• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اوکاڑہ میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے گوگیرہ جو انگریزوں کے دور میں ضلعی صدر مقام ہوا کرتا تھا اس کیساتھ ہی کھرل قبیلے کا گائوں جھامرا ہے۔ یہاں پنجاب کی دھرتی کے عظیم سپوت رائے احمد خان کھرل نے انگریز سرکار کیخلاف ایسی جدوجہد کی جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ ڈپٹی کمشنر گوگیرہ ایلفنسٹن نے کھرل قبیلے کے سردار رائے احمد خان کھرل کو کہا کہ حریت پسندوں کا قلع قمع کرنے کیلئے حکومت کا ساتھ دیں جس پر رائے احمد خان کھرل نے کہا کہ وہ اپنی زمین، خواتین اور گھوڑے کسی کو دینے کے روادار نہیں۔ موجودہ ضلع پاکپتن بھی ضلع گوگیرہ کی تحصیل ہوا کرتا تھا، اسکا گائوں ’’لکھوکی‘‘جو دریائے راوی کنارے آباد تھا، وہاں کی جوئیہ برادری نے انگریز سرکار کیخلاف بغاوت کا علم بلند کرتے ہوئے ٹیکس دینے سے انکار کر دیا۔ انگریز سرکار نے جوئیہ قبیلے کے سینکڑوں افراد کو حراست میں لے لیا۔ چند افراد کو تو رائے احمد خان کھرل کی مداخلت پر رہا کر دیا گیا مگر زیادہ تر حریت پسند گوگیرہ جیل میں قید تھے۔ رائے احمد خان کھرل کے تعاون سے یہ مجاہدین ،ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سمیت کئی فرنگی افسروں کو قتل کرنے کے بعد جیل توڑ کر فرار ہوگئے تو رائے احمد خان کو گرفتار کرلیا گیا مگر پھر عوامی دبائو پر انہیں رہا کرنا پڑا۔رائے احمد خان کھرل نے16ستمبر 1857ء کو ہڑپہ کے قریب مراد کے کاٹھیا میں تمام سرداروں کا ایک خفیہ اجلاس میں بلایا تاکہ انگریز سرکار کیخلاف مربوط اور منظم جدوجہد کی جا سکے۔16ستمبرکے خفیہ اجلاس جس میں وٹو، کاٹھیئے، فتیانے، قریشی اور جوئیے سردار شامل تھے، اس میں رائے سرفراز خان کھرل بھی موجود تھا مگر اس نے اپنی قوم سے غداری کی اور اجلاس کے بعد کمالیہ جانے کے بجائے گوگیرہ آگیا اور انگریز ڈپٹی کمشنر کو مجاہدین کے منصوبے سے آگاہ کر دیا۔ مجاہدین کے پیش قدمی کرنے سے پہلے ہی انگریز فوجی دستے راوی عبور کرکے جھامرا میں داخل ہوگئے اور گائوں نذر آتش کردیا۔ رائے احمد خان کھرل کی قیادت میں مجاہدین تو ہاتھ نہ آئے مگر عام افراد کو مشق ستم بنایا گیا۔ راوی کنارے وٹوئوں کا گائوں ’’اکبر‘‘ مجاہدین کا گڑھ بن گیا اور یہاں سے پانچ میل کے فاصلے پر گشکوری کے جنگلات میں حریت پسندوں نے ڈیرے ڈال دیئے۔ لاہور، ملتان اور دیگر علاقوں سے آئے انگریز فوجی دستے جنہیں بیشتر سرداروں، جاگیرداروں اور گدی نشینوں کی حمایت حاصل تھی، انہوں نے جنگل کو گھیرے میں لے لیا۔ رائے احمد کھرل کو اس وقت گولی مار کر شہید کردیا گیا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کیلئے رائے احمد کھرل کا سر کاٹ کر جھامرا میں لٹکا دیا گیا۔ مگر انکے چاہنے والوں نے رات کو چپکے سے سر اُتار کر اسے گھڑے میں ڈالا اور قبر کے پاس دفن کردیا۔ رائے احمد کھرل کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے رائے محمد خان کھرل نے مجاہدین کی قیادت سنبھالی، چھوٹے بیٹے رائے محبت خان اور رائے باہلک خان جو لڑکپن میں تھے انہوں نے بھی جدوجہد آزادی میں حصہ لیا۔ رائے احمد کھرل کے جانباز ساتھی مراد فتیانہ تلملاتے رہے اور انکی شہادت کا بدلہ لئے بغیر چین سے نہ بیٹھے۔ گوگیرہ کے اسسٹنٹ کمشنر لارڈ برکلے نے جنگلات میں مجاہدین کا پیچھا کرتے ہوئے پیشقدمی کی تو مراد فتیانہ نے حملہ کردیا اور خنجر کے وار کرکے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس لڑائی میں برکلے سمیت 50فوجی مارے گئے۔ لارڈ برکلے کی قبر آج بھی اوکاڑہ کے گائوں گوگیرہ میں موجود ہے۔رائے احمد کھرل کی شہادت کے بعد بھی انکے بیٹوں نے مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھا۔ مرداد فتیانہ سمیت کئی حریت پسندوں کو کالے پانی کی سزا کاٹنے کیلئے جزائر انڈیمان بھیجا گیا مگر انہوں نے دوران سفر چھلانگیں لگا دیں اور نہ صرف بچ نکلے بلکہ اپنے علاقے میں واپس لوٹ آئے۔دوسری طرف انگریزوں کی چاکری کرنیوالوں نے غداری کا صلہ پایا ۔گریفن کی کتاب The punjab Chiefsکے مطابق انگریزوں کیلئے مخبری کرنیوالے سرفراز خان کھرل خان بہادر کا خطاب دیاگیا اور 525روپے سالانہ کی خلعت بھی عطا کی گئی ۔سرفراز کھرل کے بیٹے امیر خان کھرل کو بھی موضع سید موسیٰ کے مقام پر جاگیر عطا کی گئی۔ جان ایف کینیڈی نے کہا تھا،دشمنوں کو معاف بیشک کردو مگر ان کے نام یاد رکھو۔ضلع گوگیرہ میں جن لوگوں نے انگریزوں سے وفاداری اور اپنی قوم سے غداری کی ،انکے نام بھی نہیں بھولنے چاہئیں۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق چیچہ وطنی سے جیوے خان آرائیں، جو ساہیوال کے قریب اکبر نامی گائوں کے نمبردار تھے، کھنڈا سے سردار شاہ، کلیانہ سے ماچھی سنگھ اروڑا،ٹبی سے گلاب علی چشتی، دولا بالا سے مراد شاہ، گوگیرہ سے سید رضا شاہ نے انگریزوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی انگریزو ں کے وفادار خاندانوں کا اثر و روسوخ کم نہ ہوا۔

کمالیہ سے سابق رکن قومی اسمبلی بیلم حسنین جو پیپلز پارٹی کے نامزد کرنے پر ایم این اے بنیں ،ان کا تعلق سرفراز کھرل کے خاندان سے ہے ،اسی خاندان کے ایک اور فرد رائے خالد خان کھرل ہیں جو بھٹو دور میں لاڑکانہ کے کمشنر رہے۔ یہی وہی خالد خان کھرل ہیں جنہوں نے 1977ء کے انتخابات میں پاکستان قومی اتحاد کے امیدوار مولانا جان محمد عباسی کو مبینہ طور پر اغوا کروایا تاکہ وہ کاغذات نامزدگی جمع نہ کرواسکیں اور بھٹو بلامقابلہ منتخب ہو سکیں۔ رائے خالد کھرل کے بھائی رائے جاوید کھرل بھٹو دور میں کمالیہ سے ایم پی اے منتخب ہوتے رہے۔ بینظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں رائے خالد کھرل وفاقی وزیر رہے۔ آصف زرداری سے ناراضی کے باعث رائے خالد کھرل اور انکا بیٹا رائے حیدر کھرل پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔ اسکے برعکس مزاحمت کرنیوالے رائے احمد کھرل کی اولادکو آزادی کے بعد بھی وہ پذیرائی نہ مل سکی جسکا یہ خاندان مستحق تھا۔ رائے احمد خان کھرل کے پوتے رائے میر محمد خان ایم ایل اے بنے اور ایوب خان کے صدارتی الیکشن کے دوران فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ رائے احمد خان کھرل کے پوتے رائے جگدیو کھرل بھی ایم ایل اے بنے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت پاکستان رائے احمد خان کھرل کی قبر پر عالیشان مزار تعمیر کرواتی مگر ان کے پڑپوتے رائے علی محمد خان کھرل نے اپنی ذاتی جیب سے مزار تعمیر کروایا۔ بنگلہ گوگیرہ جسے اسکول میں تبدیل کردیا گیا،1970ء میں اسکا نام رائے احمد خان کھرل ہائی اسکول رکھا گیا مگر ضیا الحق کے دور میں رائے احمد خان کھرل کا نام ہٹا دیا گیا اور یہ گورنمنٹ ہائی اسکول گوگیرہ کہلانے لگا۔

تازہ ترین