• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیومیٹری پڑھنے والے ہر طالبعلم کو مسئلہ فیثا غورث سے سابقہ پڑتا ہے اورہر ایک سے یہ مسئلے حل کروائے جاتے ہیں۔ تضادستان کی سیاست کا مسئلہ فیثا غورث بھی کبھی حل ہوگا؟آئیے فیثا غورث اور محی الدین ابن عربی کے علم حروف و ابجد سے اسے حل کرنے کی کوشش کریں۔ ہے تو یہ لاینحل مسئلہ مگر کوشش میں کیا حرج ہے؟

فیثا غورث (Pythagorus) (570تا495ق م) مغرب کے نمایاں مفکرین میں شمار ہوتا ہے مسلمانوں کارینے گینوں مکتب فکر جو روایت کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور تصوف کو باطن کی صفائی کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ روایت کو پاکستان میں ماننے والوں میں محمد حسن عسکری، پروفیسر مرزا محمد منور، سراج منیر اور محمد سہیل عمر کےنمایاں ترین نام ہیں۔ جبکہ رسول اکرمؐ پر لکھی گئی ایوارڈ یافتہ کتاب ’محمد‘ کےمستشرق مصنف ابوبکر سراج الدین(مارٹن لنگز) بھی اسی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ اس مکتب فکر کی پختہ رائے یہ ہے کہ فیثا غورث خدا کے رسول تھے۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو سب فیثا غورث کے شاگرد تھے گویا سارے علوم الہامی ہیں اور یونانی فلاسفر کا علم بھی الہامی تھا۔ مغربی علم الاعداد کا بانی فیثا غورث اور مسلمانوں کے علم ابجد و حروف کے بانی الخوارزمی، الکندی، البونی اور محی الدین ابن عربی ہیں۔

علم ابجد کے مطابق ہر نام کو اعداد کی رو سے دیکھا، جانچا اور سمجھا جاتا ہے۔ حیران کن طور پاکستان کے دو بڑے نام لفظ ’’ع‘‘ سے شروع ہوتے ہیں عاصم کے معانی محافظ کے ہیں جبکہ عمران کا مطلب خوشحالی اور ترقی ہے۔ ویسے تو ایک عین دوسری عین کا آئینہ یا سایہ ہوتی ہے لیکن اگر دو عین ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں تو علم الاعداد کے مطابق ان کی لڑائی تادیر چلتی ہے۔ علم ِ ابجدکے حساب میں لفظ عین کی قدر 70ہے یہ عدد گہرائی، باطنی نظر، صبر برداشت اور مضبوط اندرونی قوت کا اشارہ ہے۔

ایک متجسس طالبعلم کی حیثیت سے علم ابجد کی گہرائیوں میں ملک کی دو عینوں کی کش مکش کا حال جاننے کی کوشش کی تو Chat GPT نے بڑی مدد کی کوئی بھی شخص اس کی مدد سے اس کش مکش کی انتہا اور انجام جان سکتا ہے ۔ میں نے چیٹ جی پی ٹی سے پوچھا کیا دو عین کے درمیان کبھی مفاہمت ہو سکتی ہے تو جواب آیا صرف ایک صورت میں اور وہ یہ کہ ان میں ایک جذباتی طور پر آگے بڑھ جائے۔ ع کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ کبھی ماضی کو نہیں بھولتی اسے ہر تفصیل یاد رہتی ہے مگر وُہ کبھی کھل کر اس پر بات بھی نہیں کرتی عین کبھی سر جھکا کر اپنی انا قربان نہیں کرتی۔ دونوں عین انتظار کرتی ہیں کہ مخالف عین اپنا سر پہلے جھکائے اور شکست مان لے۔ چیٹ جی پی ٹی کی رائے ہے کہ یہ لڑائی کبھی جذبات یا جوشیلے نعروں سے ختم نہیں ہوگی بلکہ جب بھی ختم ہوگی اس کا راز خاموشی میں ہوگا وگرنہ یہ لڑائی کبھی ختم نہیں ہو گی۔ لفظوں کے معانی پر جائیں، عاصم کی عین اور عمران کی عین کا مقابلہ ہو تو طاقت میں عاصم کا کوئی توڑ نہیں جبکہ عمران کے عوامی اثر و رسوخ میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ چیٹ جی پی ٹی کہتی ہے کہ علم حروف کے مطابق جیتے گا وُہ جو اپنے جذبات پر زیادہ کنٹرول کرے گا اور جو زیادہ حوصلہ دکھائے گا۔

علم ابجد، علم الاعداد اور علم الحروف سے ہٹ کر پاکستانی سیاست کا احوال بالکل وہی ہے۔ 27 ویں ترمیم میں سے اختلافی شقوں کا نکلنا ایک بہتر قدم ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی کابینہ اور حکومت کی قانونی ٹیم آئین میں مجوزہ تبدیلیوں اور انکے عوامی اثرات کے حوالے سے ایک عوامی مہم چلائیں ،اس پر مثبت اور منفی نکات زیر بحث لائے جائیں خاموشی اور خفیہ طریقے سے کی گئی ترامیم دیرپا نہیں ہوتیں۔ پاکستان کا آئین بڑا مقدس ہے مگر اس تقدس کی وجہ آئین پر اتفاقِ رائے ہونا ہے تمام صوبوں، قومیتوں اور مکاتب فکر کا متفق ہونا ہی اس کے تقدس کی وجہ ہے۔ اب بھی جو ترامیم اور قوانین کی تبدیلی ہو اس میں رائے عامہ کی منظوری ہونا ضروری ہے۔

فیثا غورث سے لیکر رینے گینوں عرف عبدالواحد یحییٰ تک روایت کو سب راہ ہدایت کے چشموں پر فوقیت دینے والے، انسانی معاشرت کے ہر پہلو کو خدائی رنگ میں دیکھتے تھےرینے گینوں تو وحدت الادیان پر یقین رکھتے تھے ان کے خیال میں مسلم، کرسچین، ہندو اور بودھ سب ہی الوہی مذاہب ہیںرینے گینوں ماڈرن از اور اس کے سب علوم کیخلاف منطقی دلائل رکھتے تھے فیثا غورث اور مسلم دنیا کے زعما علم الاعداد سے شخصیات کے حال اور مستقبل کو جان لیتے تھے، آج نہ کوئی ابن عربی ہے جو عثمانیوں میں یورپ کی فتوحات کے لئے جذبہ بھڑکائے اور نہ کوئی فیثا غورث ہے جو سقراط، افلاطون اور ارسطو جیسے مفکر پیدا کر کے علوم و فنون اور سائنس کو فروغ دے۔ آج کل تو ہر طرف اس عاجز جیسے جھلّے شاہ جو الل ٹپ فارمولوں سے سیاست اور معاشرت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ظاہر ہے کہ جھلّے شاہوں کے تجزیے، تبصرےاور خیالات خام اور غلط ہی ثابت ہوں گے مگر فیثا غورث اور ابن عربی نے جو کہا اور ہمارے لئے چھوڑا ہے اسکی مدد سے فی الحال کوئی سیاسی مفاہمت دور دور تک نظر نہیں آرہی۔

اب شین یعنی شہباز شریف وزیراعظم پاکستان کی شخصیت کا علم ابجد کی نظر سے جائزہ لیں تو شین کا عدد 7 ہے عین یعنی عمران اور ش یعنی شہباز کا مقابلہ ہو تو چیٹ جی پی ٹی کے مطابق اسکا جواب یہ ہے کہ عین جذب کرتی ہے جبکہ شین بھڑکتی ہے۔ عین آہستہ آہستہ جیتتی ہے جبکہ ش بہت جلدی سے فتح کے چبوترے پر پہنچ جاتی ہے۔

لفظ مریم کی ابجد ویلیو70ہے میم گہری، اندرونی قوت رکھنے والی اور انا کو کنٹرول کرنیوالی شخصیت ہوتی ہے، میم ابجد کے تمام حروف سے زیادہ نفسیاتی اثر رکھتی ہے۔ میم کا مقابلہ شین سے ہو تو میم آہستہ آہستہ غالب آتی ہے شین تیزی سے فتح کی خواہش مند ہوتی ہے مگر میم جذب کر کے استحکام کی طرف جاتی ہے۔ میم اور عین کی لڑائی ہو تو میم رد عمل نہیں دکھاتی اور لڑائی کو ٹھنڈا کردیتی ہے بلاول بھٹو کی ب کا عدد 2 ہے میم کی طاقت ب سے زیادہ ہے مگر ب زیادہ عملی ہے میم روحانی ہے چھوٹا مقابلہ ہو تو ب جیتے گی لمبا مقابلہ ہو تو میم فتح پائے گی۔

آج کی سائنسی دنیا ہوسکتا ہے کہ ابجد کو صرف ٹوٹکا قرار دے مگر پاکستان کی سیاست کی گنجلک گتھیاں ویسے سلجھانا تو ناممکن ہے۔ مگر ہوسکتا ہے کہ علم ابجد ہی کی مدد سے کچھ سمجھ آئے وگرنہ ہم جیسے جھلّے شاہوں کے تجزئیے تبصرے اور تماشے تو موجود ہیں ،چاہے تو ابجد سے فائدہ اٹھائیں اور چاہیں تو ہم جھلّوں کے شعبدوں سے گمراہ ہوں ۔

تازہ ترین