ہر معاشرے کوآگے بڑھنے کیلئے ہیرو اور ولن درکار ہوتے ہیں خواہ یہ کردار حقیقی ہوں یا پھر تخیلاتی۔ان دونوں کرداروں میں بہت باریک سا فرق ہوتا ہے۔مسیحی روحانی پیشوا،بیلبے پورٹیئس کے الفاظ مستعار لوں توایک قتل کرنے والا وِلن کہلاتا ہے اور لاکھوں قتل کرنے والا ہیرو بن جاتا ہے۔بیلبے پورٹیئس کے پیش نظر شاید یہ بات ہوگی کہ ہیروکی طرف اس طرح کی واردات ملکی مفاد کی آڑ میں وقوع پذیر ہوتی ہے اور پراپیگنڈے کی طاقت سے اسے عظیم مقصد کیلئے دی گئی قربانی قرار دیا جاتا ہے۔ ابراہم لنکن نے کہا تھا،وہ قومیں زندہ نہیں رہتیں جو اپنے ہیروز کی قدر نہیں کرتیں۔رومن قانون دان اور سیاستدانMarcus Tullius Cicero نے اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا تھا،مفلس ہے وہ قوم جسکے پاس ہیروز نہ ہوں مگر مفلس تر ہے وہ قوم جسکے پاس ہیروز تو ہوں مگر وہ انکی قدر نہ کرے اور انہیں یاد نہ کرے۔مگر ہمارے ہاں ہیروز کے حوالے سے اک عجب مخمصہ ہے۔ہم اپنے ہیروز کو دیوتا کے منصب پر بٹھا کر ان کی پرستش کرنے لگتے ہیں۔غیر محسوس انداز میں خوشامد اور چاپلوسی کا زہریوں انکی رگوں میں اُتار دیتے ہیں کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہیرو سے زیرو ہوجانے کے بعد اپنی موت آپ مرجاتے ہیں۔یوں تو امریکی ناول نگار،ایف سکاٹ فٹزگیرالڈنے شاید یہ بات امریکی معاشرے کے حوالے سے کہی ہوگی کہ آپ مجھے کسی بھی ہیرو سے ملوائیں اور دکھ بھری داستان پائیں۔مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں ہر ہیرو کے ساتھ رنج و غم کی المناک روداد جڑی ہوتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثر اوقات ہیرو کو اسکے اپنے ہی مداحوں کے شر سے بچانا ناگریز ہوجاتا ہے۔شریف المجاہد اپنی تصنیف ”Quaid E Azam Jinnah“کے ابتدائیہ میں محمد علی جناح کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایڈیسن کے مطابق ہیرو کو بعض اوقات اسکے اپنے مداحوں سے نجات دلانا پڑتی ہے۔ اگر وہ ہیروپہلے ہی فوت ہو چکا ہو تو اپنی قبر سے احتجاج نہیں کر سکتا، اگر ایسا ہو کہ اسکے چاہنے والے اُس سے وہ تمام باتیں منسوب کر دیں جنہیں وہ خود عزیز رکھتے ہیں یا اُسکی شخصیت کو اپنی اقدار اور جذبات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ مزید برآں، کسی تاریخی شخصیت کے دوبارہ زندہ ہونے اور تاریخ کے وسیع منظرنامے میں اپنی جائز جگہ حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اُس مشہور غلط فہمی کو دور کیا جائے جو اُس کے پُرجوش مداحوں نے — دانستہ یا نادانستہ — پھیلائی ہوتی ہے۔
شریف المجاہد کے بقول کوئی شخص کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو، خواہ وہ فطری طور پر ایک رہنما ہو، ایک سیاست دان، ایک پارلیمنٹیرین، ایک مدبرِ ریاست، جنگ یا امن میں قائد۔ — بہرحال، وہ ایک انسان ہی ہوتا ہے اور خواہ وہ فضیلت کا نمونہ ہی کیوں نہ ہو، بہرحال اُس میں بھی کچھ کمزوریاںپائی جاتی ہیں۔ آخرکار، کوئی بھی معصوم عن الخطا نہیں ہوتا۔ یہ ایک قدیم اور بار بار دہرایا جانے والا مظہر ہے جو ازل سے چلا آ رہا ہے۔ یہی مفہوم بادشاہ ہنری چہارم کے اُس بامعنی سوال میں بھی جھلکتا ہے جو اُس نے ڈان پیڈرو کے ایلچی سے کیا تھا:”کیا تم یہ کہنا چاہتے ہوکہ تمہارے بادشاہ میں اتنی خوبیاں بھی نہیں کہ وہ چند خامیوں کا متحمل ہوسکے؟‘‘بادشاہ نے معصومیت بھرے انداز میں استفسار کیا۔والٹیئرہنری چہارم کی اس بات سے اتنا متاثر ہوا کہ جب وہ فرانس کے سب سے مشہور بادشاہ، لوئیXIVکی سوانح لکھنے کا ارادہ کر رہا تھا، جسکے دورِ حکومت کو فرانس کا سنہری عہد کہا جاتا ہے،تو اُس نے اسے اپنی تاریخ نویسی کے اصول کے طور پر اپنا لیا۔
شریف المجاہد لکھتے ہیں کہ ہنری چہارم کے اسی قول کی روح سے جناح بھی گہرے طور پر متاثر نظر آتے ہیں۔ اور جب وہ اپنے آپ کو ”ایک عام انسان“کے طور پر پیش کرتے ہیں، جب وہ اس امکان کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ یا اُنکی سربراہی میں کوئی تنظیم غلطی کر سکتی ہے، اور اگر ایسا ہو تو اُس پر کھلی تنقید کی جا سکتی ہے، تو انکے مداح یہ بات تسلیم نہیں کرتے۔
یہ المیہ محض وفات پاجانے والے ہیروز تک محدود نہیں بلکہ ہمارے درمیان موجود ہیروز کو اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایک بار صاحبزادہ خورشید گیلانی مرحوم نے خوشامد و چاپلوسی کے حوالے سے نہایت دلچسپ واقعہ تحریر کیا تھا۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب حافظ آباد ابھی ضلع نہیں بنا تھا۔ایس پی گوجرانوالہ نے یہاں کھلی کچہری منعقد کی تو ضیاالحق دور کی صوبائی کونسل کے ایک سابق ممبر کو اظہار خیال کا موقع دیا گیا۔یہ صاحب مدح سرائی کے حوالے سے اپنی مثال آپ تھے۔تعریف و توصیف میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہوئے فرمایا،مجھے یقین ہے یہ انتظامیہ اگر کربلا میں ہوتی تو سارے مراحل امن و آشتی سے طے ہوجاتے اور کوئی سانحہ رونما نہ ہوتا۔اس مبالغہ آرائی پر ایک ڈی ایس پی نے کہا،چوہدری صاحب! کچھ خدا کو خوف کریں اگر ہم وہاں ہوتے تو گواہی دینے کیلئے امام زین العابدین ؒ بھی نہ بچ پاتے۔اس پر پورا مجمع کھلکھلا کر ہنس پڑا۔مگر خوشامد اور چاپلوسی ایسی لعنت ہے کہ اگر بتا کر بھی کی جائے تو اپنا اثر چھوڑ جاتی ہے۔یہ ایسا مہلک نشہ ہے کہ انسان ہوش و حواس کھوبیٹھتا ہے اور جب خمار اُترتا ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
آپریشن بنیان مرصوص میں پاکستان کی فقید المثال کامیابی کے بعد افواج پاکستان کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو بھی قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہوگیا مگر نجانے کیوں مجھے ان کے مداحوں سے خوف آتا ہے اور گاہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ہیرو کو انکے بدخواہوں نہیں بلکہ خیر خواہوں سے بچانے کی ضرورت ہے،انہیں اپنے چاہنے والوں کے شر سے محفوظ رکھنااور پرستاروں سے نجات دلانا بہت ضروری ہے تاکہ فیلڈ مارشل کے رینک کی طرح وہ تاحیات قوم کے ہیرو رہیں۔