• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خوب رو ہیں سیکڑوں، لیکن نہیں تیرا جواب ...

تحریر: شائستہ اظہر صدیقی، سیال کوٹ

ماڈل: عالیہ راجپوت

ملبوسات: Balreej's Fashion, Karachi

آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر، کراچی

زیورات: امیج جیولرز

کوآرڈی نیشن: محمّد کامران

عکّاسی: ایم کاشف

لےآؤٹ: نوید رشید

سوال ہو، ’’کسی بھی تعلق کی مضبوطی میں محبّت اہم ہے یا اعتبار؟‘‘ تو اکثریت آنکھ بند کر کے ’’محبّت‘‘ پرمُہر ثبت کردے گی۔ دراصل کچھ فلمی سا دَورچل رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے خُود ساختہ اسٹارز نےخُوب صُورتی، خُوش نمائی اور محبّت کی تکون کا ایسا ’’اورا‘‘ سا بنا دیا ہے کہ آج ہر بچّہ، جوان محبّت میں گوڈے گوڈے مبتلا، عشق کا مارا ہی نظر آتا ہے۔ ’’محبت‘‘ گویا ایک معاشرتی نصب العین ہے اور اِس میں مبتلا ہونا عین فرض۔ کوئی اِس ’’راہِ عشق‘‘ سے پرے کھڑا نظر آئے تو زندگی کی رُوح سے نا آشنا سمجھا جاتا ہے۔ 

محبّت اِک احساس نہیں رہا، ٹرینڈ بن چُکا ہے، جسے پوسٹس، رِیلزاور ہیش ٹیگزکے پیمانے سے ماپا جاتا ہے، تو وہیں سادگی و جذبات فلٹرز اور ایفیکٹس کے پَردوں میں چُھپ سے گئے ہیں۔ محبّت نہ ہوئی، ایک پرفارمینس ہوگئی، بہتر طور پر انجام دینے والا ہی’’عاشقِ صادق‘‘ مانا جائے گا۔ لیکن خیر… دوسری جانب وہ لوگ بھی ہیں،جواعتبار کوتعلق کی مضبوطی کاپیمانہ مانتے ہیں۔ 

پر صاحب! بڑی سخت آزمائش میں ڈالتے ہیں ایسے لوگ کہ اعتبار کوئی جُھنجھنا تھوڑی ہے کہ بچّہ روئے تو ہاتھ میں دے کربہلا دو۔ یہ کسوٹی تو پرکھتے پرکھتے عُمریں نگل جاتی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اعتبارکی راہوں پرچلنے والوں کے پائوں سدا لہولہان ہی دیکھے گئے۔ برہنہ پاچلنا شرط جو ٹھہری، جب کہ رستہ خاردار ہوگا، یہ بھی طےہے۔

اعتبار، سنجیدہ مزاج لوگوں کا وتیرہ ہے۔ محبّت کے نام پر جذباتی عیاشی کرنے والوں سے الگ دنیا کے لوگ ہی یہ راہ منتخب کرتے ہیں۔ بھروسا صرف احساس نہیں، ایمان ہوجاتا ہے۔ مضبوط تعلق کی نفسیات سمجھنے میں محبّت اور اعتبار کا تقابل و تصادم کچھ یوں شورسے برپا ہوتا ہے کہ اس میں وہ خاموش ساعہد، جسے جزوِلازم کہنا غلط نہ ہوگا، بےچارگی کی مُورت بنا کسی کونے کھدرے ہی میں لگا رہ جاتا ہے۔ 

جی ہاں، وہی جس کو’’وفا‘‘ یا ’’وفاداری‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر سمجھیں، تو محبّت دراصل اِس دنیا کی چیز ہی نہیں۔ یہ ایک نُور، ایک تحفہ ہے، جو آسمانوں سے سیدھا دلوں پر اُترتا ہے، اُن دلوں پر، جو منتخب کرلیے جاتے ہیں۔ محبّت ہونا یا نہ ہونا ذاتی نہیں، آفاقی فیصلہ ہے۔ آپ محبّت نہیں کرتے، محبّت خُود آپ کو چُنتی ہے۔ اعتبار کا معاملہ البتہ الگ ہے،یہ فریقین کے بیچ مسلسل، کڑی آزمائش کا نام ہے، جس میں ایک فریق تمام توانائیاں، صلاحیتیں یہاں تک کہ زندگی تیاگ دیتا ہے، مگر درخورِاعتنا ٹھہرنا، نہ ٹھہرنا سامنے والے کے وسعتِ ظرف پرہے۔ 

؎ یہ کیا جگہ ہے دوستو، یہ کون سا دیار ہے… حدِ نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے… ہمیں تو اپنے دل کی دھڑکنوں پہ بھی یقیں نہیں… خوشا وہ لوگ، جن کو دوسروں پہ اعتبار ہے۔ بعض اوقات تمام پونجیٔ حیات خرچنے کے بعد بھی صرف زیاں ہاتھ آتا ہے، جب کہ وفاداری ایک’’سولوگیم‘‘ ہے۔ 

خُود میں کائنات کی گہرائی سمیٹے یہ محض کسی جُزوقتی تعلق یا محدود مدتی وعدے کی تکمیل نہیں، ایسے انسان کےضمیرکی صداقت کا مظہر ہے، جو اپنے قول وفعل میں یک سانیت کاحامل ہو۔ وقت، حالات، دنیاوی مفادات، عارضی فوائد کے تندوتیز طوفانوں میں متزلزل ہوئے بغیر، اپنے عہد کو ایک مقدس امانت کی طرح سینے میں محفوظ رکھتا، عمل سے ثابت کردکھاتا ہے۔ 

تو کیا تعلقات کی مضبوطی کےلیےیہی عُنصرضروری نہیں؟ وہ کیا ہے کہ ؎ ڈھونڈاُجڑے ہوئے لوگوں میں وفاکے موتی… یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں۔ بات ہو وفاداری کی، تو دنیا میں اہلِ مشرق ہی کی مثال پیش کی جاتی ہے اور اہلِ مشرق کی بات ہو تو ’’مشرقی پہناووں‘‘ سےصرفِ نظر تو ممکن ہی نہیں۔

سو، ملاحظہ فرمائیے، آج کی بزم۔ عنّابی رنگ میں ڈوبا لباس شاہی ذوق کا نمونہ معلوم ہو رہا ہے، جیسے وفاداری واعتماد کے لازوال جذبات کابصری اظہار ہو۔ قمیص کا ریشہ ریشہ باریک کڑھت کے جال میں مقیّد ہے، ذرا سی جنبش پر جھلملاتی روشنیاں نظروں کو یوں اپنی جانب کھینچتی ہیں، گویا قدیم مُغلئی دَور کے نقش و نگار کو جدّت سے تراشا ہو۔ رسمی تقریبات، تہواروں کے لیے اِس سے موزوں لباس کیا ہوگا۔ ہلکے سبزے کا دھیما لمس اور چاندی سی جھلک لیےجدید انداز کا شارٹ فراک، جسے روایتی غرارے سےجوڑ کر مشرقیت کی ڈورسےباندھا گیاہے، کیا ہی بھلا لگ رہا ہے۔ 

سیاہ رنگ باطنی گہرائی و سکوت کی علامت ہے اور لباس کا ٹھوس سیاہ رنگ جادوئی سا تاثر دےرہا ہے۔ لمبی قمیص پرلمبائی ہی کے رُخ، باریک سنہری کام پہننے والی کو طویل قامت ظاہر کرنے میں مددگا رہے۔ گلے پرنسبتاً بھاری، جب کہ آستینوں پر مِلا جُلا سا ہلکا کام، رات کے فنکشنز کے لیے نہایت مناسب اندازہے۔ گہرا فیروزی رنگ، اتنا گہرا کہ نیلے سے جا مِلے، جِسےادبی زبان میں ’’نیلگوں‘‘کہتے ہیں، فطری سُکون کا استعارہ ہے۔ اِسی رنگ کا جدید تراش خراش کا پہناوا ’’پارٹی ڈریس‘‘ کی تعریف پر سو فی صد پورا اُتر رہا ہے۔ 

یہ رات کی اوپن ائیر یا دن کی اِن ڈور پارٹیز میں پہنا جا سکتا ہے۔ سُرخ کی سرحدوں سے ٹکراتے تیز گلابی، توانائی، شوخی و شادابی کے ترجمان رنگ میں، بڑے گھیر کی انار کلی فراک ایسی ہے کہ پہننے پر ہر ادا کو رقصاں کردے اور سادہ ٹراؤزر کی بجائے ہم رنگ پلازو کی ہم آہنگی سے گویا ہر قدم، انارکلی چال کو نمایاں کرنا مقصود ہے۔ گہرا سبز، گویا رات کی تاریکی میں ڈوبا پُراسرار جنگل، فطرت کے حُسن کا گہرا ترانہ۔ اس رنگ کی قمیص، ایک لمبی مگر سیدھی فراک کی طرح تراشی گئی ہے، جس کی بناوٹ میں جالی دارکام ہے اور گلے پر نسبتاً چوڑی، گھنی کڑھت ہے۔ 

ٹراؤزر بالکل سادہ کہ توجّہ قمیص کی خُوب صورتی ہی پر مبذول رہے، جب کہ دوپٹا بھی بھاری کڑھت سے آزاد ہے۔ رشتوں کی بنیاد میں کئی رنگ، محبت کا نُور، اعتبار کی آزمائش، وفاداری کی عظمت گُھلے مِلے ہوتے ہیں، مگر غور کیا جائے تو سب سے گہرا، پائے داراور باوقار رنگ وفاداری کا ہے، جو محبت کو دوام بخشتی، اعتبار کو معنی دیتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہی وہ جوہر ہے، جو انسان کو انسان بناتا ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید
جنگ فیشن سے مزید