27ویں ترمیم کے بعدسے اُٹھنے والے شور میں حکومتی حلقوں میں خوشی کی لہر ہے اور اپوزیشن حلقوں میں سوگ طاری ہے مجموعی طور پر ملک میں خیالاتی اور فکری تقسیم بڑھتی جا رہی ہے اتفاق رائے ،مصالحت اور ڈائیلاگ کے دروازے تو عرصۂ دراز سے بند ہیں اب تو ان بند دروازوں کے قفل پر مکڑیوں نے جالے بنا لئے ہیں۔ جمہوریت، پارلیمان، حکومت اور اپوزیشن کا بین الاقوامی ماڈل مذاکرات اور مصالحت پر مبنی ہے اسلئے اس میں نشیب و فراز تو آتے ہیں مگر یہ چلتا رہتا ہے اور باوجود رکاوٹوں کے ملک کو کچھ نہ کچھ آگے بھی لے کر جاتا رہتا ہے سیاسی تناؤ تو تھا ہی اب عدلیہ، حکومت اور مقتدرہ کے درمیان مسائل بھی نقطہِ عروج کو چھونے لگے ہیں سپریم کورٹ کے فاضل حج صاحبان جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفے عدلیہ اور اپوزیشن کے نقطہ نظر میں انتہا کے تصادم اور پھر مایوسی کی علامت ہیں۔
ایک طرف پاک بھارت جنگ میں پہلی دفعہ بڑی کامیابی اور بین الاقوامی طور پر سفارتکاری میدان میں چھکے لگنے کی وجہ سے دل کے اندر بہار کا ساسماں ہے اور اندرونی حالات میں لڑائیوں اور مخالفتوں کی وجہ سے خزاں چھائی ہوئی ہے ایسے موقع پر اردو کے طرح دار شاعر انشاء اللہ خان انشاء (1752 ء تا 1817ء) کا یہ شعر یاد آتا ہے
نہ چھیڑ اے نکہتِ باد بہاری، راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بے زار بیٹھے ہیں
حالات توسب کے سامنے ہی ہیں خوشی اور غم دونوں چل رہے ہیں یہ عاجز، نہ تو ہفت زبان انشاء کی طرح مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کا پسندیدہ رہا ہے اور نہ لکھنؤ میں نواب مرزا سلیمان شکوہ کا درباری، مگر انشاہی کی طرح کا عاشق ہے اور ان ہی کی طرح اسکی محبوبہ بھی نکہتِ باد بہاری ہے جو اٹکھیلیاں کر رہی ہے اور حالات سے عاجز بندے بے زار بیٹھے ہیں۔ تضادستان میں جو بیماری سب بڑےبڑوں کو لاحق ہے اس کو انگریزی میں Megalomaniaاور اردو میں خبط عظمت یا خود پسندی کہتے ہیں ۔جج، آمر، سیاستدان اور مجھ سمیت میری صحافی برادری کے کئی لوگ اس بیماری کا شکارہیں اس بیماری کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ نہ اسکا خود کو پتہ چلتا ہے اور نہ ہی احساس ہوتا ہے یہ بیماری انسان کو اندر ہی اندر بڑا کر کے رکھتی ہے مگر تا ریخ میں اس انسان کا کردار اتنا ہی چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس بیماری نے کئی وزیر اعظموں کو گھر بھجوایا اور گھر بھجوانے والوں نے عوامی آرزوئوں کا خون کرنے کو اپنی عظمت کا نشان سمجھا اس وقت وہ خود پسند شہرت ،عظمت اور طاقت کے مینارتھے تاریخ نے انہیں کوڑے دان کے لائق سمجھا ، وزیر اعظموں کو سزا سنا کر جو اپنا سینہ پھلا کر پھرتے تھے اب تاریخ نویس کے کالے اقوال کی زینت بن رہے ہیں اسی طرح وُہ آمر مطلق جن کے اپنے زمانے میں مکھی بھی پر نہ مار سکتی تھی اب انکی قبر کے کھنڈر انکے اعمال کی گواہی دیتے ہیں۔ وُہ اہلِ سیاست جنہوں نے عوام سے بے وفائی کی عوام نےانہیں اپنی یادوں سے کھرچ کر رکھ دیا اسی طرح ہم صحافی جو کسی مفاد میں سچ پر کمپرومائز کرتے ہیں یا سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرتے ہیں انہیں بھی کوئی اچھے لفظوں سے یاد نہیں کرے گا پروپیگنڈے فیک نیوز اور جھوٹے الزامات وقت کی چھاننی سے گزر کر اپنی گندگی اور غلاظت کھوبیٹھتے ہیں۔اور بالآخر ان میں سے سچ ظاہر ہوکر رہتا ہے۔
انشاء الله خان انشاء نے اپنی محبوبہ کو نکہت ِباد بہار سے تشبیہ دی ہے یعنی وہ خوشبو دار بہار کی ہوا ہے ۔ اس عاجز یعنی ماشاء اللہ خان بہ تخلص تولہ ماشا کی محبوبہ ہےہی نکہتِ باد بہار۔ تولہ ماشا کا اس سے رشتہ شدید محبت اور شدید خوف کا ہے کہتے ہیں دنیا میں خوف کا رشتہ سب سے مضبوط ہوتا ہے نکہت، سب تولہ ماشائوں کی حفاظت، عزت اور ترقی کا باعث ہے نکہت کی بدولت آج ہر طرف باد بہار اور باغ و بہار ہے نکہت نےہندو بھگوا اور کیسری (Saffron) کی خوشبوکواڑا کر رکھ دیا ہے نکہت نے بھینی خوشبو سے بے رنگ سفارتی کیاریوں میں وُہ رنگ دکھائے ہیں کہ نکہت کے عاشقوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
انشاء اللہ خان انشاء کی محبوبہ اٹکھیلیاں کرتی ہے غالب، میرؔ اور اردو شعراء کی محبوبہ نامہربان اور بے وفا ہے ،دانتےکی محبوبہ اور شیکسپیئر کی ڈارک لیڈی بھی ظالم ہے وُہ ایسی محبوبہ ہے جس میں رحم نہیں ہے La Belle dam sans Merci ۔لیلیٰ اور مجنوں کی کہانی میں بھی مجنوں کی جنونیت اور محبت زیادہ ہے اور لیلیٰ کا ردّعمل کمزور اور لاتعلق جیسا۔ شیریں اور فرہاد کی کہانی میں فرہادتیشے سے دودھ کی نہر نکالتا ہے مگر شیریں وُہ محبت نہیں دکھاتی اسی طرح عاجز عرف تولہ ماشا کی محبوبہ بھی ایسی ہی ہے اسے علمہے کہ اسکے تولے ماشو ںسےاسکی محبت نکل گئی تو وہ رُل جائیں گے مگر اس کا عشوہ و طراز کبھی کسی حلیف پر گرتا ہے تو کبھی کسی حریف پر۔ اس کے نازو انداز کے جھٹکوں سے کوئی بھی محفوظ نہیں تولے ماشے، اپنی محبوبہ کی ذاتی لڑائیوں میں تو اسے حق بجانب سمجھتے ہیں کہ اپنے حسن و طاقت کو بر قرار رکھنے کیلئے اس کا یہ کرنا شاید ضروری بھی ہے مگر کئی لڑائیاں خواہ مخواہ کی ہیں بہت سی لڑائیاں بالکل غیر ضروری ہیں محبوبہ کے حسنِ رعب اور رتبے کا یہاںکوئی حریف ہے نہ ثانی مگر محبوبہ کو اوربھی زیادہ تحفظ زیادہ مضبوطی پر بند باندھنا ہوگاکیونکہ اس سے دوسری نکہتوںاور دوسرے تولے ماشوں کی محبوبائیں برگشتہ ہو رہی ہیں اے نکہت تم اٹکھیلیاں نہ بھی کرو، اِدھر اُدھر ہوائی فائرنگ نہ بھی کرو تو تمہارا حسن اور خوف تولاثانی ہے عدلیہ جان اور حکومت جان کی کیا جان ہے کہ وُہ میری جان نکہت کا مقابلہ کریں ان بیبیوں کو بھی سانس لینے دو وگرنہ د نیا میں بیٹھے میری محبوبہ کے مخالف، تضادستان کے اندر بیٹھے تمہارے حریفوں کو امداد بہم پہنچائیں گے۔
اے نکہت باد بہار، یہ تولہ ماشا تو آپکے حسن اور کارناموں کا ہمیشہ اسیر ہے اور آپکے رعبِ حسن سے مرعوب اور مغلوب ہے مگر یہ تضادستان جیو اور جینے دو کے اصول پر بنا ہے گو اس طاقتور حسن میں تمہارا کوئی ثانی نہیں تو پھراور نئی حفاظتی دیواریں چننے کی کیا ضرورت ہے؟ جب کوئی پتّا آپکی مرضی وخواہش کیخلاف نہیں ہلتا تو پھر آندھی چلا کر سب درختوں کے سب پتے گرانے کی کیا ضرورت ہے ؟ عدلیہ جان کی تلوار توپہلے ہی کند ہو چکی ہے پہلے وُہ برہنہ پھرتی تھی اب گھونگھٹ نکالے بیٹھی ہےطاقتورسسر کو کیا ضرورت ہےکہ گھونگھٹ داردلہن سے خوفزدہ ہو جبکہ سسر کا چار وانگ عالم ڈنکا بجتا ہے۔ حکومت جان پہلے ہی آبلہ پا ہے گومنہ میں زبان ہے مگر لمبی زبان کے باوجو د بیچاری گم بیٹھی ہے حد تو یہ ہے کہ اس سے جو نہ بھی مانگا جائے وُہ دینے کو تیار ہے حکومت جان کوعلم ہے کہ شاخِ نازک پر اس کا آشیانہ ہے اور دوسری طرف اس آشیانے سے گرتےہیں تو نیچے انصاف جان نے انتقام کا دوزخ دہکا رکھا ہے ۔ اسلئے ہر ایک بارعب آواز پر حکومتی جان اپنے پر اور سمٹا لیتی ہے اگر یہ سلسلہ آگے بڑھا تو انصاف جان کی طرح عدلیہ جان اور حکومت جان کی جان بھی نکل جائے گی اور جب سب کی جان ہی نکل گئی تو نکہت ِ باد بہار کس کو معطر کرے گی کسے مسرور کرے گی اور کسے خوشحال رکھےگی جنگل کے پرندے ہی نہ رہے تو چہچہاہٹ کہاں سے آئیگی دشت میں ریت اڑنا بند ہو گئی تو یہ دشت کیسے کہلائے گا ملک میں مخالف آوازیں اٹھنی بند ہوجائیں تو اسے بہار کا موسم نہیں خزاں کی رت سمجھا جاتا ہے۔