• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رنگوں سے باتیں کرتا ہوں، رنگ گم راہ نہیں ہونے دیتے

نام وَر مصوّر، حمید بلوچ سے بات چیت
نام وَر مصوّر، حمید بلوچ سے بات چیت 

بات چیت: وحید زہیر، کوئٹہ

بلوچستان کے نام ور مصوّر، حمید بلوچ سیکھنے، سِکھانے کا شوق، جنون کی حد تک رکھتے ہیں۔ اُن کے بے شمار شاگرد مُلکی اور بین الاقوامی سطح پر نام پیدا کر چُکے ہیں، جن میں سے بعض بحیثیت استاد مختلف تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں حمید بلوچ کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس میں اُن کی شخصیت اور فن پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔

س: اپنے ابتدائی حالات، تعلیم، علاقے اور خاندان سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میرا بنیادی تعلق بلوچستان کے ضلعے سوراب سے ہے۔ میرے والد، عبدالقادر محکمۂ پولیس میں ملازم تھے۔ اُن کا تبادلہ مختلف شہروں میں ہوتا رہا، اِس لیے میری پیدائش پنج گور کی ہے۔ 1966 ء میں پیدا ہوا، چتکان پرائمری اسکول میں داخلہ لیا، پھر قلّات منتقل ہوئے، تو وہاں دوسری جماعت میں داخل ہوگیا۔ ایک سال بعد والد کا تبادلہ کوئٹہ پولیس لائن میں ہوگیا۔1972 ء میں کوئٹہ آئے، تو مَیں چھے سال کا تھا۔

اُس وقت کی بہت سی باتیں اب بھی یاد ہیں، جیسے ٹرانسپورٹ کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں، سردی یا گرمی سے بچنے کے وسائل محدود تھے۔ ہر نئے شہر میں نئے دوست تلاش کرنے ہوتے تھے۔ کہیں اپنائیت، تو کہیں اجنبیت کا سامنا کرنا پڑتا۔ چَھٹی جماعت میں مسلم آباد ہائی اسکول میں داخلہ لیا، تب اساتذہ اور دوستوں سے میل جول صحیح معنوں میں پیدا ہوا۔ 

ویسے زیادہ دوستی ہم بھائیوں کی آپس ہی میں تھی۔ بڑے بھائی ڈاکٹر عبدالصمد ڈی ایچ او کے طور پر ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ اُنہوں نے زیادہ وقت اپنے علاقے سُوراب میں عوام کی خدمت کی۔ دوسرے دو بھائی، عبدالسّلام اور جلیل احمد اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ میٹرک کے بعد مَیں نے محکمۂ ریلوے میں ملازمت اختیار کرلی۔ اِسی دوران ایف اے اور پھر بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن کی۔

نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے... (عکاسی: رابرٹ جیمس)
نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے... (عکاسی: رابرٹ جیمس)

س: فنِ مصوّری سے وابستگی کب ہوئی؟

ج: گاؤں میں دیگر بچّوں کے ساتھ مل کر مٹّی سے کھلونے بنایا کرتا تھا۔ مٹّی سے مضبوط کھلونے بنانے میں آسانی تب ہوئی، جب اپنے بڑوں کو بوریوں کے دھاگے مٹّی کے گارے میں ملا کر تندور بناتے دیکھا۔ اِس کام میں مہارت کی تعریف سُن کر خوشی ہوتی تھی۔ اِسی دوران پینسل اور کاغذ سے بھی واسطہ پڑا اور اسکیچز بنانے کا شوق ہوگیا۔ 

ہم اسکول میں سختی سے پیش آنے والے اساتذہ سے خوف زدہ رہتے تھے، جب کہ اُردو اور ڈرائنگ کے اساتذہ کی نرمی و شفقت کی وجہ سے اِن دونوں مضامین میں دل چسپی زیادہ تھی اور نمبرز بھی اچھے حاصل کرتے تھے۔ ڈرائنگ کے استاد، مرزا صاحب نے آٹھویں جماعت میں کلاس کو شیخ چلی کی کہانی سُنائی اور اگلے دن اُس کی تصویری کہانی پیش کرنے کا حکم دیا۔ 

مَیں نے کہانی کے مطابق اسکیچز بنائے۔ جب کلاس میں میرے اسکیچز دکھائے گئے، تو استاد نے میرے کام کی تعریف کی اور کلاس میں دیر تک تالیاں بجیں۔ بس یوں سمجھیں، اُسی روز میرے استاد نے مجھے اپنے اندر کے فن کار سے ملوا دیا تھا۔ اس کے بعد میرے ایک شاعر دوست مجھے اشعار دے کر اُن کے اسکیچز بنواتے۔

س: کیا یہ فن کسی سے باقاعدہ طور پر بھی سیکھا؟

ج: 1985ء میں میرے دوست، سیف اللہ، جو بعد میں مصوّر بنے اور کورونا وَبا کے دَوران اُن کا انتقال ہوا، آرٹس کاؤنسل، کوئٹہ کی جانب سے چَھپا ہوا ایک اشتہار لے کر آئے اور بتایا کہ وہاں فنِ مصوّری کی کلاسز شروع ہو رہی ہیں۔ 

ہم نام وَر مصوّر، پروفیسر کلیم خان کے روبرو پیش ہوئے اور ہمارا داخلہ ہوگیا۔ وہ بہت ہی پیارے انسان ہیں، اُنہوں نے قدم قدم پر میری رہنمائی کی اور اُنہوں ہی نے مجھے بلوچستان یونی ورسٹی کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لینے کی ترغیب بھی دی۔

س: کتنے طلبہ نے آرٹس کاؤنسل میں داخلہ لیا تھا؟

ج: اُس وقت دو درجن سے زائد طلبہ نے داخلہ لیا تھا۔ برائے نام 50 روپے فیس مقرّر کی گئی تھی کہ اکثر طلبہ فیس ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ پروگرام آفیسر، نام وَر افسانہ نگار خادم مرزا کے ذمّے فیس جمع کرنا تھا، لیکن وہ بھی اِس معاملے میں زیادہ چھیڑ چھاڑ نہیں کرتے تھے۔

میٹریل کافی منہگا ہوا کرتا تھا، جب کہ آرٹس کاؤنسل کی تو مخصوص گرانٹ تھی، اس کے باوجود ممتاز شاعر، عطا شاد، جو سیکریٹری ثقافت و اطلاعات تھے اور عبداللہ بلوچ، جو ایگزیکٹیو ڈائریکٹر تھے، مصّوری اور موسیقی سے دل چسپی رکھنے والوں کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی میں پیش پیش تھے۔ میری سنجیدگی، کام میں دل چسپی اور مہارت دیکھ کر کلیم خان اپنی ذاتی اشیاء بھی مجھے استعمال کے لیے دے دیتے۔

س: فائن آرٹس میں کس عنوان پر تھیسز پیش کیا تھا؟

ج: پینٹنگ میں تھیسز پیش کیا تھا۔ ویسے مَیں اسکیچز پر زیادہ مہارت رکھتا تھا، مگر وہ کافی منہگا پڑ رہا تھا۔ فائبر گلاس بھی کافی منہگا تھا، کیوں کہ کراچی سے منگوانا پڑتا تھا، اِسی طرح ووڈ کرونگ بھی ہماری دسترس سے باہر تھی۔

مالی حالت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے کافی عرصے تک یونی ورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے ٹال مٹول سے بھی کام لیتا رہا، بعد میں ممتاز مصوّر، پروفیسر اکرم دوست نے میری بھرپور حوصلہ افزائی کی۔

س: پھر آپ آرٹس کاؤنسل میں بطور مصوّر انسٹرکٹر بھی کام کرتے رہے؟

ج: 1985 ء سے2010 ء تک میں آرٹس کاؤنسل، کوئٹہ میں فائن آرٹس کی کلاسز میں مختلف حیثیتوں سے کام کرتا رہا۔ اِسی دوران محکمۂ ثقافت میں باقاعدہ ڈائریکٹوریٹ کا قیام عمل میں آیا اور آرٹس کاؤنسل بند ہوگئی۔ عبداللہ بلوچ کا تبادلہ ہوا، کنٹریکٹ ملازمین فارغ کر دیے گئے۔

عین سلام، خادم مرزا، جاوید ناصر، نصیر ناز، بلال احمد، پروفیسر کلیم خان اور مَیں آرٹس کاؤنسل کا حصّہ نہیں رہے، جس کا بے حد افسوس ہوا۔ گوکہ یہاں سے ملنے والی اجرت کم تھی، مگر ہمارا خدمت اور شوق کا جذبہ کہیں زیادہ تھا۔ 

مصوّری سیکھنے والوں کو بھی کافی مایوسی ہوئی۔ اُس وقت آرٹس کاؤنسل کے زیرِ اہتمام تھیٹر، قومی سطح پر مشاعرے، موسیقی کے بڑے پروگرامز اور مُلک گیر تصویری نمائشیں ہوا کرتی تھیں، جن میں مُلکی و غیر مُلکی فن کار شرکت کرتے۔ اب سُنا ہے، آرٹس کاؤنسل کا ایکٹ پاس ہوچُکا ہے اور اسے فعال کرنے پر کام ہو رہا ہے۔

س: آرٹس کاؤنسل سے فراغت کے بعد کیا مصروفیات رہیں؟

ج: پڑھنے، پڑھانے یا سیکھنے، سِکھانے کا عمل رُک گیا۔ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ کیا کیا جائے، تو کمشنر کوئٹہ(جو ایڈمنسٹریٹر میونسپل کارپوریشن بھی تھے) نسیم لہڑی کا ایک پیغام موصول ہوا۔ اُن کی ادب دوستی اور فن شناسی سے ہم بخوبی واقف تھے۔ مَیں نے اپنے دوستوں مصوّر مظہر، اشفاق، نسیم اور اکبر دین کے ساتھ اُن سے ملاقات کی۔

اُنہوں نے ہمیں فنِ مصوّری کی دوبارہ کلاسز شروع کرنے کا کہا، جس کے لیے شہر میں بلدیہ کمپلیکس میں جگہ بھی فراہم کر دی گئی۔ ایک ہال اور دو کمروں پر مشتمل جگہ کو ہم نے’’شال اکیڈمی‘‘ کا نام دیا۔ ایم پی اے، راحیلہ درّانی نے ہمیں گیلری بنانے میں مدد دی اور نمائشوں میں ہماری حوصلہ افزائی کی۔

س: کوئی سرکاری فنڈز وغیرہ بھی ملتے ہیں؟

ج: نسیم لہڑی کمشنر نہیں رہے، جب کہ بچّوں سے معمولی فیس جمع ہوتی ہے اور باقی اخراجات ہم اپنی جیب سے پورے کرتے ہیں۔ اکیڈمی میں بجلی اور گیس نہیں ہے۔ برابر میں براہوی اکیڈمی ہے، جس کی شمسی توانائی کی سہولت سے دو، چار بلب روشن ہوجاتے ہیں۔ 25 سے زیادہ طلبہ کو داخلہ دینے کی گنجائش نہیں۔ اب بھی مصوّری کا مٹیریل خاصا منہگا ہے، مگر کوئٹہ میں دست یاب ہے۔ یوں بس گزارہ کر رہے ہیں۔

س: کیا بطور مصوّر نمائشوں میں بھی حصّہ لیتے ہیں؟

ج: جی ہاں، پنجاب آرٹس ایسوسی ایشن ہر سال نمائش کا اہتمام کرتی ہے، جس میں ہم دوست حصّہ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی گروپ شوز میں حصّہ لیتا ہوں۔ ایک عرصے تک کوئٹہ میں بھی اِس قسم کے گروپ شوز ہوا کرتے تھے، جو آرٹس کاؤنسل کے عروج کا زمانہ تھا، مگر اب تو آرٹس کاؤنسل ہی کا وجود باقی نہیں رہا۔

س: مصوّری پر آپ کی تصویری کتاب بھی تو ہے؟

ج: ’’میموریز آف کوئٹہ‘‘ کے نام سے میری1935 ء کے زلزلے سے قبل کی پینٹنگز پر مشتمل ایک کتاب ہے، جسے لاہور کے ایک پبلشر نے شائع کیا ہے۔ سبّی میلے، اسلام آباد میلے اور بعض دیگر فیسٹیولز میں شرکت کر چُکا ہوں۔

س: آپ کی پینٹنگز کہاں کہاں نمایاں ہیں؟

ج: مَیں نے بے شمار کتابوں کے ٹائٹلز بنائے ہیں۔ میر یوسف عزیز مگسی، عطا شاد، عین سلام اور بعض اہم شخصیات کے پورٹریٹ بنائے۔ بلوچستان ہائی کورٹ میں میری بنائی ہوئی قائدِ اعظم محمّد علی جناح کی تصویر آویزاں ہے۔ ہمارا گروپ اوتھل زیرو پوائنٹ پر’’ پرنسز آف ہوپ‘‘ کی50 فٹ پر مشتمل یادگار بنا چکا ہے۔

مَیں نے بے شمار مونوگرامز بھی بنائے ہیں۔ اِسی طرح شہر میں مارخور کی یادگار بنائی، جب کہ کوئٹہ ایئرپورٹ کے قریب دیواروں پر میری پینٹنگز موجود ہیں۔ کوئٹہ شہر کو خُوب صُورت بنانے کے لیے دیواروں پر ثقافتی پینٹنگز کے علاوہ میرے دوست اشفاق نے ووڈ پلیٹس پر سڑکوں کے نام کندہ کرنے کا خُوب صُورت کام بھی کیا تھا۔

س: اس فن میں نوجوانوں کی شرکت کی رفتار کیا ہے؟

ج: بے سروسامانی اور حکومتی عدم دل چسپی کے باوجود بلوچستان کے تمام شہروں میں آپ کو بڑے بڑے فن کار ملیں گے۔ پروفیسر کلیم خان اور اکرم دوست کی کاوشوں سے بیوٹمز، سردار بہادر خان وومین یونی ورسٹی اور بعض دیگر اداروں میں طلبا و طالبات کے لیے فائن آرٹس کے ڈیپارٹمنٹس قائم ہو چُکے ہیں۔

ہماری خواہش تھی کہ نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور کی طرح الگ سے کوئٹہ میں کالج قائم ہو۔ آخرکار، بلوچستان سٹی کیمپس قائم کرنے کے لیے ایک شان دار عمارت بنی۔ گیلریز، کلاس رومز اور خُوب صُورت دفاتر بنائے گئے۔ 

مگر پھر اچانک اُس میں بولان میڈیکل کالج کے ایک حصّے کو داخلے کی اجازت دے دی گئی۔عمارت کو آدھا، آدھا استعمال کرنے کا فارمولا طے ہوا، لیکن اب سُننے میں آیا ہے کہ فائن آرٹس سٹی کیمپس وہاں سے بے دخل ہو چُکا ہے۔ اس عمارت پر بی ایم سی والوں کا مکمل قبضہ ہے۔ اِسی سے اربابِ اختیار کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

س: اِس عدم توجّہی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

ج: اِس رویّے کو بنی بنائی چیزوں کو بگاڑنا، سوشل سائنسز سے فرار، عوام میں منفی رجحان، غلط فہمیاں پیدا کرنا، ادب، ثقافت اور فن کی حوصلہ شکنی ہی کا نام دیا جا سکتا ہے۔ بھلا جن شعبوں سے ذہنی آب یاری ہوتی ہو، اُن کی حوصلہ شکنی کے بعد ہم نوجوانوں کی مثبت تربیت اور ترغیب کی توقّع کیسے رکھ سکتے ہیں۔

س: اپنے شاگردوں سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میرے سیکڑوں شاگرد اِس وقت مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھا رہے ہیں۔ ایک باہمّت معذور بچّی، شازیہ بتول کا کام مُلکی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔ سبّی سے تعلق رکھنے والے شیر جان لونی اور طارق لونی کا نام نمایاں ہے۔ ڈیزائننگ انڈسٹری، لاہور میں غلام احمد پڑھا رہا ہے۔ لاہور میں قیصر پی آئی ایف ڈی سے وابستہ ہے۔ لندن میں اسد درّانی بطور آرکیٹیکٹ اپنا ادارہ قائم کر چُکا ہے۔ 

اکثر بچّے، بچیاں این سی اے، لاہور یا دیگر یونی ورسٹیز میں داخلہ لینے سے پہلے ہم سے سیکھ کر جاتے ہیں۔ یہاں مصوّری کے لیے قدرتی مناظر کا احساس مثالی پھیلاؤ کے ساتھ موجود ہے، جو بلوچستان کے علاوہ کہیں نہیں ملتا۔ مہر گڑھ کی11 ہزار سالہ پرانی تہذیب سے ہمارے دعووں کی تصدیق ہوتی ہیں۔ اِس انفرادیت کے بعد تو آپ کو منفرد اور دل لبھانے والا کام ہی ملے گا۔

س: ویسے اِس شعبے کی کبھی کسی نے قدر دانی بھی کی؟

ج: جب آرٹس کاؤنسل، کوئٹہ میں گیلری کا افتتاح ہو رہا تھا، تو مہمانِ خصوصی وزیرِ اعلیٰ، نواب اکبر خان بگٹی تھے۔ اُنہوں نے گیلری میں موجود پینٹنگز دل چسپی سے دیکھیں، مصوّروں سے مختلف پہلوؤں پر بات کی اور اِس موقعے پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کی دل چسپی اور مہارت دیکھ کر مَیں کلچرل ویلیج بنانے کا اعلان کرتا ہوں۔ 

ایسا ویژنری رہنما مَیں نے کبھی نہیں دیکھا، لیکن بدقسمتی سے کچھ ہی عرصے بعد اُن کی حکومت ختم کر دی گئی۔ ایک اور بات بتاتا چلوں کہ ابھی تک بلوچستان میں ہمیں میوزیم تک نصیب نہیں۔ 

بلوچستان کی نادر اشیاء فرانس، اٹلی، کراچی اور نہ جانے کہاں کہاں پڑی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ میوزیم کی اہمیت کے پیشِ نظر اعلان شدہ میوزیم فعال کرے اور باہر پڑے اِس قومی وَرثے کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کرے۔

س: آپ کی کوئی یادگار نمائش؟

ج: قومی سطح پر صوبوں میں سی پیک کے نام سے پینٹنگز کی نمائش کروائی گئی تھی۔ پھر ان سب کی اسلام آباد میں نمائش ہوئی اور اُن میں سے ہماری پینٹنگز منتخب کر کے چین میں ایک گروپ نمائش کی گئی۔ بیرونِ مُلک کینیڈا، جرمنی، چین وغیرہ میں منعقدہ گروپ نمائشوں میں بھی حصّہ لے چُکا ہوں۔

س: فنِ مصوّری میں آپ کا مخصوص شعبہ کون سا ہے؟

ج: لینڈ اسکیپ مناظرِ قدرت، جیسے کہ بے شمار رنگ ہیں، جن سے مَیں گفتگو کرتا ہوں، اُنہیں آنکھوں میں سمائے ٹھنڈک محسوس کرتا ہوں۔ مَیں نے محسوس کیا کہ رنگوں کی دنیا میں بسنے والا انسان مزاجاً نرم خُو ہوتا ہے۔ رنگ، انسان کو گم راہ نہیں ہونے دیتے۔ رنگوں میں نفرت کے علاوہ، ہر کیفیت کے رنگ ہوتے ہیں۔

س: کیا کتابیں بھی پڑھتے ہیں؟

ج: بچپن سے کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ ہم بھائی، کزن، دوست’’آنہ لائبریری‘‘ سے کتابیں لے کر آپس میں اُن کا تبادلہ کرتے۔ اِس طرح ایک کتاب کا کرایہ ادا کر کے سب بہت ساری کتابوں سے مستفید ہوتے۔ اِن کتابوں میں جاسوسی اور تاریخی ناولز زیادہ ہوتے تھے۔ اب پڑھنے کی وہ رفتار نہیں رہی۔ ہاں، مگر اب موسیقی زیادہ سُنتا ہوں اور انجوائے کرتا ہوں۔

س: کتنی زبانیں بول لیتے ہیں؟

ج: بلوچی، اردو، براہوی، پشتو، پنجابی، فارسی، جب کہ سرائیکی اور سندھی سمجھتا ہوں، مگر بول نہیں سکتا۔ زبانیں میٹھی ہوتی ہیں، اِس لیے بولنے اور سیکھنے کو دل کرتا ہے۔

س: اب تک کتنے ایوارڈز مل چُکے ہیں؟

ج: دو مرتبہ بلوچستان حکومت کی جانب سے ایکسیلینسی ایوارڈ حاصل کر چُکا ہوں۔ پنجاب آرٹسٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے بھی ایوارڈز ملے ہیں۔ باقی اور بھی انعامات ہیں، لیکن میرا سب سے بڑا اعزاز میرا کام اور میرے شاگرد ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید