بنالیں؟ اسٹیرائڈز والی مرغیوں سے تو نجات ملے۔‘‘ اِس بار ہنسنے کی باری عورت کی تھی۔’’بس کرو، اب اتنا اونچا بھی نہ اُڑو کہ پرَ ہی اُکھڑ جائیں۔‘‘ وہ اُس کی بےوقوفانہ منصوبہ سازی پر خُوب ہنستی۔ ’’پانچ مرلے کا پلاٹ ہے، ایکڑوں کی جاگیر نہیں ہے ہماری۔‘‘ ’’جاگیر ہی تو ہے۔‘‘ وہ رندھے ہوئے جذبات میں اس کا ہاتھ تھام لیتا۔ ’’ہم تو اتنے کے قابل بھی نہ تھے۔‘‘

کچھ دیر خاموشی رہتی جس دوران مہ وسال کی گزران ان میں دُکھ کی تلخی بھردیتی۔ ’’ہم سارا پیسا مکان پر خرچ نہیں کریں گے۔‘‘ وہ جھرجھرا کر خاموشی کو توڑنے کے لیے ایک اور خوش کُن خیال پیش کرتا۔ ’’ہم ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی بھی خریدیں گے اور پھر ہم گھر میں نہیں ٹکیں گے، خُوب خُوب گھوما کریں گے۔‘‘ ’’لیکن آپ نے تو کبھی اسٹئیرنگ پکڑ کر بھی نہیں دیکھا۔‘‘ ’’تو کیا ہوا، کسی بھی ڈرائیونگ اسکول سے ہفتہ بھر میں سیکھ لوں گا۔‘‘

’’ٹھیک ہے، لیکن کبھی پلاٹ کا چکر بھی لگا لیا کریں، آج کل قبضہ گروپس کُتوں کی طرح سونگھتے پِھرتے ہیں۔‘‘ ’’فکر نہ کرو، ہمارے پلاٹ پر چار دیواری بھی ہے اور ایک کمرا بھی بنا ہوا ہے، ایسے پلاٹ پر ہاتھ مارنا اِتنا آسان نہیں۔‘‘ وہ کہنے کو تو کہہ دیتا، لیکن یہ دراصل خُود کو دی جانے والی طِفل تسلی تھی کہ وہ جانتا تھا کہ یہاں کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔

اُن کی ایسی ہی خیال آرائیاں اصل میں ایک کھیل تھا، خُود کو یقین دلانے کا حیلہ کہ زندگی کا بوجھ اُنھیں کبھی توڑ نہیں سکے گا۔ اُنھیں پہلے کبھی ایسا کھیل سوجھا ہی نہیں تھا، اب جو سوجھا، تو بیٹی کی رخصتی کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو بھرنے کے لیے، وہ دل سے اِس میں شریک تھے کہ دونوں زندہ رہنا چاہتے تھے۔ اس کھیل کے دوران وہ بہت کچھ بُھلائے، جب ایک خواب میں اُترے تو دیکھا کہ ایک جنگل تھا، چیڑ، دیودار اور بلیو پائن کی باوقار ترتیب سے سجا ہوا۔ 

وہاں چہار سمت گھاس اور ننّھے پودوں کی گہری سبز دبازت سے بلند ہوتے اور کھردری ملائمت میں زمانوں کے اسرار کو چھپائے آسمان کی جانب نگران تنے تھے اور بہت اوپر اُن میں سے پُھوٹتی مضبوط شاخوں کے بازو تھے، جن کے دُعا کے لیے اُٹھے ہاتھوں میں اُترتا ہوا سبز جمال تھا اور پھر اُن کے سر پر پھیلے گھنےپن میں اُترتی روشن کرنیں، اُس ایک سبز رنگ کو لاتعداد شیڈزمیں تقسیم کرتی اور چاروں اور امڈتی دھند کے قلب میں صُبح کے مقدّس اُجالے کو جگاتی ہوئی اِس جنگل کو ناقابلِ تسخیر حُسن کے وفور سے بھر رہی تھیں۔

وہیں تتلیوں کی لہراتی اُڑان، لمبی لمبی نیلی دُموں اور سنہری چونچوں والے پنکھیوں کی ب تکان چہکار اور حیران نگاہوں، تکتی گلہریوں کی سبک روی بیچ نامعلوم کو جاتا ایک راستہ نکلتا تھا، جس پر دھند کے مرغولوں کا پہرہ تھا، یہ راستہ دُور کہیں ایک نرم روشنی کے گداز قلب میں اُتر جاتا تھا۔ وہ اس اساطیری جنگل میں کھوئےہوئےاس راستے پر اُترے، جہاں بس تھوڑی ہی دُور چل کر اُن کے خواب کو ٹوٹ جانا تھا۔

اور پھر… ایک دن اُن کا خواب یوں کرچیوں میں بٹا، جیسے فرش پر پڑے کانچ کے گلاس کو کوئی بےدھیانی میں ٹھوکر مار دے۔ ’’ہیلو، امّی! وہ… دراصل آپ سے ایک بات کرنا تھی…‘‘ ’’ہاں، ہاں بولو۔‘‘ ’’وہ…یہ کہ…سمجھ نہیں آرہی، امّی کیسے کہوں؟‘‘ ’’کہہ بھی چُکو کیا بات ہے…اور سُنو! کہیں تم رو تو نہیں رہی ہو؟‘‘

شام کو شوہر اپنی قدمی موٹر سائکل صحن کی دیوار کے ساتھ ٹکا کرمارے تھکن کے بستر پرنیم دراز ہوا تو بیوی آکر سرجُھکائے بیڈ کی پٹی پر ٹک گئی اور اُس کی سوال پوچھتی نظروں کے جواب میں ایک پھیکی سی مسکان مسکا دی۔ ’’داماد نے پلاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘ اس نے دیوار پر رینگتی ایک چھپکلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ پانی پیتے ہوئے اُچھو لگنے کے باعث آدمی کھانستے ہوئے ادھ مُوا ہوگیا۔ ’’مَیں نے بہت کہا سُنا، صاف انکار کر دیا، لیکن وہ تُلا ہوا ہے۔‘‘ 

آدمی بیوی کے پیلے پڑتے چہرے کو دیکھے گیا۔ ’’کہتا ہے کہ کاروبار میں گھاٹا پڑ گیا ہے، پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔‘‘ تب بہت کچھ ہوا، بہت کچھ کہا گیا، بہت کچھ سُنا گیا، کبھی کومل، تو کبھی پنجم، لیکن آخر میں وہی ’’طلاق دے دوں گا… پلاٹ پر بندے بھیج دوں گا۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اُس رات وہ دیر تک کنول آسن میں ایک دوسرے کے سامنے گود میں ہاتھ باندھے بیٹھے رہے۔ پھر اُس نے بخار میں پُھنکتی بیوی کو دوا پلائی اور کروٹ بدل کر لیٹ گیا کہ صُبح اسے کچہری جا کر اپنا خواب ایک دوسرے آدمی کے نام لگانا تھا۔

اُس کے ہاتھ میں نوالہ دبا ہوا تھا، جسے کھائے بغیر اُس نے واپس رکھ دینا تھا۔ اِس دوران وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنی بیوی کو دیکھ رہا تھا، جو تھکن سے چُور تھی اور جس کے پچکے ہوئے گالوں میں بخار کی لالی جھلک رہی تھی۔ اب تواس کے پاس کوئی بہلاوا بھی نہ تھا کہ اپنے ساتھ ساتھ جینے والی بیوی کو بہلا سکے۔ ’’یوں کتنے دن جی پائے گی یہ؟‘‘ مرد نے دُکھ سے سوچا اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ 

اُن کے بیچ ایک طویل اور دم گھونٹ دینے والی خاموشی اتر آئی تھی، ایک خلا جسے عورت نے اپنی آواز سے بَھرنے کو کہا۔ ’’اسپغول کا چھلکا بھی ختم ہوگیا ہے، مَیں جا کر لے آتی ہوں۔‘‘ ’’کیوں، تم کیوں جاؤگی؟ مَیں نے سگریٹ لینے بھی تو جانا ہے، وہ بھی لیتا آؤں گا۔‘‘ وہ اُٹھنے کو تھا کہ دروازے پر بیل بجی، جو اُن کے لیے سخت غیرمتوقع تھی۔ 

عورت نے سراُٹھا کر کچھ سوچا اور دھیرے سے کہا۔ ’’جائیے، حیدر اور عباس آئے ہوں گے۔‘‘ اُس نے کمرے کے درمیان کھڑے ہوکر پتلون کی جیبوں میں ہاتھ ٹھونسے اور ہولے سے مُسکرایا۔ ’’نہیں ہماری بیٹی ہے…کچہری میں مِلی تھی، بتا رہی تھی کہ وہ ہمیشہ کے لیے ہمارے ساتھ رہنے آئے گی، یہ بھی کہہ رہی تھی کہ حیدراور عباس بھی آئیں گے، ہمارے ساتھ رہنے کے لیے۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید