قارئین !آپ کو بتاتا چلوں کہ پاکستان نے ہمیشہ امن کو مقدم رکھا ہے۔ دوحہ اور استنبول مذاکرات میں ہمارا یک نکاتی ایجنڈا یہ تھا کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں دہشتگردی نہیں ہوگی۔ افغانستان نے ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر خوارجِ فتنہ جیسے دہشتگرد گروہ پال رکھے ہیں۔ یہ محض الزام نہیں شواہد اور بین الاقوامی رپورٹس بھی واضح کرتی ہیں کہ ان گروہوں کو پشت پناہی میسرہے۔ طالبان کی پشت پناہی پر ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ہے۔طالبان رجیم خود بھارت کی پراکسی کے طور پر کام کر رہی ہے۔بلوچ علیحدگی پسند اور ٹی ٹی پی بھی بھارت کی طفیلی اور کٹھ پتلی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے بجا مطالبہ کیا گیا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے آپریشن کے دوران جو دہشتگرد افغانستان فرار ہوئے، اگر افغان رجیم انہیں واپس کر دے تو پاکستان اپنے آئین و قانون کے مطابق ان کا خود احتساب کرئیگا۔ اب شواہد ملے ہیں کہ افغان رجیم ان عناصر کو گلی محلوں میں منتقل کر رہی ہے تاکہ پاکستان کارروائی کرے تو وہ کولیٹرل ڈمیج کا شور مچائیں۔ دوحہ و استنبول میں ثالثی کرنیوالوں کو بھی ادراک ہو چکا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کا سلسلہ افغانستان سے منسلک ہے۔اس حوالے سے یہ بھی انتظار ہے کہ سیز فائر کروانے والے ثالث اور ضامن، طالبان رجیم کو دہشتگردوں کی پشت پناہی سے کیسے باز رکھتے ہیں۔ ماضی میں ٹی ٹی پی کے معاملات افغانستان کے طالبان کی طرف سے طے ہوتے رہے ہیں۔نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر یلغار کی۔ افغانستان نے امریکہ کا ساتھ دیا اسی کے رد عمل میں ٹی ٹی پی افغان طالبان کے خلاف امریکی حملے کے رد عمل میں معرض وجود میں آئی جس نے امریکی مفادات پر کم اور پاکستان پر زیادہ سفاکانہ دہشتگردانہ حملے کئے۔ ایک پرامن ملک کو ٹی ٹی پی کی طرف سے دہشتگردی کے دلدل میں دھکیل دیا گیا۔ جس کے زخم پھر سے تازہ ہو رہے ہیں۔ٹی ٹی پی دراصل افغان طالبان کی شاخ ہے۔ اس کے سربراہ نے بھی واضح طور پر کہا تھا کہ انکی بیعت افغان طالبان کے امیر کے ہاتھ پر ہے۔ ایسے بیانات کے تناظر میں طالبان حکومت یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ ان کا ٹی ٹی پی پر کنٹرول نہیں ؟ اگر ٹی ٹی پی اتنی زیادہ منہ زور ہو چکی ہے کہ طالبان حکومت کا ان پر کنٹرول نہیں ہے تو پھر انکے خاتمے کیلئے پاکستان کا ہاتھ روکنے کی بجائے وہ پاکستان کا ساتھ دے۔طالبان پاکستان کے ازلی و ابدی دشمن کے ایما پر امن کو موقع دینے کیلئے تیار نہیں۔پاک افغان سرحد تقریباً 2600 کلومیٹر طویل ہے، جس میں پہاڑ، دریا، نہریں اور نالے شامل ہیں۔ عام طور پر 25 تا 40 کلومیٹر کے فاصلوں پر ایک چوکی بنتی ہے۔ سرحدی انتظام دونوں ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے، مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ افغانستان کی طرف سے بروقت اور موثر مینجمنٹ موجود نہیں رہی۔پاکستان نے دیگر اسلامی ممالک کی طرح افغان عوام کیلئے حسنِ ظن کا مظاہرہ کیا ہے اور اب بھی افغان عوام کے ساتھ ہے مگر خود کو ’امارتِ اسلامیہ افغانستان‘ کہلانے والے غیر نمائندہ لوگ خود بھارت کی گود میں جا بیٹھے اور ان کے روا رکھے گئے جارحانہ رویے، بے سروپا بیانات، جھوٹے پروپیگنڈے اور مبالغے اب واضح ہیں۔بھارت اور افغانستان بعض مشترکہ ایجنڈوں کے تحت پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں ملوث رہے ہیں۔پاکستان ان کے خلاف موثر کارروائی کرکے ہی انہیں قابو میں لا سکتا ہے۔ افواجِ پاکستان اور پاکستانی عوام متحد ہیں اور دونوں ایک نئی آزمائش کیلئے پرعزم ہیں اور قومی سلامتی، سا لمیت، خود مختاری اور عوام کے تحفظ کے معاملے میں سبھی ادارے اور قوم فولاد کی طرح مضبوط و متحد ہیں۔
دوسری جانب بھارت پاک آرمی اور ائر فورس سے معرکہ حق میں ہزیمت اٹھانے کے بعد پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی طرح ڈیپ سمندر میں کوئی گھناؤنا کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔وہ جو بھی کرے گا منہ توڑ جواب ملے گا۔جب بھارت نے دیکھ لیا کہ زمینی اور فضائی جنگ میں نقصان اٹھانے کے بعد اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں آیا۔اب اگر وہ سوچ رہا ہے کہ شاید گہرے سمندرمیں کوئی گھناؤنا کھیل،کھیل کر اسے ڈینگیں مارنے کا موقع مل سکے تو بھارت کی خام خیالی ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارت نے زمین،سمندر اور فضا میں جو کچھ کرنا ہے کرے۔بھارت جان لے اس بار جواب پہلے سے زیادہ شدید ہوگا۔اعجاز ملاح کے انکشافات نے بھارت کے مذموم عزائم بتادئیے ہیں کہ اس سے کیسےپاکستان آرمی،نیوی اور ائر فورس کی وردیاں خریدنے کا کہاگیا۔فالس فلیگ بھارت کی شناخت ہے۔بھارت کی تمام تر دفاعی حکمت عملی اور حکومتی پالیسیوں کا محور کوٹلیہ چانکیہ کی تعلیمات ہیں۔جو تمام تر منافقت،عیاری اور دھوکہ دہی سے عبارت ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دہشتگردی بھارت کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔اپنے ہی ملک میں اقلیتوں کا قتل عام اس کی سرکاری پالیسی کا حصہ ہے۔پڑوسیوں کے خلاف سازشیں اس کا وتیرہ ہے۔چاروں جانب کوئی ایک بھی ملک ایسانہیں جسکے ساتھ اس کے تعلقات معمول کے مطابق ہوں۔اسی طرح 78سال کی تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے ہمیشہ منافقت کے ساتھ جھوٹی شناخت کے تحت فالس فلیگ آپریشن کئے۔بھارت کو چاہیے کہ وہ اپنی تاریخ سے سبق سیکھے،اپنے شہریوں کو امن،انصاف اور ترقی دے،ورنہ اس کا مستقبل تاریک ہے۔پاکستان ہمیشہ دفاع کیلئے تیار رہے گا اور ہردھوکے کا منہ توڑ جواب دے گا۔