• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں سعودی عرب اور پاکستان نے اقتصادی تعاون کے فریم ورک پر اتفاق کیا جس کا مقصد تجارت اور سرمایہ کاری کو مزید مضبوط اور باہمی مفادات کو فروغ دینا ہے۔ 28اکتوبر کے مشترکہ اعلامیے میں سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان ریاض میں فیوچر انویسٹمنٹ کانفرنس کے موقع پر یہ فریم ورک طے پایا، جس میں فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر، وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی شرکت کی۔ سعودی وژن 2030ء کے مطابق نئے اقتصادی فریم ورک میں معیشت، تجارت اور سرمایہ کاری کے ترجیحی منصوبوں میں توانائی، صنعت، کان کنی، آئی ٹی، سیاحت، زراعت اور فوڈ سیکورٹی کے منصوبے شامل ہیں۔ دونوں ممالک اس وقت کئی مشترکہ منصوبوں پر عملدرآمد کا جائزہ لے رہے ہیں جس میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون بھی شامل ہے۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ اقتصادی تعاون فریم ورک کے تحت سعودی عرب رواں مالی سال پاکستان کو نہ صرف سالانہ 1.2ارب ڈالر یعنی 100ملین ڈالر (28.37 ارب روپے) ماہانہ تیل کی موخر ادائیگی کی سہولت بھی فراہم کریگا بلکہ 5ارب ڈالر کے اپنے سیف ڈپازٹس کو رول اوور بھی کریگا جو سعودی عرب نے پاکستان کو 4فیصد شرح سود پر بجٹ سپورٹ کیلئے فراہم کئے ہیں۔ سعودی عرب نے رواں مالی سال کے پہلے 3مہینوں (جولائی، اگست ستمبر2025ء) میں پاکستان کو 300ملین ڈالر کی تیل کی موخر ادائیگی کی سہولت فراہم کی ہے جو پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر کو مستحکم رکھنے میں مدد فراہم کرے گی۔

پاکستان اور سعودی عرب کی باہمی تجارت 5 سے 6 ارب ڈالر ہے اور سعودی عرب میں مقیم 26 لاکھ سے زائد پاکستانی سالانہ 5.5سے 6ارب ڈالر ترسیلات زر اپنے وطن بھیج رہے ہیں۔ سعودی عرب پاک سعودی انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن پلان (IFP) کے تحت پاکستان میں قدرتی وسائل اور انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتا ہے۔ سعودیہ نے پاکستان میں سونے اور تانبے کے ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کی ہے۔ مستند سروے کے مطابق ریکوڈک میں تانبے کے 22ارب پاؤنڈ اور سونے کے 13 ملین اونس ذخائر پائے جاتے ہیں جو دنیا کے نویں بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر ہیں اور انکی مجموعی مالیت 500ارب ڈالر ہے۔ ریکوڈک کے علاوہ بلوچستان میں سینڈک منصوبے کے تحت تانبے کی کان کنی کے کچھ لائسنس چینی کمپنیوں کو بھی دیئے گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاک سعودی جوائنٹ بزنس کونسل کے سرمایہ کاروں کے 15رکنی وفد نے کراچی اور لاہور میں بزنس مینوں اور SIFC حکام سے ملاقاتیں کیں اور ترجیحی شعبوں میں سعودی عرب اور پاکستانی کمپنیوں نے28ارب ڈالر کی27مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کئے جس میں سعودی کمپنی آرامکو کی پاکستان کے تیل اور گیس کے شعبے میں 10ارب ڈالر کی گرین ریفائنری کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ حال ہی میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے پر دستخط کئے گئے جو خطے میں بدلتے ہوئے سیکورٹی تناظر، اسرائیل کے قطر پرحملے اور امریکہ کے کردار نے خلیجی ممالک کو نئی دفاعی حکمت عملی کی ضرورت کا شدت سے احساس دلایا کہ امریکہ، اسرائیل کے مقابلے میں کبھی خلیجی ممالک کا دفاع نہیں کریگا اور ان عوامل نے پاک سعودی دفاعی معاہدے میں اہم کردار ادا کیا جو سعودی عرب اور پاکستان کا طویل المدت شراکت داری کی ایک مثال ہے جس سے نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ سعودی عرب نے گوادر اور سی پیک منصوبوں میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ پاکستان کی زرخیز زرعی زمین، افرادی قوت، معدنی وسائل، آئی ٹی سیکٹر، ریفائنری، متبادل توانائی کے ساتھ ملک میں کان کنی کے شعبوں بالخصوص تانبے، سونے اور دیگر نادر معدنیات کے بے شمار مواقع پائے جاتے ہیں جس میں سرمایہ کاری کیلئےسعودی عرب نے دلچسپی ظاہر کی ہے۔ دونوں ممالک کو ان دستیاب مواقعوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اس اقتصادی شراکت داری کے فروغ میں کچھ چیلنجز بھی ہیں اور پاکستان کو اپنی معاشی پالیسیوں میں تسلسل، سیاسی استحکام، شفافیت اور سرمایہ کاری کے عمل کو آسان بنانا ہوگا۔ اسکے علاوہ سعودی عرب اپنی فوڈ سیکورٹی کیلئے پاکستان کی زرخیز زمین اور افرادی قوت کو استعمال کرنا چاہتا ہے جس کیلئے دونوں ممالک کے پرائیویٹ سیکٹر کو فعال ہونا ہوگا۔ سعودی عرب تیزی سے ہائی ٹیک معیشت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل معیشت، گرین انرجی، اسمارٹ انفراسٹرکچر کے شعبوں میں سعودی عرب نے بڑے اہداف رکھے ہیں۔ پاکستان کے نوجوان سعودی عرب میں ٹریننگ کے بعد اس ڈیجیٹل انقلاب میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

21 سے 23اکتوبر کو فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) کے صدر عاطف اکرام شیخ کی سربراہی میں ایک وفد نے مکہ میں ’’پاکستان نیشنل ویک ٹریڈ ایگزی بیشن‘‘ کا انعقاد کیا۔ ان سرگرمیوں میں پاکستان میں تعینات میرے قریبی دوست سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی کی کاوشیں قابل ستائش ہیں جنہوں نے ہر مشکل حالات میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ سعودی وژن 2030ءکے تحت سعودی عرب کو اپنے دفاع اور انسانی وسائل کی ضرورت ہے، ترقی کا راز اب سائنس، مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی میں ہے جبکہ پاکستان کے پاس افرادی قوت موجود ہے جس کو استعمال کرکے دونوں ممالک مشترکہ اقتصادی ترقی حاصل کرسکتے ہیں۔

تازہ ترین