• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ چند دنوں سے ہمارے دوست احباب مسلسل پوچھ رہے ہیں کہ سوڈان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت سوڈان میں کوئی کفر اور اسلام کی جنگ نہیں ہے، بلکہ یہ سوڈانیوں کی آپس کی جنگ ہے۔ دونوں طرف مسلمان ہی ہیں۔ دونوں طرف عرب النسل لوگ ہیں۔ ایک طرف ریاست کی باقاعدہ فوج ہے جبکہ مقابلے پہ نیم فوجی گروہ ہیں۔ درمیان میں غریب عام مارے جارہے ہیں۔سوڈان اس وقت تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ دارالحکومت خرطوم اور اسکے گردو نواح ملبے کے ڈھیروں میں بدل چکے ہیں۔ لاکھوں انسان اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں۔ اسپتال ویران، بازار جلے ہوئے اور معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ ملکی فوج اور خود سر ملیشیا ریپڈ سپورٹ فورسز کے مابین جاری اس خانہ جنگی نے نہ صرف اقتدار کا توازن بگاڑا ہے، بلکہ ایک بڑے انسانی المیے کو بھی جنم دیا ہے۔ ہزاروں لاشیں بے گورکفن پڑی ہیں۔اقوام متحدہ نے سوڈان کی خانہ جنگی کو دنیا کا تیزی سے بگڑتا ہوا انسانی بحران قرار دیا ہے، جبکہ افریقی یونین اور عرب لیگ نے فوری جنگ بندی اور مذاکرات کی اپیل کی ہے۔ یورپی یونین نے انسانی امداد کیلئے فنڈ مختص کیا ہے، لیکن امدادی قافلے بندوقوں کی زد میں پھنسے ہوئے ہیں۔ عالمی میڈیا اسے وسائل کی جنگ قرار دے رہا ہے۔ سوڈان کے قضیے کو سمجھنے کیلئے ماضی میں جھانکنا ضروری ہے۔ کمانڈر محمد علی پاشا جدید مصر کا بانی کہلاتے ہیں۔ جدید سوڈان کے خط و خال ابھارنے میں بھی اس کی آل اولاد کا اہم کردار ہے۔ 1820ء میں پاشا نے مصر سے نکل کر جنوب میں واقع موجودہ سوڈان کی سرزمین پہ حملہ کر دیا۔ اس وقت موجودہ سوڈان پانچ ٹکڑوں میں منقسم تھا۔ سلطنتِ زرقا جسے سلطنتِ سنار بھی کہا جاتا ہے ۔ سلطنتِ شندی، کردفان، دارفور اور مشرقی سوڈان۔ پاشا نے سب سے پہلے سلطنتِ زرقا پہ قبضہ کیا اور پھر آہستہ آہستہ دیگر ریاستوں کو بھی اپنے اقتدار کی حدود میں کھینچ لایا۔

مغرب میں واقع دارفور کی ریاست آزاد ہی رہی، جسے بعد ازاں اسکے پوتے نے لگ بھگ نصف صدی بعد 1874ء میں فتح کیا۔ محمد علی پاشا کے حملے کے متعدد مقاصد تھےجیسے سوڈانی سرزمین سے سونا حاصل کرنا ،غلام اور افرادی قوت کا حصول اور جنوب میں وقتاً فوقتاً برپا ہونیوالی شورشوں کی بیخ کنی۔ پاشا نے ہی اس مقبوضہ خطے کو السودان نام دیا تھا، جو آج تک چلا آرہا ہے۔1882ء میں برطانیہ نے مصری افواج کو شکست دیکر وہاں سیاسی اور عسکری غلبہ حاصل کر لیااسی دوران 1881ء میں سوڈانی عوام نے مصری گورنر کے جبر کے ہاتھوں مجبور ہو کر علمِ بغاوت بلند کردیا۔ محمد احمد المہدی قائد قرار پائے یہ تحریک نہایت کامیاب رہی۔ مہدی نے بالآخر 1885 ء میں پایۂ تخت خرطوم کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا یوں یہ تحریک کم و بیش موجودہ سوڈانی خطے کی حاکم بن گئی۔1899 ء میں برطانیہ کی قیادت میں اینگلو مصری افواج نے سوڈان پہ حملہ کر کے مہدی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ یوں اینگلو مصری سوڈان کے نام کیساتھ برطانیہ اور مصر نے وہاں مشترکہ حکومت قائم کی۔ سوڈان کا موجودہ جغرافیہ وہی ہے جو اس زمانے میں طے کیا گیا تھا۔ سوڈان یکم جنوری 1956ء میں آزاد ہوا۔بحیرہ احمر کے مغربی کنارے پہ واقع یہ ملک 2011ء سے قبل عالمِ اسلام کا دوسرا ، جبکہ براعظم افریقہ کا سب سے بڑا اسلامی ملک تھا۔جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے بعد اب یہ عالمِ اسلام کا پانچواں، جبکہ الجزائر کے بعد افریقہ کا سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ تقریباً 96فیصد مسلمان ، تین فیصد مسیحی، جبکہ ایک فیصد دیگر مذاہب کے ماننے والے ہیں۔ 1989 ء کو سوڈانی فوج نے اقتدا پہ قبضہ کیا تو عمر البشیر کیساتھ حسن ترابی بھی مشیر کے روپ میں چلے آئے۔ یہ وہ دور تھا، جب ایران میں انقلاب اور افغانستان میں جہاد کامیابی کی منازل طے کر چکے تھے۔ سوڈان میں موجودہ خانہ جنگی کا آغاز اپریل 2023ء میں ہوا، جب ملک کی دو طاقتور عسکری قوتیں آپس میں برسرِ پیکار ہو گئیں۔ ایک طرف سوڈانی پیشہ ور افواج ہیں جنکی قیادت آرمی چیف جنرل عبد الفتاح البرہان کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ریپڈ سپورٹ فورسز ہے، جس کے سربراہ محمد حمدان دقلو ہیں۔ یہ دراصل اقتدار کی تقسیم، فوجی بالادستی اور ملک کے سیاسی و اقتصادی وسائل پر قبضے کی جنگ ہے۔سوڈان کی خانہ جنگی نے دنیا کے سب سے بڑے اور تیز ترین انسانی بحران کو جنم دیا۔ اس تنازع کے نتیجے میں ہسپتال تباہ ہو گئے، خوراک کی ترسیل بند ہوئی، اور پینے کا پانی نایاب ہو چکا ہے۔ اپریل 2023ء سے اب تک کم از کم ڈیڑھ لاکھ افراد ہلاک ہو چکے۔سب سے بڑا المیہ نقل مکانی ہے۔ جہاں 12ملین سے زائد افراد ملک سے فرار ہو چکے یا اندرونی طور پر بے گھر ہوئے ہیں۔ جن میں سے 8.7ملین صرف گزشتہ 20مہینوں میں بے گھر ہوئے ۔ دسمبر 2024ء تک کم از کم پانچ علاقوں میں قحط کی تصدیق ہو چکی تھی ۔

پانچ مزید علاقوں میں قحط کا شدید خطرہ ہے۔ دنیا خاموش ہے، کیونکہ دنیا کے اپنے اپنے مفادات منسلک ہیں۔ الجنینہ، نیالا اور الفاشر جیسے شہر انسانی المیے کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ ہیضہ، ملیریا اور ڈینگی جیسے امراض بڑے پیمانے پر پھیل چکے ہیں۔ یہ بحران صرف بھوک کا نہیں بلکہ مکمل حکومتی نظام اور معاشرتی ساخت کے ٹوٹنے کا بحران ہے، جس کے دور رس اثرات آئندہ نسلوں پر بھی پڑیں گے۔آپ خود سوچیں کہ اس ساری خونریزی اور مفادات کی دوڑ میں حل کیا ہوگا؟سوڈان میں پائیدار امن کی کوششیں نہ صرف داخلی سطح پر بلکہ سب سے زیادہ علاقائی طاقتوں کے مابین اتفاق رائے پر منحصر ہیں۔ اللہ کرے کہ اس کا کوئی جلد حل نکل سکے۔کم ازکم آپ اور ہم دعاتو کرہی سکتے ہیں نا۔۔!!

تازہ ترین