• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’تم مجھے جانتے نہیں میں کون ہوں‘‘طیش کے مارے اس شخص کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی، وہ کبھی ایک پولیس والے پر حملہ آور ہوتا تو کبھی دوسرے پر۔ اس عمل کے دوران وہ زمین پر بھی گر گیا لیکن اٹھ کر پھر نئے سرے سے حملہ آور ہو گیا۔ تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود ٹریفک پولیس کے اہلکار ضبط سے کام لیتے رہے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر پولیس نے اسے روکنے کی جسارت کیا کر لی اس نے تو آسمان ہی سر پر اٹھا لیا۔گالیاں بکتا، دھمکیاں دیتا، جھاگ اڑاتا وہ شخص تیزی سے گاڑی میں بیٹھا اور یہ جا وہ جا۔اس شخص کی بدقسمتی کہہ لیجئے کہ آس پاس کے لوگوں نے موبائل فون سے اس کی ویڈیو بنالی اور سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ واضح شواہد اور عوامی دباؤ کے پیشِ نظر پولیسں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہ گیا کہ اسے گرفتار کر کے اسکے خلاف قانونی کارروائی کرتی۔اسلام آباد کے اس مصروف تجارتی مرکز میں پیش آنے والا یہ کوئی انفرادی واقعہ نہیں بلکہ ایسے معاملات ہمارے مجموعی قومی رویے کے عکاس بھی ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ وطنِ عزیز میں ہر روز درجنوں ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہوں، جہاں پولیس اہلکاروں کو جھٹک دیا جاتا ہو کہ’’ جانتے نہیں میں کون ہوں۔‘‘ بعض مواقع پر تو نوبت ان کے تبادلے تک جا پہنچتی ہوگی۔اسلام آباد میں ہونے والا واقعہ تو اس لحاظ سے بھی قابلِ مذمت ہے کہ اس میں ملوث ملزم برطانیہ کارہائشی تھا اور ان دنوں پاکستان آیا ہوا تھا۔ ان ملکوں میں تو اس طرح کے لوگ بلا چون و چرا تمام قوانین کی پاسداری کرتے ہیں اور قوانین نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے پر نہیں مار سکتے لیکن اپنے ملک میں پہنچتے ہی یہ اپنے آپ کو تمام قوانین سے مبرا سمجھنے لگتے ہیں۔ گویا یہاں کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔ پھر بعد میں یہ افسوس بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں سارے کا سارا نظام ہی بگڑا ہوا ہے۔یہاں ہمیں یہ بھی کہنے دیجئے، ایسی صورتحال پیدا کرنے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی زیادہ نہیں تو برابر کے قصوروار ضرور ہیں کہ جو ملزم دیکھ کر قانون کا نفاذ کرتے ہیں۔ با اثر افراد ٹریفک قوانین توڑنے جیسے چھوٹے جرائم سے لے کر قتل و غارت گری اور ملکی دولت لوٹنے جیسے سنجیدہ الزامات سے بھی صاف بچ نکلتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے افراد جو اثر و رسوخ نہیں رکھتے یا رشوت دینے پر آمادہ نہیں ہوتے تھانہ کچہری بھگتتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے متعلقہ محکموں کے اعلیٰ عہدے دار اور بھی زیادہ قصور وار ہیں کہ وہ اپنے اہلکاروں کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے ایسے معاملات میں سفارش اور دباؤ کے سامنے ٹھہرتے نہیں اور معاملہ رفع دفع کروانے کی سعی کرتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ان کا یہ عمل اور ان کی جانب سے کی جانے والی بظاہر یہ غیر اہم مداخلت ان کے اہلکاروں کے قانون نافذ کرنے کے عزم کو بتدریج کمزور کرتی چلی جاتی ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ قوانین کی خلاف ورزی ہوتی دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں ۔ دوسری طرف جب با اثر افراد کو چھوٹ ملتی نظر آتی ہے تو ضرورت پڑنے پر عام لوگ بھی منت سماجت، سفارش یا رشوت سے کام لیتے ہوئے ہر ممکن طور پربچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے رویے کا مجموعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، بس جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔

یہاں مجھے اپنے ایک واقف کار کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی یاد بھی آرہی ہے کہ اپنی یونیورسٹی کے گیٹ پر ایک قانون کی خلاف ورزی پر اسے ٹریفک اہلکار نے روکا تو اس نے چپ چاپ 500 روپے کا اپنا چالان کروا لیا۔ دوسرے روز جب اس کا اسی جگہ سے گزر ہوا تو اس پولیس اہلکار کو اپنا منتظر پایا۔ اس کی گاڑی ایک طرف رکوا کر پولیس اہلکار نے انتہائی جذباتی انداز میں یہ کہتے ہوئے اپنی جیب سے اسے 500 روپے واپس کر دیے کہ اتنے برس ہو گئے یہ ملازمت کرتے ہوئے اورایسا پہلی بار ہوا تھا کہ جب اس نے چالان کی کوشش کی تو نہ اس سے بدتمیزی کی گئی، نہ رشوت دینے کی پیشکش کی گئی، نہ اثر و رسوخ سے کام لینے کی کوشش کی گئی۔ یہی نہیں اس نے اپنی چالان بک بھی دکھائی کہ برسوں پہلے اسے جاری کی گئی تھی لیکن اب تک ختم نہیں ہوئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ جب لوگوں نے اس سے بدتمیزی کرنی ہے اور افسروں نے بھی اس کا ساتھ نہیں دینا تو اس کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ اپنی بے عزتی کرواتا پھرے۔

دبئی اور اس جیسے دوسرے ممالک کااکثر حوالہ دیا جاتا ہے کہ ملک کا حکمران بھی سڑک پر کھڑے عام سپاہی کے فیصلے پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ جن ممالک میں چھوٹے قوانین کا بھی بلا تفریق نفاذ کیا جائے، اس کے عام شہری بڑے معاملات کی خلاف ورزی کا تو سوچ بھی نہیں سکتے اور ایک پرامن اور منظم معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ یہاں حکامِ بالا سے ایک گزارش اور بھی ہے۔ ہر چھوٹے بڑے معاملے میں ہم ملک میں اکثر کمیشن اور کمیٹیاں بنتے دیکھتے ہیں۔ ایک کمیشن ایسا بھی بنا دیجیے جو اس امر پر تحقیق کرے کہ معاشرے میں عدم برداشت کا رویہ کیوں بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اس کا تدارک کرنے کے لیے کیا اقدامات کرنا ہوں گے۔

اور ہاں جہاں تک اسلام آباد میں پیش آنے والے واقعے میں ملوث اس شخص کا تعلق ہے، اس کی غلط فہمی بھی دور کیے دیتے ہیں کہ ہم جانتے نہیں کہ وہ کون ہے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ایک ایسا شخص ہے جس کی تربیت میں کوئی بڑی کمی، کوتاہی رہ گئی ہے اور آج سڑکوں، چوراہوں پر وہ اپنے خاندان کا نام ڈبوتا پھرتا ہے۔

تازہ ترین