وزیراعظم اپنے دفتر سے برآمد ہوئے تو انکا موڈ خوش گوار تھا۔ اہم کاغذات سے بھرا دستی بیگ ہمیشہ کی طرح انکے ہاتھ میں تھا، کونے میں لگی جسکی تنی کو وہ اپنے دائیں ہاتھ کی پشت پر چڑھائے، جھلاتے ہوئے بیرونی دروازے کی طرف بڑھے۔ سامنے سے گزرنے والے وزیراعظم کو دیکھ کر رُک جاتے، ادب سے سلام کرتے اور دائیں بائیں ہوجاتے تاکہ وزیراعظم گزر جائیں۔ یہ اتفاق تھا یا بدقسمتی کہ پاکستان مسلم یوتھ لیگ کے سیکریٹری جنرل مرزا جواد بیگ بھی اسی وقت سامنے آگئے۔ انہیں دیکھ کر وزیراعظم کے چہرے پر برہمی کے آثار دکھائی دیئے اور انہوں نے نسبتاً سختی سے ان سے دریافت کیا: ’’ولایت کو ٹھیکہ تم نے دلایا ہے؟‘‘ وزیراعظم کو یوں برہم دیکھ کر مرزا صاحب نے کچھ کہنے کے بجائے اثبات میں سرجھکا دیا۔ ’’اعتراف جرم‘‘ سے وزیراعظم کی برہمی کم نہ ہوئی ،وہ انہیں بازو سے پکڑ کر اپنے دفتر میں لے گئے اور دوبارہ سوال کیا:’’میں پوچھتا ہوں تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
محولا بالا اقتباس معروف صحافی اور مصنف فاروق عادل کی کتاب ’’دیکھا جنہیں پلٹ کے‘‘ میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب لیاقت علی خان سے متعلق تحریر کئے گئے خاکے ’’راست باز‘‘ سے لیا گیا ہے۔ وزیراعظم جس شخص سے متعلق استفسار کررہے تھے وہ کوئی اور نہیں انکے اپنے صاحبزادے نواب زاہ ولایت علی خان تھے۔ والد سے ناچاقی کے سبب ولایت علی خان کراچی منتقل ہونے کے بجائے لاہور جاآباد ہوئے اوربے روزگار ہونے کے باعث مالی مشکلات کا شکار تھے۔ مرزا جواد بیگ نے نوابزادہ ولایت علی خان کی تنگ دستی کے پیش نظر نہایت خلوص سے انہیں کراچی بلوایا اور ایک ٹھیکہ دلوایا تاکہ یہاں کاروبار کرکے اپنے مالی مسائل حل کرسکیں۔وزیراعظم کو خبر ہوئی تو انہوں نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ولایت کو واپس لاہور بھجوانے کا حکم صادر فرمادیا ۔نواب لیاقت علی خان کا خیال تھا کہ انکا بیٹا یہاں کراچی میں کاروبار کریگا تو لوگ کہیں گے باپ کی حیثیت اور مقام و مرتبے کا فائدہ اُٹھا کر مال بنا رہا ہے۔ مرزا جواد بیگ نے نہایت ادب سے جواب دیا کہ اس طرح تو وہ نہ صرف خود بھوکوں مرے گا بلکہ اہل خانہ بھی پریشان ہونگے۔ آخر کار اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ وزیراعظم نے کسی سے دس ہزار روپے اُدھار لئے اور یہ رقم مرزا جواد بیگ کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ ولایت سے کہو، لاہور جاکر ان پیسوں سے کچھ کاروبار کرلے ۔
کہنہ مشق صحافی فاروق عادل نے اس خاکے کے اختتام پر مرزا صاحب سے ملاقات کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ان دِنوں کی بات ہے جب جنرل پرویز مشرف کے ایما پر جنرل تنویر نقوی ایک نئے بلدیاتی نظام کی داغ بیل ڈال رہے تھے۔ میں نے عرض کیا اب نیب بن چکی، حکمراں بدعنوانی کی بیخ کنی پر کمر بستہ ہیں، فکر کس بات کی؟ مرزا صاحب دُکھ سے مسکرائے اور کہاکہ نیب کا بیج جب تک من میں سے نہ پھوٹے کچھ تبدیل نہیں ہوتا۔ 347صفحات پر مشتمل اس تصنیف میں مولانا مودودی، عبدالرب نشتر، نواب زادہ نصراللہ خان، بال ٹھاکرے، میاں نوازشریف، آصف زرداری ،مولانا سمیع الحق ، عمران خان اور سابق صدر مملکت ممنون حسین سمیت کئی اہم شخصیات کے خاکے موجود ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ صدر ممنون حسین کے دور میں فاروق عادل نے ایوان صدر میں پریس سیکریٹری کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں ۔شخصی خاکوں کا سلسلہ عامر لیاقت سے متعلق تحریر’’انوکھا لاڈلا‘‘پر ختم ہوتا ہے ۔پرانے مسلم لیگی شیخ لیاقت حسین مرحوم کے صاحبزادے عامر لیاقت کبھی ایم کیو ایم کا ’’پرچم ‘‘اُٹھایا کرتے تھے اورپھر عمران خان کے قافلہ انقلاب کے علم بردار بن گئے مگر ایک غلط فیصلے نے اس باصلاحیت شخص کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔مگر کتاب کے آخر میں میاں نوازشریف کی والدہ محترمہ شمیم اختر صاحبہ اور فاروق عادل کے والد گرامی حکیم غلام حسین عادل کا ذکر خیر بھی ملتا ہے۔فاروق عادل اپنا خاندانی پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کے جد امجد کمال الدین اورنگ زیب عالم گیر کے ہم عصربزرگ تھے ۔وہ اس زمانے میں شیخوپورہ کے حاکم تھے لیکن کسی معاملے میں شہنشاہ سے اختلاف ہوگیا تو انہوں نے سرتسلیم خم کرنے کے بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کیااور قلعہ بند ہوکر بیٹھ گئے۔اُدھر بادشاہ نے قلعے کا محاصرہ کرلیا ۔محاصرہ طویل ہوگیا ۔یہاں تک کہ مغل بادشاہ عالمگیر کو ناکامی صاف دکھائی دینے لگی۔اس نے شاطرانہ ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے خاندان کے مراثی کو اپنے ساتھ ملالیا جس نے غداری کی اور قلعے کا دروازہ کھول دیا۔یوں جیتی ہوئی جنگ شکست میں تبدیل ہوگئی ۔اس کے بعد دو واقعات ہوئے۔ایک توخاندان میں مراثی رکھنے کی روایت ختم ہوگئی اور دوسرا خاندان تتر بتر ہوگیا۔شیخوپورہ سے نکل کر یہ لوگ ضلع جھنگ کے گاؤں غوث پور پہنچے۔غوث پور میں خاندان کے دو قبیلے آباد ہیں ،ڈھڈی اور بھٹہ ۔ڈھڈیوں کے یہاں تھانے کچہری کے سبب جھنگ شہر کو مرکز بنانے کی روایت رہی جبکہ فاروق عادل کے قبیلے بھٹہ نے سرگودھا کو مرکز بنایا کیونکہ ان کا رجحان تعلیم کی طرف تھا۔فاروق عادل کے والد حکیم غلام حسین عادل جو رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور جاآباد ہوئے تھے ،وہ بھی 1970ء میں سرگودھا منتقل ہوگئے ۔
نثرکے میدان میں خاکہ نگاری کا شمار اردو ادب کی نہایت بیش قیمت اصناف میں ہوتا ہے ۔فرحت اللہ بیگ ،مولوی عبدالحق ،خواجہ حسن نظامی ،سعادت حسن منٹو اور رشید احمد صدیقی جیسے خاکہ نگار وضع قطع اور اوصاف و کردار کو یوں صفحہ قرطاس پر منتقل کیا کرتے تھے کہ حقیقت کا گمان ہوتا۔ہمارے عہد میں جب حرف مطبوعہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے ،فاروق عادل نے اس دم توڑتی روایت کو زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ان کا سب سے بڑا وصف بے تکلفانہ اسلوب اور نہایت شگفتہ تحریر ہے ۔بعض ناسمجھ بے ادبی یا گستاخی کو جرات اظہار خیال کرتے ہیں مگر فاروق عادل کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ حق بات سلیقے،قرینے اور تہذیب و شائستگی سے بھی کہی جاسکتی ہے۔یہ ان کے تحریر کردہ خاکوں کا دوسرا مجموعہ ہے اس سے پہلے ’’جو صورت نظر آئی ‘‘کے عنوان سے شخصی خاکوں پر مبنی ایک کتاب شائع ہوچکی ہے۔