• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے ساتھ برسوں کی سردمہری اور بھارت پر نوازشات کی بارش کے بعد امریکہ نے اپنی خارجہ پالیسی کا رخ تبدیل کیا ہے، جس سے نہ صرف پاک امریکہ تعلقات بحال ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، بلکہ امریکی قونصل جنرل سٹینسن اینڈرس کے مطابق نئی بلندیوں کو چھونے لگے ہیں۔ متلون مزاج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت اور افغانستان سے تنازعات اور اسرائیل سمیت کئی معاملات میں پاکستان سے اختلافات کے باوجود دنیا کے واحد اسلامی ایٹمی ملک سے اپنے تعلقات مضبوط بنانے کا جوفیصلہ کیا ہے، وہ اہل پاکستان کیلئے چونکا دینے والا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم پیش رفت پاکستان اور امریکہ کے درمیان اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدے پر بات چیت کاشروع ہونا ہے، جسکے تحت امریکہ پاکستان کو نہ صرف فضا سے فضا میں مار کرنے والے جدید ترین میزائل اور لڑاکا طیارے فراہم کرے گا بلکہ کم ٹیرف کے عوض نایاب معدنیات کی ترقی میں بھی مدد دے گا جو پاکستان کا سب سے بڑا سرمایہ ہیں۔ صدر ٹرمپ نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے، امن کا نوبل انعام حاصل کرنے کی خواہش میں عالمی امن کے علمبردار کے طور پر خود کو منوانے کیلئے کوشاں ہیں اور دنیا کو جنگوں سے دور رہنے اور تجارت پر توجہ دینے کا درس دے رہے ہیں۔

وہ کئی ملکوں کے دورے صرف جدید ٹیکنالوجی میں کام آنے والی قیمتی معدنیات کی تلاش کے مشن کیلئے کررہے ہیں۔ یہ معدنیات جدید میزائلوں اور لڑاکا طیاروں میں بنیادی خام مال کے طور پر استعمال ہوتی ہیں اور انکی پیداوار اور پراسینگ کا زیادہ تر حصہ چین کے کنٹرول میں ہے۔ ٹرمپ اس وقت ایک تو چین کی یہ اجارہ داری توڑنے اور دوسرے پاکستان سمیت مختلف ملکوں کو چین کے اثر و رسوخ سے دور رکھنے کے مشن کو اپنائے ہوئے ہیں۔ جاپان، ملائیشیا اور تھائی لینڈ وغیرہ سے انہوں نے اسی سلسلے میں تجارتی معاہدے کرلیے ہیں اور پاکستان بھی ان کا ایک اہم ہدف ہے۔ معدنیات کی پہلی کھیپ پاکستان سے امریکہ روانہ کیے جانے کی خبر اس سلسلے کی کڑی ہے۔ مجوزہ تجارتی معاہدہ جسکے نتیجے میں پاکستان کو امریکی میزائل اور لڑکا طیارے مل سکتے ہیں۔ چین سے دور رکھنے کی ہی ایک کوشش ہے، ورنہ ماضی میں امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی طرفداری کی ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان کو دولخت کرنے میں بھی اس کی پس پردہ مدد شامل تھی۔ بظاہر اس نے پاکستان کی مدد کیلئے بحر ہند میں اپنا ساتواں بحری بیڑہ بھیج دیا مگر آگے نہ جانے دیا۔ یہ تو مئی کی جنگ میں بھارت کو پاکستان کے ہاتھوں بری طرح شکست کا نتیجہ ہے کہ نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کو ایک طاقت کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا ہے اور صدر ٹرمپ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی جنگی صلاحیتوںاور وزیراعظم شہبازشریف کےتدبر اور دوراندیشی کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہیں۔ ٹرمپ نے مداخلت کرکے پاک بھارت جنگ رکوائی، جس کا ذکر وہ بار بار کررہے ہیں۔

پاکستان نے اس کے اعتراف میں سب سے پہلے صدر ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کیلئے نامزد کیا جبکہ بھارت سرے سے اس جنگ کو ختم کرانے میں ان کے کردار سے انکار کررہا ہے۔ وہ اسے دوطرفہ معاملہ قرار دیتا ہے۔ بھارت امریکی خواہش کے برخلاف روس سے تیل درآمد کررہا ہے اور اس کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اس پر امریکہ بھارت سے ناراض ہے۔ ایک وقت میں بھارت اس خطے کی سب سے بڑی طاقت ہونے کی دوڑ میں شامل تھا مگر افغانستان کے سوا بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان وغیرہ سمیت تمام ممالک اس کے اثر سے اب آزاد ہوچکے ہیں۔ امریکہ کو یہ سب کچھ نظر آرہا ہے، اس نے شاید وقتی طور پر بھارت کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کی ہےا ور پاکستان سے تعلقات مستحکم کرنے کی ٹھانی ہے۔ اس لیے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو متوازن رکھنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت ایک پیج پر ہونے کی وجہ سے امریکہ کے مفاد میں ہے کہ وہ پاکستان کو ساتھ لے کر چلے۔ امریکی کسی کا ساتھ دینے میں تکبر کی حد تک اپنے مفاد کو سب سے پہلے دیکھتے ہیں۔ چین، پاکستان کا ہر مشکل میں آزمایا ہوا دوست ہے، جبکہ امریکہ اپنے دوست بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان اس وقت بڑی کامیابی سے دونوں بڑے ملکوں کے ساتھ تعلقات متوازن رکھے ہوئے ہے، لیکن دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں آگے چل کر مشکلات بھی پیش آسکتی ہیں۔ پاکستان کو اپنی سالمیت اور قومی خودمختاری قائم رکھنے کیلئے محتاط رہنا ہوگا۔یاد رکھنا چاہئےکہ امریکہ پاکستان سےدفاعی معاہدے کیلئےابھی صرف بات چیت کررہا ہے۔ جبکہ بھارت سے اسنےدفاعی معاہدے پر دستخط بھی کرلئے ہیں۔ صدر ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کی جنوبی کوریا میں جو ملاقات ہوئی اس میں ان دونوں ملکوں کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ طے پایا ہے۔ چین نے واشنگٹن کیلئے نایاب معدنیات کی برآمد پر پابندیاں ایک سال کیلئے موخر کردی ہیں اور امریکہ نے چینی مصنوعات پر اضافی سو فیصد ٹیرف ختم کردیا ہے۔ یہ باہمی اختلافات ختم ہونے کی جانب بڑی پیش رفت ہے۔ اس سے عالمی معاشی تنائو میں کمی آئے گی اور ان دونوں ملکوں میں تعلقات کی نئی راہیں کھلیں گی جو پاکستان کیلئے فائدہ مند ثابت ہوں گی۔ توقع کی جانی چاہیے کہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی مسائل کے باوجود مثبت اور متوازن سوچ کی مدد سے پاکستان امریکہ اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات خوشگوار اور اسلامی بلاک اور بین الاقوامی برادری میں بھی اپنا مقام برقرار رکھے گا۔

تازہ ترین