عافیہ موومنٹ نے روز اول سے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کیلئے حکومت پاکستان اور ریاستی اداروں سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کو 31 مارچ 2003کراچی سے اغواکیا گیا تھا۔انہیں پانچ سال جبری لاپتہ رکھا گیا۔ 2008ء میں پتہ چلا کہ وہ بگرام، افغانستان میں ہیں۔جس کے بعد ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کیلئے ہر حکمران سے مدد کی اپیل کی گئی ، جس میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی حکومتیں شامل ہیں۔یہ 22سال کا عرصہ صرف ڈاکٹر عافیہ اوراس کے خاندان کیلئے ہی اذیتناک نہیں رہابلکہ ملک بھر کے عوام نے بھی عافیہ اور اس کے خاندان کے درد کو محسوس کیا ہے ۔اس اذیتناک عرصہ کے دوران ڈاکٹر عافیہ نے اپنے ہاتھوں سے صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم نواز شریف اورعمران خان کو خطوط لکھے ۔ ڈاکٹر عافیہ کی بہن اور عافیہ موومنٹ کی چیئرپرسن ہونے کے ناطے سے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے 2008سے آج تک سینکڑوں کی تعداد میں صدر مملکت، وزراءاعظم، وزراءداخلہ و خارجہ،مختلف وفاقی وزرا، آرمی چیفس، ڈی جی آئی ایس آئی ،عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں کو خطوط لکھ کر مدد کی اپیل کی ہے۔عافیہ موومنٹ کے ترجمان اور کوآرڈینیٹر کی حیثیت سے میںسینکڑوں کی تعداد میں ان خطوط اور ہزاروں کی تعداد میں یاددہانی خطوط ایوان صدر، پرائم منسٹر ہاؤس، دفترخارجہ،وزارت داخلہ ،دیگر مختلف وزارتوں، سپریم کورٹ آف پاکستان، وفاقی محتسب ، جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹرز کو ڈاک ، نجی کورئیر سروسز ، ای میل اور فیکس کے ذریعے ارسال کر چکا ہوں۔ان خطوط میں ڈاکٹر عافیہ کی امریکی جیل سے رہائی میں مدد کرنے کا ایک مشترک نکتہ ضرور درج ہوتا تھا۔خطوط ارسال کرنے کے بعد میں نےٹیلی فون پرمذکورہ اداروں سے رابطہ بھی کیا اور ان خطوط سے متعلق استفساربھی کرتا رہا ہوں۔ٹیلی فون پر رابطہ کرنے پرمتعلقہ دفاترکے افسران نے ہمیشہ ڈاکٹر عافیہ سے ہمدردی کا اظہار کیا، چاہے ان کا تعلق سول اداروں سے ہو یا عسکری اداروںسےاوریہ کنفرم بھی کیا گیا کہ ہمیں آپ کے خطوط موصول ہوئے ہیں اور دفتری معمول کے مطابق متعلقہ اتھارٹی تک وہ خطوط پہنچائے بھی جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے بڑے دکھی دل کے ساتھ بتایا تھا کہ جس قدرخط و کتابت ڈاکٹر عافیہ کیلئے کی گئی ہے ، میں نے کسی انفرادی کیس میں اتنی دلچسپی کبھی نہیں دیکھی ہے، مگر جب میں نے ان سے متعلقہ اعلیٰ افسران سے بات کرانے کی درخواست کی تو انہوں نے معذرت یا دوسرے معنوں میں مجبور ہونے کا اظہار کیا تھا۔گزشتہ سال کے آخر میں جب ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے امریکی صدر جو بائیڈن سے صدارتی معافی حاصل کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں تو میں نے نومبر کے مہینے میں کراچی میں واقع پاک آرمی کے دفتر میں آرمی چیف ، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے نام خطوط خود جا کر پہنچائے تھے۔ان خطوط میں بھی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے عسکری قیادت سے مدد کی درخواست کی گئی تھی۔جب حکمرانوں اور ریاستی حکام کی طرف سے حد سے زیادہ بے اعتناعی برتی جانے لگی تو طوعاََ و کرہاََ عدلیہ سے رجوع کیا گیا اور بار بار رجوع کیا گیا۔ سندھ ہائی کورٹ، لاہور ہائی کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان اور وفاقی محتسب اعلیٰ کی عدالتوں میں آئینی درخواستیں دائر کی گئیں جس میں بھی یہی استدعا کی جاتی رہی ہے کہ حکومت کو احکامات جاری کئے جائیں کہ وہ اپنی بے گناہ شہری ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا آئینی فریضہ ادا کرے۔
اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ڈاکٹر عافیہ کیس کی سماعت جاری ہے۔اب عدالت میں وزارت خارجہ کے افسران یہ موقف اختیار کر رہے ہیں کہ حکومت نے ڈاکٹر عافیہ کیلئے سب کچھ کردیا ہے ، پھر اس کے بعدحکومت کا امریکہ میں دائر کیس میں فریق بننے سے انکار کرنا، پھر یہ موقف اختیار کرنا کہ امریکی عدالت میں اپیل کے نکات ریاستی موقف کیخلاف ہیں۔ کیاریاست کا اپنی ایک بے گناہ شہری کی امریکی عدالت میں حمایت کرنا، پاکستانی حکومت کیلئے نقصان دہ ہے؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عافیہ اب تک امریکی جیل میں قید ہے، انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے، انہیں ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہ صحت کے تشویشناک مسائل سے دوچار ہیں۔عافیہ کو جیل میں عصمت دری اورتشددسے بچانے کیلئے ڈاکٹر عافیہ کی فیملی کو پاکستانی حکومت کی حمایت درکار ہے ۔ حکومت حمایت سے انکار کرنے کی بجائے ان نکات کو سامنے لائے جس کے بارے میں وہ تحفظات کا اظہار کرر ہی ہے۔ڈاکٹر عافیہ کے خاندان کا تحریک پاکستان میں نمایاں کردار رہا ہے۔ جس کی تمامتر تفصیلات ان کی والدہ مرحومہ عصمت صدیقی کی غیرمطبوعہ سوانح حیات میں موجود ہے۔یہ پاکستان کے چند اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندانوں میں ہمیشہ سے شامل رہا ہے۔کیا یہ اس سے بہتر نہیں ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بجائے اگرپاکستان کے عوام وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف اور فیلڈ مارشل و آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تعریف کریں ۔ ایسا ممکن ہے مگر اس سعادت کو حاصل کرنے کیلئے انہیں عوام کے جذبات ، احساسات اور مطالبات کا خیال رکھنا پڑے گا۔ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکی جیل سے رہائی اور وطن واپسی کے معاملے میں پاکستانی عوام کے جذبات ، احساسات اور مطالبات کچھ ایسے ہی ہیں جن کو پورا کرکے دنیا اور آخرت کیلئے نیک نامی کمائی جا سکتی ہے۔
(صاحب تحریر عافیہ موومنٹ پاکستان کے ترجمان ہیں)