بات چیت: منور راجپوت
سلمان عبداللہ مُراد، کراچی کے نوجوان ڈپٹی میئر ہیں۔ اُن کے والد، عبداللہ مُراد سندھ اسمبلی کے رُکن رہے، جب کہ وہ خُود وزیرِ اعلیٰ سندھ کے مشیر، ڈسٹرکٹ کاؤنسل کراچی کے چیئرمین اور پیپلز پارٹی ضلع ملیر کے صدر رہ چُکے ہیں۔
گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں اُن کی سیاسی جدوجہد اور شہری مسائل سے متعلق گفتگو ہوئی، جو جنگ،’’سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔
……٭٭……٭٭……
س: سب سے پہلے تو اپنے بارے میں کچھ بتائیے؟
ج: میرا بلوچ کلمتی قبیلے سے تعلق ہے۔ ہمارا خاندان گوادر کے قریب واقع ایک گاؤں سے مدّتوں پہلے کراچی منتقل ہوا۔ میری، میرے والد اور دادا کی پیدائش کراچی ہی میں ہوئی۔ ہمارا قبیلہ کراچی کے قدیم باسیوں میں سے ہے، جب کہ کلمتی بلوچ کراچی کے علاوہ، بلوچستان، ایران اور خلیجی ممالک میں بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
س: سیاسی سفر کا آغاز کیسے ہوا؟
ج: ہم پیدائشی پیپلز پارٹی کے کارکن ہیں۔ میرے والد، عبداللہ مُراد 2002ء میں ملیر سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سندھ اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے تھے۔ اِس سے قبل وہ قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ چُکے تھے۔ وہ’’آصف علی زرداری رہائی کمیٹی، کراچی‘‘ کے صدر اور پیپلز پارٹی، ملیر کے جنرل سیکریٹری تھے۔ میرے چچا، امام بخش بلوچ ملیر ڈسٹرکٹ کے چیئرمین رہے۔
اُن کی ذوالفقار علی بھٹو سے گہری وابستگی تھی۔ وہ جب پہلی بار ملیر آئے، تو میرے چچا ہی نے اُن کا استقبال کیا تھا۔ چوں کہ والد صاحب سیاسی معاملات میں مصروف تھے، تو مَیں بزنس دیکھتا تھا۔ اُس زمانے میں کراچی میں سیاست کرنا بہت مشکل کام تھا، یہاں تک کہ میرے والد صاحب قتل کردئیے گئے۔مَیں طالبِ علمی کے دَور میں پی ایس ایف میں شامل رہا اور کئی عُہدوں پر بھی کام کیا۔
والد کے ساتھ مختلف پروگرامز میں جاتا، سیاسی افراد سے ملاقاتیں بھی ہوتیں، جس سے سیاسی اور عوامی معاملات سمجھنے میں بہت مدد لی۔ تاہم، مَیں والد کے قتل کے بعد ہی سیاسی طور پر زیادہ متحرّک ہوا تاکہ پارٹی اور عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرسکوں۔
پارٹی قیادت نے مجھ پر اعتماد کیا اور اُس موقعے پر بی بی صاحبہ(بے نظیر بھٹو) نے مجھے دبئی بلوایا اور حوصلہ دیا، جب کہ آصف علی زرادری نے بھی میری بھرپور سرپرستی کی۔جب وہ گرفتار تھے، تو مَیں ہر پیشی پر اُن سے ملاقات کے لیے جاتا اور اُن کی رہائی کے لیے میرے والد نے جس تحریک کا آغاز کیا تھا، اُسے مزید آگے بڑھایا۔ آج اُنہی کی مہربانی سے اِس عُہدے اور مقام پر ہوں۔
س: آپ کے خیال میں کراچی کے چند بڑے اور اہم مسائل کون سے ہیں؟
ج: کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پینے کے پانی کی فراہمی کا ہے۔ ’’کے-فور‘‘ منصوبے پر کام تو ہو رہا ہے، مگر وہ کافی عرصے سے تعطّل کا شکار ہے۔ اِس ضمن میں بلاول بھٹو زرداری نے وزیرِ اعظم کو اِس منصوبے کی جانب متوجّہ کیا ہے تاکہ یہ جلد سے جلد مکمل ہو اور شہریوں کو پانی مل سکے۔
بے ڈھب تعمیرات بھی شہر کا ایک بڑا مسئلہ ہے، جب کہ ناقص سیوریج نظام کی وجہ سے جہاں شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہیں سڑکیں وغیرہ بھی ٹوٹ پُھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اِن مسائل کے مستقل اور دیرپا حل کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کراچی کا ایک جامع ماسٹر پلان بنا رہی ہے۔
س: ایک عام تاثر یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کراچی کو اون نہیں کرتی؟
ج: پیپلزپارٹی ہی نے تو کراچی کو اون کیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار کراچی کی بلدیاتی قیادت پیپلزپارٹی کے پاس آئی ہے، جو مخالفین کو ہضم نہیں ہو رہی، اِسی لیے وہ ایسی بے سروپا باتیں کرتے ہیں۔ یہ دفاتر پہلے بھی یہاں موجود تھے، مگر آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ یہاں عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے اِتنی بڑی تعداد میں آتے ہوں۔
عوام کا اِس کثرت سے ہمارے پاس آنا اِس امر کا ثبوت ہے کہ ہم اُن کے مسائل حل کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے واضح ہداہت کر رکھی ہے کہ کسی تفریق کے بغیر شہر کے تمام اضلاع میں ترقیاتی کام اور عوامی مسائل حل ہونے چاہئیں۔ جس علاقے میں ہمارا کاؤنسلر تک نہیں، ہم وہاں بھی کام کر رہے ہیں، کیوں کہ یہ پورا شہر ہمارا ہے۔ اِس نے ہمیں پہچان دی ہے اور یہ شہر پورا مُلک چلاتا ہے، تو ہم سب کو اِس کی بہتری کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔ یہ بات واضح ہوچُکی کہ اب یہاں لسانیت یا تعصّب کی سیاست کی کوئی جگہ نہیں۔
س: پیپلز پارٹی کی صوبے میں برسوں سے حکومت ہے، دوسری طرف پنجاب مسلم لیگ نون کے پاس ہے، تو کیا اِن دونوں صوبوں کے دارالحکومتوں، کراچی اور لاہور کا شہری سہولتوں کے لحاظ سے موازنہ نہیں ہونا چاہیے؟
ج: بالکل بھی نہیں، کیوں کہ جتنا لاہور ہے، اِتنا تو ہمارا گلستانِ جوہر ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کراچی’’ مِنی پاکستان‘‘ ہے۔ یہاں تمام صوبوں، کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگ رہتے ہیں۔ اِس لیے محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے منفی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ پیپلزپارٹی شہر کے اسپتالوں میں جو بہتری لائی ہے، اُس کے سبب اب یہاں پنجاب سمیت مُلک بھر سے لوگ علاج معالجے کے لیے آتے ہیں۔
ہماری حکومت نے یہاں انڈر پاسز، فلائی اوورز اور سڑکیں تعمیر کی ہیں۔ پیپلز بس سروس کے ذریعے شہریوں کو بہترین سفری سہولتیں فراہم کر رہے ہیں اور اس کا نیٹ ورک مزید پھیل رہا ہے۔ کئی منصوبے پائپ لائن میں ہیں، جن کی تکمیل سے شہر کے کئی بڑے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کراچی مُلک کا معاشی حب اور مِنی پاکستان ہے، تو وفاقی حکومت کو اِس کے لیے خصوصی پیکیجز اناؤنس کرنے چاہئیں۔
س: آپ کا ملیر سے تعلق ہے، مگر وہاں قدرتی ماحول بہت تیزی سے بگڑ رہا ہے، یہ بھی بتائیے آپ نے اُس علاقے کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟
ج: اگر کوئی شخص اپنی ذاتی زمین بیچنا چاہے، تو ہم اُسے کس طرح روک سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ کراچی بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور اب اِس کا پھیلاؤ جام شورو تک ہو گیا ہے، اِس صُورتِ حال کے اثرات ملیر پر بھی مرتّب ہو رہے ہیں۔
تاہم، ملیر، گڈاپ یا دیگر ملحقہ علاقوں میں اب بھی کھیت اور باغات ہیں۔ جہاں تک علاقے کی خدمت کا تعلق ہے، تو میرے والد نے پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے وہاں کے عوام میں سیاسی شعور بے دار کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنے حقوق سے واقف ہوسکیں۔
ہم نے علاقے میں اسکولز اور اسپتال تعمیر کروائے، سڑکیں بنوائیں۔ میرے والد مالکانہ حقوق کے لیے مسلسل آواز اُٹھاتے رہے۔ ہم اپنے حلقے کے عوام کو ہر وقت دست یاب ہیں۔ اُن کے مسائل، خواہ وہ بلدیاتی اداروں سے متعلق ہوں یا کسی اور سے، حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ دیکھیں، اِس وقت بھی لوگ یہاں موجود ہیں اور ہم اُن سے ہر ممکن تعاون کر رہے ہیں۔ اِس وقت میئر اور ڈپٹی مئیر، دونوں کا تعلق ملیر سے ہے، جب کہ وہاں سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی تمام نشستوں پر بھی پیپلز پارٹی نے کام یابی حاصل کی۔
اِس کا مطلب ہے کہ پیپلز پارٹی نے وہاں ڈیلیور کیا ہے، تبھی تو عوام اُس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارے کولیگ مسلم لیگ نون میں چلے گئے تھے، مگر وہاں اُنھیں عزّت نہیں ملی، یہاں تک کہ نون لیگ کے وزیرِ اعظم نے اُن کے حلقے میں آکر موٹروے منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا، تو اُس تقریب تک میں اُنھیں مدعو نہیں کیا گیا، جب کہ وہ کراچی سے اُن کے واحد ایم این اے تھے۔
وہ صاحب دوبارہ پیپلز پارٹی میں آگئے، کیوں کہ یہ پارٹی اپنے کارکنان اور نمایندوں کو عزّت دیتی ہے۔ آصف زرداری ہوں، بلاول بھٹو یا فریال تالپور، ان سب تک رسائی بہت آسان ہے، جب کہ باقی ارکانِ اسمبلی اپنی پارٹی قیادت سے ملنا تو دُور کی بات، ہاتھ ملانے تک کو ترستے ہیں۔
س: آپ کے اپوزیشن سے کیسے تعلقات ہیں؟
ج: بلدیہ عظمیٰ میں اپوزیشن لیڈر، سیف الدّین ایڈووکیٹ سے اچھے تعلقات ہیں، وہ شہر کی بہتری کے لیے ہمارے ساتھ بیٹھتے ہیں، مشورے بھی دیتے ہیں، مگر وہ بھی اپنی جماعت کے سامنے کہیں نہ کہیں مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہمیں پارٹی قیادت نے یہی کہا ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے، تو ہم شہر کے لیے سب سے تعاون کے لیے تیار ہیں اور تعاون کی اُمید بھی رکھتے ہیں۔
س: صوبائی حکومت اور گورنر صاحب کس قدر تعاون کر رہے ہیں؟
ج: سندھ حکومت کا تو مکمل تعاون حاصل ہے۔ حکومت اور بلدیاتی قیادت مل کر شہر کی بہتری کے لیے کام کر رہی ہے۔ جہاں تک گورنر سندھ کی بات ہے، تو اُنہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ سیاسی بیان بازی اور عملی کام میں بہت فرق ہوتا ہے۔
میئر کراچی نے اُنھیں خط لکھا ہے کہ ہم نے شہر کی تعمیر وترقّی کے لیے جو اسکیمز تیار کی ہیں، وہ وفاقی حکومت سے اُن کی منظوری دِلوا دیں۔ ہم اُن کے جواب کے منتظر ہیں۔ پیپلز پارٹی دِکھاوے کی سیاست نہیں کرتی، بلکہ ہم پہلے کام کرتے ہیں، پھر بتاتے ہیں کہ ہم نے یہ کیا ہے۔
س: بلدیاتی اداروں کے اختیارات سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے، اِن میں کچھ کمی بیشی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟
ج: دیکھیں، بہتری کی ضرورت اور گنجائش تو ہر جگہ ہوتی ہے۔ اِسی طرح بلدیاتی اداروں کے نظام و اختیارات پر بھی کئی پہلوؤں سے بات ہوسکتی ہے، البتہ ہمیں یہ خوشی ہے کہ صوبائی حکومت اور پارٹی قیادت مکمل طور پر ہماری پُشت پر موجود ہے اور جہاں کوئی رکاوٹ پیش آتی ہے، اُسے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہم نے افسران کو جو اہداف دئیے تھے، وہ اُسے پورا کر رہے ہیں۔
ہم ایک اچھے ٹیم ورک کے ساتھ کام کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ عوام کو اپنی آنکھوں سے صُورتِ حال بہتر ہوتی نظر آ رہی ہے۔ تاہم، کئی معاملات میں کوآرڈینیشن کی بہت زیادہ کمی محسوس ہوتی ہے، مثال کے طور پر صوبائی حکومت یا کے ایم سی کی جانب سے کوئی سڑک بنائی جاتی ہے، تو بعض ادارے ٹاؤن انتظامیہ سے اجازت لے کر اُسے کھود ڈالتے ہیں۔
اب جس ٹاؤن نے اِس توڑ پھوڑ کی اجازت دی ہے، اُس کی ذّمے داری ہے کہ وہ سڑک کی مرمّت بھی کروائے، مگر وہ ایسا نہیں کرتی اور شہریوں کی تنقید کے ایم سی کو برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اِسی طرح ٹاؤنز اور یونین کاؤنسلز کو بھی کام کرنا پڑے گا، کیوں کہ شہر کے اندرونی علاقوں کے بہت سے معاملات کی وہ ذمّے دار ہیں اور اِس مقصد کے لیے اُنھیں فنڈز بھی دئیے جاتے ہیں، مگر بدقسمتی سے کئی ٹاؤنز اور یونین کاؤنسلز کارکردگی دِکھانے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں، جس کا خمیازہ عوامی تنقید کی صُورت کے ایم سی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔