• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیویارک کے مکینوں نے تاریخ رقم کردی ہے۔نوجوان اُمیدوار ظہران ممدانی امریکی اسٹیبلشمنٹ اور اسرائیل لابی کو تنِ تنہا شکست دے کر شہر کے نئے میئر منتخب ہوچکے ہیں۔ نیویارک شہر کا سیاسی نقشہ بدل رہا ہے، اور پہلی بار ایک مسلمان اور جنوبی ایشیائی نژاد میئر کامیاب ہوا ہے جسے گزشتہ صدی کا کم عمر ترین میئر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔بلاشبہ نقش کہن مٹ رہا ہے لیکن کیا یہ جمہوریت کی جیت ہے یا پھر پاپولزم ہی نے ایک نئے انداز میں کامیابی حاصل کی ہے۔سوال تویہ بھی ہے کہ نومنتخب میئرظہران ممدانی کیا واقعی اسرائیل مخالف ہیں اور اب جب بھی اسرائیلی وزیراعظم نے نیویارک آنے کی غلطی کی،تو کیا واقعی انہیں جنگی جرائم کے مقدمہ میں گرفتار کرلیا جائیگا؟

امریکہ میں اسرائیلی لابی اتنی طاقتور رہی ہے کہ اگر کوئی ڈیموکریٹک یا ری پبلکن پارٹی کا امیدوار یہودیوں کو ناراض کر دیتا، تو اُسکے لیے الیکشن جیتناناممکن ہو جاتا۔جب بھی امریکہ میں صدارتی انتخابات ہوتے ہیں تو ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کے امیدوار کم و بیش ہر موضوع پراختلاف رائے کا اظہار کرتے ہیں، مثال کے طور پر اسقاط حمل پر متضاد خیالات سامنے آتے ہیں۔ شہریوں کے پاس اسلحہ ہونا چاہئے یا نہیں، بیرون ملک جنگ امریکہ کے مفاد میں ہے یا نہیں، ان سب معاملات پر مختلف صدارتی امیدواروں کی رائے اور بیانیہ یکساں نہیں ہوتا مگر جب اسرائیل کی بات آتی ہے تو سب ایک پیج پر آجاتے ہیں اور یک زبان ہوکر کہتے ہیں کہ ہم ہرقیمت پر اسرائیل کا تحفظ کرینگے۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران ہم نے ایک کرشمہ دیکھا — ۔ایک نوجوان، جو کھلے عام اسرائیلی پالیسیوں کی مخالفت اور فلسطینیوں کی حمایت کرتا ہے، نیویارک میئر کے الیکشن کا پہلا مرحلہ کامیابی سے سر کرنے میں کامیاب ہوا بلکہ اب اس نے حتمی طور پر کامیابی حاصل کرکے پوری دنیا کوحیران کردیا ہے۔ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوارظہران ممدانی اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ اسرائیلی وزیرِاعظم کو نیویارک آمد پر گرفتار کرنے کا حکم دینگے، کیونکہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے نیتن یاہو کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات پر وارنٹ جاری کر رکھا ہے۔ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا نعرہ“گلوبلائز دی انتفاضہ”انہیں ناگوار گزرتا ہے تو انہوں نے اس کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا۔اس انٹرویو کے بعدانہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جسکے بعد انہوں نے وضاحت کی کہ وہ اسرائیلی پالیسیوں کے مخالف ہیں، یہودیوں یا ان کی مذہبی شناخت کے نہیں۔

اب یہاں ایک اہم سوال اٹھتا ہے — آخر وہ یہ سب کیسے کر گئے؟یہ انہونی کیسے ہوئی؟کیونکہ اگر کہا جائے کہ ممدانی کہیں سے اچانک ابھرے ہیں تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ابتدائی طور پر اُنہیں سنجیدہ امیدوار نہ سمجھا گیا بلکہ ’اسپائلر‘ قرار دیا گیا۔شروع میں انکی حمایت ایک فیصد سے بھی کم تھی،کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ نوجوان نیویارک کا میئر بن جائیگا۔لیکن ممدانی نے بڑے پیمانے پرووٹر طبقے سے جڑنے اور اُنکے حقیقی مسائل کو براہِ راست اجاگر کرنے کی شاندار صلاحیت دکھائی۔ان موضوعات پر بات کی جنہیں حقیقی عوامی مسائل کہا جاسکتا ہے۔یہی نہیں بلکہ اپنی آواز لوگوں تک پہنچانے کیلئے اچھوتے اور منفرد انداز میں سوشل میڈیا کو استعمال کیا۔آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں بالی ووڈ فلموں اور پاکستان کی سیاسی ثقافت کو شامل کیا۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک مشہور ویڈیو میں ممدانی نے 1975 کی بھارتی فلم کا حوالہ دیا، جس میں امیتابھ بچن کہتے ہیں”میرے پاس عمارتیں ہیں، جائیداد ہے، بینک بیلنس ہے، بنگلہ ہے، کار ہے — تمہارے پاس کیا ہے؟“تو ششی کپور جواب دیتے ہیں”میرے پاس ماں ہے۔“یہاں ظہران ممدانی شاہ رخ خان کی طرح دونوں بازو پھیلا کر اسکرین پر آتےہیںاوراپنے ووٹرز سے کہتے ہیں”میرے پاس تم ہو۔“اسی ویڈیو کے ایک حصے میں وہ پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا فلسفہ مستعار لیکر اُن کا مشہورزمانہ سیاسی نعرہ دہراتے ہیں:”روٹی، کپڑا اور مکان!“درحقیقت یہی نعرہ اُنکے سیاسی ایجنڈے کا مرکز ومحور رہا۔ — ممدانی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عام افراد کو درپیش مسائل پر بات کرتے ہوئے نیویارک کو قابل استطاعت شہر بنانے پر توجہ مرکوز کیے رکھی۔ انہوں نے آمد و رفت کیلئے کرایہ جات منجمد کرنے، بسوں کو مفت کرنے اور بچوں کی نگہداشت کے نظام کو عام کرنے کا وعدہ کیا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی ممدانی کے خلاف تھے، اور جب انہوں نے پرائمری الیکشن میں کامیابی حاصل کی تو اُنکے تمام سیاسی حریف اُنہیں شکست دینے کیلئے متحد ہو گئے۔ایلون مسک سمیت کئی ارب پتی شخصیات نے ممدانی کو ہرانے کیلئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے۔اسرائیلی لابی نے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر تمام متحارب قوتوں کو شکست دیکر وہ نیویارک کے میئر بننے میں کامیاب ہوگئے۔لیکن کیا یہ تبدیلی امریکہ کے بدلتے سیاسی شعور کی علامت ہے؟اسے جمہوریت کی کامیابی تصور کیا جائے؟میری دانست میں یہ قیاس کرنا محض مبالغہ اور مغالطہ ہوگا۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ ظہران ممدانی کی شکل میں ایک اور پاپولسٹ اُمیدوار کو کامیابی ملی ہے جسے کچھ لوگ نیویار ک کا بھٹو قرار دے رہے ہیں تو بعض افراد عمران خان سے بھی اس کا موازنہ کررہے ہیں۔میرا خیال ہے کہ ممدانی نے پاپولزم کا ایک نیا چہرہ اور انداز متعارف کروایا ہے اور اسرائیلی وزیراعظم کی نیویارک آمد پر اسے گرفتار کرنے کی باتیں دل فریب سیاسی نعرے کے سوا کچھ نہیں۔البتہ ایک بھارتی نژاد مسلمان جو افریقہ میں پیدا ہوا،جسے پورے سسٹم نے روکنے کی کوشش کی،اس کا میئر بن جانا یقیناً سلطانی جمہورکی کامیابی ہے۔

تازہ ترین