پاکستان کی سینئر اداکارہ ثانیہ سعید نے خواتین کے کردار، مالی خودمختاری اور مرد و زن کے تعلقات پر کھل کر گفتگو کی ہے۔
معروف اداکارہ حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں شریک ہوئیں جہاں انہوں نے شوبز انڈسٹری میں بڑی عمر کی خواتین کی نمائندگی سے متعلق اہم نکات اٹھائے۔
ثانیہ سعید نے کہا، ’ہمارے معاشرے میں بڑی عمر کی خواتین کے لیے بہت کم کہانیاں لکھی جاتی ہیں اور یہ دراصل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عورت کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ہماری سوسائٹی میں عورت کو زیادہ تر بچوں کو جنم دینے والی شے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ عورت کو صرف اُس وقت قابلِ توجہ سمجھا جاتا ہے جب وہ جوان ہو، اسی لیے 35 سالہ عورت کی کہانی نہیں سنائی جاتی، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عورت کی زندگی اور کہانی تو اُس عمر کے بعد شروع ہوتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’میں نے کبھی اپنی اصل عمر کے کردار نہیں کیے، جوانی میں بھی مجھے ماں کے کردار دیے گئے۔‘
مرد و عورت کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے ثانیہ سعید نے کہا کہ اصل مسئلہ کمیونیکیشن کا ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان بات چیت کی کمی ہی زیادہ تر مسائل کی جڑ ہے، ہم آسٹریلیا میں ایک فیسٹیول میں تھے، سب لوگ رقص کر رہے تھے، ماحول خوشگوار تھا، میرے ایک دوست نے پوچھا تم ہمیشہ کہتی ہو کہ مرد اور عورت کے درمیان دوستانہ اور مثبت ماحول ہونا چاہیے اس کا مطلب کیا ہے؟ میں نے فیسٹیول کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہی ہے۔ یہاں ثقافتی اصول موجود ہیں، کوئی کسی کو چھو نہیں سکتا، حتیٰ کہ اگر کوئی لڑکی گر جائے تو جب تک ایمبولینس نہ آئے کوئی اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا، یہ اصول احترامِ انسانیت پر مبنی ہیں، کسی کی ذاتی حدود میں مداخلت نہیں کی جاتی، انہیں اپنی زندگی جینے دی جاتی ہے۔‘
مالی خودمختاری پر بات کرتے ہوئے ثانیہ سعید نے کہا کہ عورت کی معاشی آزادی بہت ضروری ہے، اس میں کوئی شک نہیں، ہر عورت کے پاس کوئی نہ کوئی ہنر یا صلاحیت ہونی چاہیے جو اس کی آمدنی کا ذریعہ بن سکے، معاشرتی ڈھانچے میں فیصلہ سازی کی طاقت ہمیشہ مالی خودمختاری سے جڑی ہوتی ہے، اگر کوئی حادثہ یا مشکل وقت آئے تو مالی طور پر مضبوط عورت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے لیکن جب وہ کسی پر منحصر ہو تو فیصلے کی طاقت اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے، حتیٰ کہ وہ اپنے بچوں کے بارے میں بھی آزادانہ فیصلے نہیں کر پاتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اقتصادی آزادی عورت کو علم، خود اعتمادی اور فیصلہ سازی کی قوت دیتی ہے کیونکہ جب عورت گھر سے نکل کر دنیا سے ملتی ہے، تو وہ سیکھتی اور آگے بڑھتی ہے، عورت ایک مکمل انسان ہے، اس کی صلاحیتوں کو استعمال کیا جانا چاہیے لیکن ہم نے اسے گھر کی چار دیواری تک محدود کر دیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بہت سی جگہوں پر عورتوں کی کمی محسوس کی جا رہی ہے، مثلاً افغانستان میں خواتین ڈاکٹرز کی شدید کمی ہے۔