• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوڈان وہ سرزمین ہے جہاں تاریخ نے سب سے پہلے تہذیب کا لباس پہنا ۔نیل کی لہریں جب مصر کی وادی میں زندگی بکھیرتی تھیں تو ان کا منبع سوڈان کی گود میں تھا ۔افریقہ کی وہ پہلی مملکت جس نے علم فن اور حکمرانی کو ایک ساتھ پروان چڑھایا ۔نپاتا اور مروئے کے مٹیالے کھنڈرات آج بھی گواہی دیتے ہیں کہ یہاں کبھی فرعونوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والی تہذیب آباد تھی۔ وقت گزرا عرب آئے اسلام پھیلا،نیل کے کنارے اذانوں سے گونج اٹھے۔ قرون وسطیٰ میں سوڈان تجارت زراعت اور علم کا مرکز بن گیا ۔یہ وہی ملک تھا جہاں سونا مٹی سے نکلتا اور علم دلوں سے۔ پھر سامراجی لہریں آئیں برطانیہ اور مصر نے اس پر اپنی مشترکہ چھتری تان لی۔ 1956ء میں سوڈان نے غلامی کی زنجیریں توڑدیں لیکن فوجی بغاوتیں آمریتیں اور خانہ جنگیاں اس کا مقدر بن گئیں ۔جنوبی سوڈان کی علیحدگی نے جسم کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ۔ سوڈان کی یہ تاریخ صرف ماضی نہیں ایک آئینہ ہے جو ہمیں دکھاتا ہے کہ جب قومیں اپنی یادداشت کھو دیں تو جغرافیہ ان کا ماتم کرنے لگتا ہے کہتے ہیں زمین کی یادداشت کبھی نہیں مرتی وہ اپنے اوپر بہنے والے خون پسینے اور آنسوؤں کو محفوظ رکھتی ہے۔ سوڈان کی مٹی بھی شاید آج یہی کہہ رہی ہے کہ میں نے کبھی فصلیں اگائی تھیں آج لاشیں اگا رہی ہوں ۔یہ وہی سوڈان ہے جو افریقہ کے نقشے پر امید کی طرح چمکتا تھا اب انسان کی خودغرضی کا نوحہ بن چکا ہے ۔یہ کہانی کسی ایک دن یا ایک فیصلے سے شروع نہیں ہوئی اس کا آغاز اُس دن سے ہوا جب اقتدار نے ضمیر کو شکست دی۔ 2019ء میں جب عوامی بغاوت نے عمرالبشیر کی تین دہائیوں پر محیط آمریت کا خاتمہ کیا تو سمجھا گیا کہ آزادی کا سورج طلوع ہو چکا لیکن جلد ہی اس آزادی نے اپنے ہی بیٹوں کو نگلنا شروع کر دیا۔ فوج اور نیم فوجی ملیشیا دونوں نے خود کو ریاست کا نجات دہندہ کہا مگر حقیقت میں دونوں نے ریاست کی روح کا قتل کیا ۔جنرل عبدالفتاح البرہان اور محمد حمدان دقلو حمیدتی اقتدار کی دو آنکھیں ہیں جن سے روشنی نہیں بلکہ اندھیرا نکلتا ہے ان کی جنگ تخت کیلئے ہے۔ اپریل 2023 سے یہ جنگ ایک ایسی آگ بن چکی ہے جو خرطوم سے دارفور تک ہر شہر کو جلا رہی ہے ۔الفاشر جو کبھی امن کی علامت تھا آج راکھ کا ڈھیر ہے لوگ زندہ رہنے کیلئے مردار کھانے پر مجبور ہیں ۔بچے ماؤں کی بانہوں میں دم توڑ رہے ہیں اور اسپتالوں میں جگہ نہیں ۔ریپڈ سپورٹ فورس RSF وہی جنگجو ملیشیا جو کبھی دارفور میں دہشت کی علامت تھی آج خود کو نجات دہندہ کہتی ہے انکے ہاتھوں میں بندوق ہے اور کانوں میں سونا۔ اماراتی طیارے ان کیلئے اسلحہ لاتے ہیں ،روسی جہاز بندرگاہوں کے خواب دیکھتے ہیں، مصر اپنی سلامتی کے خوف میں مبتلا ہے، امریکہ اپنے مفاد کی پالیسی میں اور اسرائیل اپنی حکمتِ مکر میں۔یہ جنگ اب محض سیاست نہیں جغرافیہ بھی بدل رہی ہے شمال فوج کے زیر اثر مغرب ملیشیا کے قبضے میں اور مشرق بندرگاہوں کے سوداگر کے حوالے یوں محسوس ہوتا ہے کہ سوڈان کا جسم باقی ہے مگر روح ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے۔ اقوام متحدہ کہتی ہے کہ ایک کروڑ سے زائد لوگ بھوک بیماری اور بے گھری کے عذاب میں ہیں ۔سوڈان کی جنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کی حرص قدرت سے بھی بڑی تباہی لا سکتی ہے جب اقتدار عبادت بن جائے تو پھر ظلم مقدس لگنے لگتا ہے۔ ہر فریق کہتا ہے وہ اصلاح چاہتا ہے لیکن زمین پر صرف خون کے دھبے چھوڑ جاتا ہے قرآن کی وہی آیت پھر گونجتی ہے جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ تو وہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔

افریقہ کبھی غلاموں کا براعظم تھا صدیوں پہلے جب یورپ کے جہاز سونا ہاتھی دانت اور انسانوں کی تجارت کیلئے یہاں لنگر انداز ہوئے تب اس زمین نے غلامی کا پہلا زخم دیکھا آج وہی براعظم ایک نئی غلامی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب بیڑیاں فولاد کی نہیں معاہدوں کی ہیں اور تلواریں لوہے کی نہیں کرنسی کی ہیں سامراج اب توپوں اور توپ خانوں سے نہیں بلکہ بینکوں اور بندرگاہوں سے آتا ہے۔ روس چین اور مغرب تین الگ نام تین نظریے مگر مقصد ایک ہی ہے اثر و رسوخ کا قبضہ سوڈان مالی نائیجر چاڈ اور کانگو جیسے ممالک اب کسی جنگی مہم کے میدان نہیں بلکہ ایک ایسی خاموش جنگ کے محاذ ہیں جہاں بندوقیں خاموش ہیں مگر قبضے جاری ہیں۔ اس پوری کہانی میں اصل سوال یہ نہیں کہ کون جیتے گا روس چین یا مغرب سوال درحقیقت یہ ہے کہ افریقہ اپنی جنگ کب جیتے گا وہ کب یہ سمجھے گا کہ اس کی تقدیر نیل کے پانیوں میں نہیں اسکے اپنے ہاتھوں میں لکھی ہے ۔افریقہ کی اصل دولت نہ سونا ہے نہ تیل بلکہ وہ انسان ہے جو اس مٹی سے جڑا ہے اگر وہ جاگ گیا تو کوئی طاقت اسے غلام نہیں رکھ سکتی لیکن اگر وہ سوتا رہا تو سامراج کا ہر نیا روپ اس کے سروں پر سایہ کرتا رہے گا اور شاید یہ تاریخ کا سب سے بڑا طنز ہے کہ وہ براعظم جو کبھی غلاموں کو بیچنے کی جگہ تھا آج بھی خود کو بیچنے پر مجبور ہے۔

تازہ ترین