• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی ہندوستان اور افغانستان کے درمیان برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ امور سر ہنری مارٹمیر ڈیورنڈ نے132سال قبل جو لکیرکھینچی وہ ’’ڈیورنڈ لائن ‘‘کہلائی ۔ یہ2670کلومیٹر طویل سرحد پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الا قوامی سرحد کا درجہ رکھتی ہے۔13نومبر1993ء کوافغانستان کے امیر عبدالرحمن نے ہندوستان میں فرنگی حکومت سے تحریری معاہدہ کر کے ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کیا تھا۔ افغانستان کی بعض حکومتوں نے مصلحتوں کے پیش نظر کبھی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہ کر کے پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازع کھڑا کیا۔ جب اقوام متحدہ میں پاکستان کو رکنیت دینےکی قرار داد پیش ہوئی توافغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیا۔ قیام پاکستان سے ہی افغانستان کا رویہ معاندانہ رہا جبکہ پاکستان نے افغانستان سے بہتر تعلقات قائم کرنے کی ہرممکن کوشش کی ۔افغانستان نے قیام پاکستان کے فوری بعدآزاد’’ پشتونستان ‘‘کی تحریک کی بنیاد رکھی۔ستمبر1947 ء میں افغان حکومت نےکابل میں افغان پرچم کے ساتھ’’پشتونستان ‘‘کا جعلی جھنڈا لہرایا ۔ افغان حکومت شروع دن سے ڈیورنڈ لائن کے گرد آباد قبائل کے علاقہ کو ماسی ویہڑہ(خالہ کا گھر) قرار دینے پر مصر رہی ،پاکستان نے بھی افغانیوں کے ساتھ مروت کا سلوک کرتے ہوئے انکی آمدو رفت پر کبھی سختی نہ کی۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہر روز طورخم اور چمن بارڈر سے 50ہزار افغانیوں کی بلا روک ٹوک آمدو رفت ہوتی رہی حکومت پاکستان نے بارہا ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانےکا پرو گرام بنایا لیکن بوجوہ اس منصوبہ پر عمل درآمد نہ ہو سکا بالآخرنواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں اس منصوبہ پر عمل درآمدشروع ہو گیا اب پاکستان نے ڈیورنڈ لائن کے بیشتر حصے پر باڑ لگا دی ہے جس سے کسی حدتک افغانستان سے غیر قانونی آمد ورفت رک گئی ہے، اس سے دہشت گردی کو روکنے میں مدد ملی لیکن عمران خان کے دور میں دہشت گردوں کے ساتھ نرم پالیسی اختیار کرنے سے 40ہزار کے لگ بھگ افغانی اور دہشت گرد دوبارہ پاکستان آکر آباد ہوگئے ۔یہ دہشت گرد پاکستان کے کچھ علاقوں پر کنٹرول سے دستبردار ہونے کا مطالبہ منظور ہونے پر امن کیلئے آمادہ تھے جب کہ اب تو یہ بات کھلے عام کہی جانے لگی ہے کہ پاکستان دوبارہ فاٹا کی پہلی پوزیشن بحال کر دے ۔ 1947ء میں ہی افغان ایلچی نجیب اللہ نے پاکستان کو فاٹا سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا تھا اور سمندر تک رسائی کیلئے ایک راہداری کا مطالبہ کیا تھا لیکن پاکستان نے اس نامناسب مطالبے کو قابل درخور اعتنا نہ سمجھا۔

میجر(ر) محمد عامر کا شمار آئی ایس آئی کے سینئر افسروں میں ہوتا ہے وہ پاک افغان ایشو پر اتھارٹی تصور کئے جاتے ہیں انہوں نے اس نظریے کو یکسر مسترد کر دیا ہےکہ ڈیورنڈ لائن سے پختون تقسیم ہو گئے ہیں۔1893ء میں برطانوی ہندوستان اور انڈیا کے درمیان سرحدی تنازع حل کرنے کیلئے سر ہنری ڈیورنڈ کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا یاگیا جس نے وا خان سے ایران تک افغانستان کی مشرقی اور جنوبی سرحدات کا تعین کیا،دوسری شق کے تحت برطانوی ہندوستان افغانستان میں مداخلت کرےگا اور نہ ہی افغانستان برطانوی ہندوستان میں مداخلت کرے گا بالخصوص دیر، باجوڑ اور چترال میں مداخلت نہیں کرے گا، تیسری شق میں وظیفہ 12لاکھ روپے سے18 لاکھ روپے کر دیا گیا ،اکتوبر1893میں امیرعبد الرحمن نےکابل میںلویہ جرگہ سے منظوری حاصل کر لی، دو سال میں ڈیورنڈ لائن کا نقشہ مکمل ہو گیا۔ امیر عبدالرحمن کے بعد ان کے صاحبزادے حبیب اللہ آئے تو انہوں نے ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ اٹھایا پیسوں کامسئلہ تھا جب ادائیگی ہو گئی تو وہ راضی ہو گئے۔امیر عبدالرحمن کے پوتے امان اللہ خان نے ڈیورنڈ لائن کے ایشو پر جنگ شروع کر دی قندھار اور جلال آباد پر بمباری ہوئی اس وقت تک افغانستان خارجہ پالیسی کی حد تک برٹش انڈیا کے تحت تھا افغانستان کو باقاعدہ آزادریاست کا درجہ دے دیا گیا۔ 1919سے1940ء تک جب تحریک پاکستان عروج پر پہنچ گئی کسی نے بھی ڈیورنڈ لائن کو نہیں چھیڑا۔19جون1940ء کو جب پاکستان کا قیام عمل آنے کو تھا افغانستان کے وزیر اعظم ہاشم خان نے ڈیورنڈ لائن کا ایشواٹھایا۔1950میں کابل میں جلاوطن حکومت قائم کرنے کا ڈرامہ رچایااور ڈیورنڈ لائن پر معاہدہ کی خلاف ورزی کی گئی1961میں افغانستان نے15ہزار فوجیوں سے باجوڑ پر حملہ کر دیا لیکن پاکستان نے انہیں پسپا ہونے پر مجبور کردیا ظاہر شاہ کے بعد سردار دائود کی حکومت آئی تو انہوں نے بھی پہلی تقریر میں پشتونستان کا ایشو اٹھایا ۔سردار دائود مارچ 1978میں پاکستان آئے انہیں جنرل ضیاالحق نے شالامار باغ میں استقبالیہ دیا وہ پنجاب نہیں آنا چاہتے تھے اس وقت کابل میں موجود اجمل خٹک نے انہیں لاہور جانے پر آمادہ کیا۔ جنرل ضیاالحق سے ملاقات میں سردار دائود ڈیورنڈ لائن کا تنازع ختم کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے اور وہ شالامار باغ میں اس بات کا اعلان کرنے والے تھےکہ جنرل ضیا الحق نے انہیں کہا وہ جلد کابل آرہے ہیں اس دوران وہ اپنے آدمیوں سے مشاورت کرلیں میرے دورے کے موقع پر وہ اس بات کا اعلان کریں لیکن جب سردار دائود واپس گئےتو مارے گئے۔ ستمبر 1978میں جنرل ضیا الحق کابل کے دورے پر گئے تو اس وقت نور محمد ترکئی کی حکومت تھی انہوں نے بھی اپنی پہلی تقریر میں نہ صرف پشتونستان کا مسئلہ اٹھایا بلکہ بلوچستان کا مسئلہ بھی اٹھا دیا ۔جنرل ضیالالحق نے وردی پہن رکھی تھی تو نور محمد ترکئی نے پشتو زبان میں جنرل ضیاالحق کے بیجوں بارے ریمارکس دئیے کہ انہوں نے ابھی تک وکٹوریہ کراس پہن رکھا ہےیہ گفتگو جنرل ضیا الحق سمجھ تو گئے لیکن انہوں نے مصلحتاً جواب نہ دیا ۔ویانا میںنور محمدترکئی کے ساتھ مذاکرات میں برف پگھل گئی لیکن جب وہ کابل واپس پہنچے تو وہ بھی مارے گئے حفیظ اللہ امین اقتدار میں آئےتو انہوں نے بھی پشتونستان اور بلوچستان کا راگ الاپنا شروع کر دیا ۔آغا شاہی کابل جانے کیلئے ائیرپورٹ پر تھےتو انہیں حفیظ اللہ امین کے مارے جانے کی اطلاع ملی پھر روسی فوجی افغانستان میں داخل ہو گئی روسی ہمارے دشمن تھے روس نے بھارت کیساتھ دفاعی معاہدہ کیا اور پاکستان کو دو لخت کیا اس نے پشتونستان اور گریٹر بلوچستان کی نام نہاد تحریک کی پشت پناہی کی ۔ افغانستان پاکستان میںچلنے والی علیحدگی کی تحریکوں کی پشت پناہی کرتا رہا ۔افغانستان تو یہ رٹ بھی لگاتا رہا کہ دریائے اٹک ہمارا حصہ ہے سکھوں کے دورسے پہلے تک یہ علاقہ افغانستان کا تھا۔ ملا یعقوب کی جانب سے ڈیورنڈ لائن بارے متنازعہ بیان دیا گیا 1919 کے معاہدہ راولپنڈی پر جنگ ختم ہوئی۔برطانوی سلطنت کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کوسرکاری سرحد تسلیم کیا گیا۔ افغانستان کو خارجہ پالیسی کا اختیار ملا 1921میں بھی ڈیورنڈ لائن کی توثیق ہوئی افغانستان کا یہ موقف غلط ہے کہ یہ معاہدہ سو سال کیلئے تھا 1993ء میں یہ معاہدہ ختم ہو گیا ہے 1919 ء اور 1921ء کے معاہدے میں بھی کہیں مدت کا ذکر نہیں ۔

تازہ ترین