ہم پاکستانی، خود پر تنقید ، اپنی کمزوریوں کا اعتراف اور اپنی ہی حماقتوں پر ہنس لینا خوب جانتے ہیں۔اگر ہم میں اپنی غلطیوں پر تنقید کرنے کا حوصلہ ہے تو یہ بھی ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم اپنے گرد ہونے والی اچھائیوں، کامیابیوں اور خوبصورتیوں کی دل کھول کر داد دیں۔پاکستانی ڈرامہ اور موسیقی ہمیشہ سے اردو ، ہندی بولنے اور سمجھنے والے ملکوں میں بے حد مقبول رہے ہیں، خاص طور پر بھارتی عوام میں ہمارے دونوں فنون کا سکہ برسوں سے چلتا آیا ہے۔البتہ اگر فنونِ لطیفہ کے میدان میں پاکستان اور بھارت کا موازنہ کیا جائے تو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ دونوں کی بنیادیں ،تقسیم کے بعد جدا ہو گئیں ۔ برصغیر کی ثقافت میں رقص، ڈرامہ، مصوری اور سنگیت صدیوں سے رچے بسے ہیں ـ یہ محض فن نہیں بلکہ ہر دور میں اس خطے کے باشندوں کے رسم و رواج اور روزمرہ زندگی کا حصہ رہے ہیں۔ ـ برصغیر کی تقسیم کے بعد ہم نے رفتہ رفتہ اپنے تہذیبی ورثے سے لاتعلقی اختیار کر لی، اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ زمین فنونِ لطیفہ کیلئے سخت اور غیر موافق ہوتی چلی گئی۔جس سرزمین پر موسیقی، رقص، تھیٹر اور دیگر فنون کی تعلیم دینے والے ادارے تقریباًناپید ہوں وہاں باصلاحیت فنکاروں کا جنم لینا کسی کرشمےسے کم نہیں۔یہ تمہید باندھنے کا مقصد دراصل’’جیو ٹی وی‘‘ کے اُن دو پروگراموں پر بات کرنا ہے جنہوں نے نہ صرف پاکستان میں دھوم مچا رکھی ہے بلکہ سرحد پار بھی انکے چرچے ہیں ’’پاکستان آئیڈل 2025‘ اور ڈرامہ سیریل’’کیس نمبر9 ‘‘ـ کوک اسٹوڈیو تو پہلے ہی کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکا ہے ـ ڈرامہ سیریل کیس نمبر 9کا ٹریلر فیس بک پر دیکھا تو برسوں بعد کسی پاکستانی ڈرامے کو دیکھنے کی خواہش دوبارہ جاگ اٹھی۔ پہلی ہی قسط کے طلسم نے یوں جکڑا کہ اگلی قسط کا ہفتہ بھر انتظار کٹھن لگنے لگا ہے۔ ـ کیس نمبر 9ملک کے معروف اینکر پرسن شاہ زیب خانزادہ کی تحریر ہے، جس میں ریپ کیس کے ساتھ دیگر سنگین موضوعات کے وہ پہلو اجاگر کیے گئے ہیں جن سے تعلیم یافتہ اور باشعور طبقہ بھی اکثر ناواقف رہتا ہے ـ یہ محض ڈرامہ نہیں بلکہ عوام کی تربیت کا ذریعہ بھی بنا ہے۔ ـ شاہ زیب خانزادہ نے بطورِ مصنف اپنے صحافتی تجربے کو کہانی میں اس مہارت سے برتا ہے کہ ہر منظر اور مکالمہ حقیقت کے قریب محسوس ہوتا ہے۔ ریپ کیس جیسے حساس موضوع کو انہوں نے جذباتی استحصال یا اخلاقی نمائش کے بجائے فہم، تحقیق اور سماجی شعور کے ساتھ پیش کیا۔ کہانی بڑی سچائی اور سادگی سے یہ دکھاتی ہے کہ ایسے سانحات کے بعد ایک عورت اور اس کا خاندان کن کٹھن مراحل اور تلخ تجربات سے گزرتے ہیں۔ مکالموں میں وہی ٹھہراؤ، درد اور شدت ہے جو کسی سچے واقعے سے جنم لیتا ہے۔ہدایت کاری کے لحاظ سے بھی کیس نمبر 9ایک مثال بن کر ابھرتا ہے۔ ہدایت کار نے موضوع کی نزاکت کے پیش نظر کہانی کے ہر موڑ، ہر منظر اور ہر چہرے کے تاثر کو ناپ تول کےبرتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے شاہ زیب خانزادہ نے الفاظ کے ذریعے ایک دنیا تخلیق کی، اور ہدایت کار نے ان الفاظ کو سانس اور صورت بخش دی۔ دونوں نے مل کر ایک ایسا ڈرامہ تخلیق کیا ہے جو نہ صرف ایک سنگین سماجی حقیقت کی گواہی دیتا ہے بلکہ پاکستانی ڈرامے کی فکری اور تخلیقی جہت کو بھی نئے عروج پر لے جاتا ہے۔ایسے معاشرے میں، جہاں فن سے وابستہ افراد کو تحقیر اور طعن و تشنیع کا سامنا ہو، وہاںتخلیق کار کا ایسا ڈرامہ تخلیق کرنا، اداکاروں کا کرداروں میں فطری روانی سے ڈھل جانا کہ حقیقت اور مجاز کی لکیر مٹتی محسوس ہو، ہدایتکاری میں کوئی جھول نہ آئے اور مکالمے دل کے نہاں خانوں کو چھو جائیں ڈرامے کی بیک گراؤنڈ موسیقی کا انتخاب بھی نہایت منفرد اور دل کو چھو لینے والا ہے۔ ہر فریم میں محنت اور باریکی کا ایسا مظہر نظر آتا ہے کہ نگاہ ٹھہر سی جاتی ہے۔ شاندار کیمرہ ورک ، منفرد ٹریٹمنٹ، اور لائٹنگ کے معیار کی ایسی مثال پہلے کسی پاکستانی ڈرامے میں نہیں دیکھی۔کیس نمبر 9ہر لحاظ سے بین الاقوامی او ٹی ٹی کے معیار پر پورا اترتا ہے۔کچھ یہی کیفیت پاکستان آئیڈل کی آڈیشنز کی ایک جھلک دیکھ کر بھی ہوئی اور محسوس ہوا کہ ہماری نئی نسل موسیقی کے شعور اور فہم میں کہیں آگے نکل چکی ہے۔پاکستان آئیڈل 2025 کیلئے ٹیلنٹ ہنٹ کا آغاز کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملتان میں آڈیشنز کے ساتھ ہوا، جہاں نوجوان گلوکاروں نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے سب کو حیران کر دیا۔ ان کی آوازوں میں ایسا سوز، مٹھاس اور پختگی تھی کہ سننے والا بے اختیار داد دینے پر مجبور ہو جائے۔ شو میں موسیقی کے تنوع کا احترام بھی قابل ذکر ہے ـ صرف پاپ یا جدید گانوں پر زور نہیں بلکہ قوالی، غزل، کلاسیکی اور صوفی موسیقی تک کا احاطہ کیا گیا ہے، جس سے پاکستان کی موسیقی کی گہرائی اور وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔پاکستان آئیڈل کے ججز کا انتخاب بھی بے حد مناسب اور متوازن ہے۔ ہر جج اپنے شعبے میں تجربہ، فن اور شائستگی کا مظہر ہے۔ یہاں’’آئیڈل‘‘ کا مطلب صرف اچھا گلوکار نہیں بلکہ ایک مکمل شخصیت ہے، جو فن، کردار اور وقار تینوں میں قابلِ تقلید ہو۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان آئیڈل کے ججز اور شرکا کے رویّے میں ایک نمایاں ٹھہراؤ محسوس ہوتا ہے۔ نئے فنکاروں کی حوصلہ افزائی ہو یا تنقید، ججز کے انداز میں شائستگی کا پہلو برقرار رہتا ہےنہ کوئی غیر ضروری سنسنی خیزی، نہ جذباتی ڈرامہ، نہ مصنوعی آنسو یا چیخ و پکار صرف فن، محنت اور خلوص کی بنیاد پر مقابلہ۔ یہی پہلو اسے انڈین آئیڈل سے ممتاز بناتا ہے، جہاں اکثر شو کو دلچسپ بنانےکیلئے جذباتی کہانیاں، بڑھا چڑھا کر دکھائے گئے مناظر اور مصنوعی تنازعات شامل کر دیے جاتے ہیں۔پاکستان آئیڈل اس کے برعکس زیادہ باوقار، سنجیدہ اور فنی معیار پر مبنی پلیٹ فارم نظر آتا ہے، جہاں توجہ صرف آواز، تربیت اور فن پر مرکوز ہے۔ سائونڈ ڈیزائن، بیک گراؤنڈ میوزک اور لائیو پرفارمنس کے دوران ساز و آواز کا توازن انتہائی معیاری ہے، جو بین الاقوامی سطح کے شوز سے کسی طور کم نہیں۔ یہ شو دیکھ کر امید پیدا ہوتی ہے کہ اگر اسی جذبے اور معیار کو برقرار رکھا گیا تو پاکستان آئیڈل نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی ایک الگ پہچان قائم کرے گا۔