• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ جو دنیاوی تعیش کے لئے جہنم کا ایندھن بننے کو تیار ہیں

یہ درست ہے کہ پولیس کا محکمہ بد سے زیادہ بدنام ہے اور پولیس کا معصوم اور بے آواز طبقہ کے خلاف توہین آمیز رویہ اس ملک کو ورثہ میں ملا ہے جسے ہماری ماضی کی نسلوں نے بھی بھگتا، حال کی بھی ان سے بخوبی آگاہ ہے اور مستقبل کی نسلوں کو بھی ایسے دلدوز واقعات کا سامنا ہوگا۔ان نسلوں کے لئے یہ نئی بات نہیں بلکہ انہیں آنے والے وقتوں میں’’تھانہ کلچر‘‘ کا سامنا رہے گا۔لیکن زندہ اور مردہ قوموں کے لئے بھی یہ قابل برداشت نہیں کہ کوئی گمراہ شخص، گروہ یا جماعت سرعام وردی کے تقدس کو پامال کرنے کی جرات کرسکے۔اگرچہ باوردی پولیس اہلکار کی سرعام بے توقیری کے واقعات تو ملک کے مختلف مہذب اور غیر مہذب علاقوں میں آئے روز دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں لیکن گزشتہ دنوں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ایک مصروف مارکیٹ میں ایک نشے کے زیر اثر گمراہ نوجوان نے ٹریفک کے شعبہ سے منسلک اہلکاروں پر اس وقت حملہ کر دیا جب وہ مارکیٹ میں پھنسی ہوئی ٹریفک کو ترتیب میں لانے کی کوشش کر رہے تھے جب اپنی گاڑی پر سوار نوجوان انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ مارکیٹ میں داخل ہوا اور روکنے کی کوشش کے دوران اس نے اپنی گاڑی گروپ کی صورت میں کھڑے پولیس اہلکاروں پر چڑھا دی لیکن اس حرکت کے باوجود جب اسے تسلی نہیں ہوئی تو اس نے گاڑی سے نکل کر پولیس اہلکاروں پر حملہ کر دیا تاہم ان ٹریفک اہلکاروں نے جنہیں غنڈوں سے نمٹنے یا غنڈوں سے بچنے کی تربیت نہیں ہے، پسپا ہو کر اس گمراہ نوجوان سے بچتے رہے اور اس کی بدکلامی اور کسی بڑے خاندان کا چشم و چراغ ہونے کی بنیاد پر طاقتور اور نا قابل احتساب ہونے کا اعلان سن کر اس دھمکی سے مرعوب اور خوفزدہ ہوتے رہے کہ اگر اس ناقابل اصلاح نوجوان کے دعوے درست ہوئے تو اس کے ہاتھوں سرعام بے توقیر ہونے کے باوجود حکام انہیں ان کی ملازمتوں سے برطرف کر دیں گے تاہم وہ غنڈہ سرکار کے باوردی ملازمین کے خلاف یک طرفہ جنگ میں فتحیاب ہونے کے بعد موقع سے فرار ہوگیا جس کے فوراً بعد علاقہ پولیس کا دستہ ایس-پی اندسٹریل ایریا کی قیادت میں موقع پر پہنچ گئی ابتدائی تحقیقات کے دوران ’’بڑے خاندان‘‘ کے اس چشم و چراغ کی گاڑی کے رجسٹریشن نمبر سے اس کا نام اور پتہ حاصل کر کے اس کے گھر پر چھاپہ مار کر گرفتار کر لیا اور دہشتگردی اور تعزیرات پاکستان کے تحت مقدمہ درج کر لیا اور اگلے روز دہشتگردی کی عدالت میں پیش کر کے چودہ روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا۔

اگرچہ عمومی طور پر یہ واقعہ اتنا اہم نہیں کہ اس پر کالم تحریر کیا جائے لیکن معاشرے کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پس منظر میں انتہائی تشویش کا اظہار کرنے اور نئی نسل کو مزید تباہی سے بچانے کے لئے اہم ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے اور معاشرے کی اصلاح احوال کی اجتماعی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے ایسےکسی ایک واقعہ کو مثال بنا کر بڑا مقصد حاصل کرنے کے لئے زیر بحث لانا ضروری تھا تاکہ اس نوعیت کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو بڑے قومی سانحات بننے سے روکنے کے لئے ان کےذمہ داروں کو نشان عبرت بنانا ضروری ہے جس کے ذریعے عوام اور گمراہوں کو بیک وقت پیغام دیا جا سکے کہ قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کا احترام سب کے لئے یکساں لازم ہے اور قانون غریب و امیر اور کمزور اور طاقتور کے لئے برابر ہے۔

دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہوں کو طاقت کے زور پر قانون کو پامال کر کے آگے بڑھنے پر یقین رکھنے والے ملک دشمنوں سے کہیں زیادہ اپنی اصلاح پر توجہ دینی چاہئے اور وہ اپنی صفوں میں موجود کرپٹ اور بدکردار عناصر کو تلاش کریں اور پولیس، ایف-آئی-اے اور پٹوار خانوں سمیت کرپشن کے گڑھ بننے والا ہر وہ ادارہ جو میرٹ پر ایمان نہیں رکھتا اور رشوت کو ہی ایمان تصور کرتا ہے، کی سرپرستی کی بجائے ان کی اصلاح کی کوشش کریں۔عدل رب العالمین کی صفات میں شامل ہے اور عدل کرنے والا اللہ رب العزت کے نزدیک مقدم و مقدس ہے اور انصاف کے نام پر’’عدل کا کاروبار‘‘ کرنے والوں کا کیا حشر ہوگا، اس کا اندازہ ممکن نہیں لیکن اتنا معلوم ہے کہ وہ جس نے رب ذوالجلال کے حکم کا تمسخر اڑایا، جہنم کا ایسا ایندھن ہو گا جو ہمیشہ دہکتا رہے گا۔

تازہ ترین