• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے معاملے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، بظاہر ایک روایتی پیشی ،روایتی سماعت اور روایتی التوا ہے ،ہمارے عدالتی نظام میں بھی ایسا ظلم کا نظام ہے کہ اسے ہی نظام کہا جاتا ہے ۔ مقدمہ کسی نوعیت کا ہو، کتناہی سنگین ہو ،سائل کتنا ہی مظلوم اور مجبور ہو، کبھی جج چھٹی کرجاتا ہے ،کبھی وکیل ، کبھی ایک وکیل تاریخ بڑھانے کی درخواست کرتا ہے کبھی دوسرا ،اور عافیہ کے کیس میں تو سارے مظالم پر مشتمل ظلم ہوا ہے۔ جج بدلنے لارجر بنچ بنانے ،بنچ ٹوٹنے، پھر بننے کے بعد اب معمول کے تاخیری نظام کے مطابق سماعت ہوئی اور اس مرتبہ درخواست گزار کا وکیل حاضر نہیں تھا، عدالت نے بہرحال تاریخ دیدی ، مگر وکیل سرکار نے اپنے موقف میں جوکچھ کہا ہے اس میں امید کی ایک جھلک ہے، اس نکتے پر غور کریں تو مسئلہ حل۔بشرطیکہ سرکار کی طرف سے نیک نیتی ہو، وکیل سرکار نے کہا ہے کہ درخواست میں جو استدعائیں کی گئی تھیں وہ تمام پوری ہوچکی ہیں ، کم وبیش ایسا ہی ہے، وکیل نے کہا ہے کہ بس اب امریکی عدالت میں رحم (انسانی بنیادوں پر رہائی) کی اپیل دائر کرنے کا معاملہ زیر غور ہے۔ اور اپیل میں ایسے نکات شامل ہیں جو ریاستی موقف کے خلاف ہیں اس لیے اس صورت میں ریاست اس کی حمایت نہیں کرسکتی۔ اس بیان سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ سرکارانسانی بنیادوں پر عافیہ کی رہائی کے حق میں ہے، بس امریکی عدالت میں پٹیشن کے مندرجات پر اعتراض ہے، تو اس پر تو بات ہوسکتی ہے۔ اور ہونی بھی چاہئے۔

عدالت نے درست فیصلہ کیا کہ درخواست گزار کے وکیل کو سن کر مزید کارروائی کی جائے گی، اس نکتے ہی میں اتفاق رائے کا نکتہ بھی ہے ،اور وہ یہ کہ سرکار رحم کی اپیل کی موجودہ صورت میں حمایت نہیں کرسکتی۔ لیکن اسے رحم کی اپیل سے تو اختلاف نہیں ہے، تو اگلی سماعت میں جہاں درخواست گزار کے وکیل کو سناجائے وہیں سرکار سے بھی پوچھا جائے کہ کون سی باتیں ریاستی موقف کے خلاف ہیں۔ ریاست کا موقف تو سرکار اور درخواست گزار دونوں کے لیے یکساں قابل احترام ہے لہٰذا اس پر تو اختلاف نہیں ہونا چاہئے ،جو جو چیزیں ریاستی مفاد کے خلاف ہوں انہیں دوطرفہ اتفاق رائے سے خارج کردیا جائے اور ایک مشترکہ مضبوط موقف پر مشتمل اپیل امریکی عدالت میں دائر کی جائے۔ یاد رکھیں مضبوط اپیل اسی صورت میں ہوگی جب ریاست اس کی حمایت کرے ،کم از کم اب تک ریاست کی جانب سے کھل کر عافیہ سے لاتعلقی تو ظاہر نہیں کی گئی ، ہاں ٹال مٹول تو مسلسل جاری ہے ،بس ایک ذراسی کمی ہے وہ ریاستی عزم ہے ،اپنی قوم کی بیٹی کو باعزت طور پر ملک واپس لانے کا عزم اور اس کا دوٹوک اظہار ہے ،حکومت یہ کمی پوری کرے ،اختلافی نکات کی نشاندہی کرے اور متفقہ نکات کی بنیاد پر عافیہ کی رہائی کی اپیل کی جائے۔

پاکستان کی تاریخ میں امریکا کو دینے والی چیزوں کی فہرست بڑی طویل ہے ، لیکن لینے والی چیزوں کی فہرست نہ ہونے کے برابر ہے، خصوصاً انسان امریکا کے حوالے کرنے کا معاملہ تو یکطرفہ ہے ، اب اس معاملے میں حکومت کا اسکور بہتر ہوسکتا ہے ، طویل عرصے کے بعد پاکستان اپنے کسی شہری کو امریکا سے مانگ کر اپنا وقار بلند کرسکتا ہے۔ اگلی سماعت میں عدالت بھی سرکار سے استفسار کرے اور درخواست گزار کا وکیل بھی کہ کون کون سی باتیں سرکاری ریاستی موقف کے خلاف ہیں، یہ باتیں سامنے آنے ہی سے رکاوٹیں دور ہونگی اور ریاست کا وقار افضل لیکن اس کو بچاتے ہوئے بیٹی کولانے کا راستہ بھی تو اختیار کیا جائے ۔ رحم کی اپیل کو سادہ بنایا جائے ، عافیہ کی کیفیت، اس کی ذہنی ، جسمانی، نفسیاتی صورتحال اور بچوں اور خاندان سے دوری کی بنیاد پر انسانی ہمدردی کی متفقہ اپیل امریکی عدالت میں بھیجی جائے ۔ حکومت پاکستان بھی جانتی ہے کہ اپیل کی سرکاری حمایت اس اپیل کو مضبوط اور جاندار بنائے گی ،اورحمایت نہ کرنے کا مطلب عافیہ سے سرکار کی دستبرداری ہوگی۔اب فیصلہ ریاست،حکومت اور درخواست گزار کو مل کر قومی مفاد میں کرنا ہے ،اور قومی مفاد قوم کی بیٹی کی باعزت واپسی ہی ہے۔بیٹی قید میں رہے تو،ریاست اور قوم کا وقار بھی مجروح ہوگا۔

اگلی سماعت میں ابھی وقت ہے، عدالت عافیہ کے امریکی وکیل ،ڈاکٹر فوزیہ، ان کے وکیل اور سرکار کو تمام اختلافی امور ختم کرکے متفقہ پٹیشن تیار کرنے حکم دے سکتی ہے ،اس طرح عافیہ سے متعلق حکومتی عدم دلچسپی کا تاثر بھی ختم ہوجائے گا اور عافیہ کا کیس بھی مضبوط ہوجائے گا ،لیکن اس سارے معاملے میں سرکار کی طرف سے سنجیدگی اور خلوص کے اظہار کی ضرورت ہوگی،اس کے بغیر معاملہ لٹکا ہی رہے گا۔

تازہ ترین