خدا پرستوں کا روز محشر پر پختہ ایمان ہے مگر دنیا پرستوں کے سامنے بھی آئے روز یوم حساب کا منظر رواں دواں رہتا ہے۔ اُس دنیا کے عذاب و ثواب پر تو ایمان غیبی ہے مگر ’’جیسا کروگے ویسا بھرو گے‘‘ کا محشر تو سب کے سامنے ہی بپا رہتا ہے۔ عدلیہ کے بعض جج ادلے کی اسٹیج سیٹ کرگئے تھے۔ بدلہ تو ہونا ہی تھا۔ آخر ہوکر رہا۔ آئین کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے بعض جج خدا بن بیٹھے تھے اور آئین کی جمہوری اور عوامی تشریحات کی بجائے جوڈیشل مارشل لا نافذ کررہے تھے۔ یہ جج نخوت اور تکبر میں آئین حکومت، اداروں، پارلیمان اور عوام سب سے بالاتر ہوچکے تھے۔ دو چار مغرور منصف بیٹھ کر کروڑوں عوام کی منتخب کردہ حکومتوں اور اسمبلیوں کو گھر بھیج دیا کرتے تھے۔ اصل میں تو ان کی طاقت بعض مہم جو جرنیل تھے اور عدلیہ کے جج ان کے زور پر سارے ملک کو آگے لگائے رکھتے تھے۔ آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ افتخار چوہدری کی عدالت میں پولیس، فوج اور نوکر شاہی کی روزانہ کی بنیاد پر کھچائی ہوتی تھی۔ جھوٹی درخواستوں پر ازخود نوٹس لے کر ہر طبقے کی عزت تار تار کرنے کو جوڈیشل ایکٹو ازم کا سنہرا نام دیا گیا۔ اس زمانے میں زیرک سیاست دان چوہدری شجاعت حسین نے بڑا خوبصورت تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب نہ تو کوئی وزیراعظم ہے اور نہ کوئی وزیراعلیٰ یا گورنر اور نہ ہی فوج کی چل رہی ہے۔ اس وقت تو افتخار چوہدری ہی بلاشرکت غیرے ملک کے حکمران ہیں۔ یہ منظر بھی بھولنے والا نہیں کہ چیف جسٹس سندھ کے دیہی علاقوں کے اسپتالوں کے دورے کررہے تھے تاکہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی ساکھ خراب کرسکیں۔ یہی فاضل چیف جسٹس وہ پہلے جج تھے جنہوں نے ’’نونی گورننس‘‘ کا سرعام مذاق اُڑایا اور انہی کے ذریعے عمران خان کو صادق و امین قرار دلوایا گیا۔ یہ عدل تھا یا سیاست؟ ان مہم جو ججوں کو خبط عظمت تھا مگر تاریخ کا پہیہ گھومتے دیر نہیں لگتی۔ ان سب کے کردار اور اعمال آہستہ آہستہ سامنے آگئے ہیں یا آتے رہیں گے۔
ایک زمانہ تھا کہ لاہور ہائی کورٹ میں بیرون ملک سے پڑھ کر آنے والے تین ججوں کا شہرہ تھا، ان کی قابلیت، اصول پرستی اور ایمانداری نے ان کے جج بننے کے پیچھے سفارشوں کو بھلا دیا تھا۔ اکثر وکیل ان کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے۔ یہ جج، جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس کھوسہ اور جسٹس منصور علی شاہ تھے۔ تینوں اچھے خاندانی پس منظر کے حامل تھے۔ عمر عطاء، بندیال قبیلے کے قابل فخر فرزند اور سابق چیف سیکرٹری ایف کے بندیال کے فرزند تھے۔ جسٹس کھوسہ بھی خاندانی طور پر متمول تھے۔ ان کے خاندان کا بیورو کریسی میں ایک نام تھا۔ منصور علی شاہ، لاہور کے صنعت کار سیّد خاندان سے تعلق رکھتے اور انتہائی کامیاب کارپوریٹ وکیل تھے۔ یہ تینوں رائزنگ اسٹار تھے اور اس زمانے میں ان سے توقع باندھی جارہی تھی کہ یہ ملک کی آئینی اور جمہوری تاریخ بدل دیں گے۔ جسٹس کھوسہ نے بطور وکیل آئین میں ترمیم کے خلاف آرٹیکلز لکھے مگر جب جج بن کر فیصلہ کیا تو اپنے پہلے خیالات سے یوٹرن لے لیا۔ سب فیصلوں میں پارلیمان کو سپریم اور وزیراعظم کو ملک کا چیف ایگزیکٹو مانتے رہے۔ بطور جج فیصلہ کیا تو کروڑوں کے منتخب وزیراعظم کی ایک ناقص عدالتی حکم کے ذریعے چھٹی کرا دی۔ جج صاحب نپولین کی طرح چھوٹے قدوقامت کے تھے۔ اُنہوں نے جمہوریت پر بوناپارٹزم کا وہ وار کیا کہ آج تک جمہوریت اس سے سنبھل نہیں سکی۔ ان کی اصول پسندی بروٹس کی طرح تھی جس نے سیزر کو پیچھے سے وار کرکے قتل کردیا۔ بروٹس کی اصل طاقت سیزر ہی تھا۔ قتل سے سیزر تو چلا گیا، اقتدار بروٹس کو پھر بھی نہ ملا اور وہ بے وفائی کی تاریخ کا امام ٹھہرا۔ جسٹس بندیال کی اُڑان بھی بلند تھی مگر وہ نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔ جسٹس بندیال اور جسٹس منصور علی شاہ کے درمیان وکیلوں کے تنازعہ پر جو لڑائی ہوئی اس کے بعد کبھی صلح نہ ہوسکی۔ ایک زمانے کے اصول پسند جسٹس بندیال بالآخر جسٹس ثاقب نثار گروپ میں شامل ہوگئے۔ ججوں کا لاہوری گروپ تقسیم تھا، جسٹس منصور علی شاہ، ثاقب نثار اور بندیال کے مخالف گروپ میں جسٹس مقبول باقر کے ہمراہی تھے۔ مگر جب منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بننے کی باری آئی تو یہ شبہ تھا کہ وہ اندر ہی اندر تحریک انصاف کے خیالات کے حامی ہوچکے ہیں اور تاثر یہ تھا کہ وہ چیف جسٹس بنے تو 2024ء کے انتخابات کالعدم قرار دے دیں گے، ان کے دورئہ امریکا کے دوران ایسی انٹیلی جنس رپورٹس بھی آئیں جن میں ان سے کہا گیا کہ ان کے قریبی حلقے تحریک انصاف والوں کو کہہ رہے ہیں کہ آپ اگلے الیکشن کی تیاری کریں کیونکہ موجودہ الیکشن کو تو کالعدم قرار دیا جانے والا ہے۔
یہی وہ خدشہ تھا کہ حکومت نے سید منصور علی شاہ کو چیف جسٹس سپریم کورٹ نہ بنانے کا فیصلہ کیا حالانکہ وزیر قانون سمیت دو طاقتور وفاقی وزیر پہلے سید منصور علی شاہ کو سب سےبڑا عدالتی عہدہ دلوانا چاہتے تھے اور تو اور بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کے زعماء بھی ایسا ہی چاہتے تھے مگر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنا پڑی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ جسٹس یحیٰی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کی ایک مشترکہ قانونی فرم تھی جس میں یہ تینوں کاروباری پارٹنرز تھے۔ منصور علی شاہ کے بارے میں فیصلہ بدلا تو جسٹس یحیٰی آفریدی کے نام قرعہ فال نکل آیا۔ جسٹس منصور علی شاہ اور ان کے دیگر ساتھیوں کیلئے یہ فیصلہ انتہائی غیرمتوقع تھا۔ جسٹس منصور جو کبھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اتحادی تھے وہ ججوں کی نئی سیاست میں جسٹس منیب اور جسٹس عائشہ ملک کے ساتھ ایک نئی لابی میں شامل ہوگئے۔ گزشتہ روز جسٹس شمس مرزا نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو خدشہ تھا کہ 27؍ویں ترمیم کے بعد ان کا ٹرانسفر کردیا جائیگا۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی مزیدجج گھروں کو جانے کو ترجیح دیں مگر دراصل یہ سارا کیا دھرا عدلیہ کے فاضل جج حضرات کا اپنا ہی ہے۔ وہ جس طوطے کی جان پر سب کو ڈراتے تھے آخر میں اسی طوطے کے پیچھے پڑگئے ہر جعلی طاقت رکھنے والا اپنے طاقت دینے والے سے ایک دن لڑتا ہے ۔عدلیہ مقتدرہ کے سامنے آئی تو پھر ٹھہر نہ سکی اور اب عدلیہ کے اندر جھٹکے لگ رہے ہیں یہ وہی آفٹر شاکس ہیں جو سیاست دانوں، بیورو کریٹس، صحافیوں اور مقتدرہ کے خلاف کیے گئے فیصلوں سے پیدا ہوئے تھے۔ اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر آپ آئین میں دیئے گئے اپنے کردار سے بڑھ جائیں یا اپنی حدوں سے متجاوز کرجائیں تو ایک نہ ایک دن آپ کا روز حساب آجاتا ہے۔
27؍ویں ترمیم سے جہاں ججوں کے سر پر رکھی عزت کی پگڑی پامال ہوئی ہے وہاں ججوں کے (Robes)یعنی پیرہن بھی تار تار ہوگئے ہیں۔ نہ صرف عدلیہ کمزور ہوئی ججوں کے جانے سے عدلیہ کا نقصان ہوا ہے بلکہ عدلیہ کی ساکھ اور وقار بھی خاک میں مل گیا ہے۔ ججوں کی ذات کو جو نقصان ہوا سو ہوا عدلیہ کی کمزوری کا نقصان تو ہر فرد تک پہنچے گااور معاشرے پر اس کمزوری کے اثرات تادیر رہیں گے۔