قارئین !اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی میں ٹریفک کی بے ترتیبی نے سارا نظام تلپٹ کررکھا ہے جسے کنٹرول کرنا ٹریفک پولیس کے بس کی بات نہیں رہی ۔کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک وائلیشن کی سادہ سی مثال ای چالان کے پہلے دن کے ابتدائی 6گھنٹوں کی سرکاری کارروائی سے سامنے آچکی ہے جس میں 2ہزار 662الیکٹرانک چالان ہوئے جو مجموعی طور پر سوا کروڑ روپے سے زائد کی رقم کے تھے۔حکومت اور اس کے ذیلی اداروں کا شہریوں کو قوانین کا پابند بنانا ایک اچھی بات ہے جس کی پذیرائی کی جانی چاہئے لیکن یہ پذیرائی اس صورت ممکن ہے جب شہریوں کو برابری کی سطح پر حقوق حاصل ہوں، سندھ حکومت اور اس کے محکمہ پولیس نے الیکٹرانک ٹریفک چالان کے ضمن میں کراچی کے شہریوں کے ساتھ جو امتیاز برتا ہے اس کی اندرون ملک سے بیرون ملک تک ہر سطح پر مخالفت نہیں بلکہ مذمت کی جارہی ہے اور تقریبا سب ہی اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ جس شہر کا کوئی انفرا سٹرکچر ہی نہ ہو وہاں قوانین کے نام پر مہنگے ترین چالان کا اجرا کیا جانا شہریوں پر ظلم کے مترادف ہے ۔اس حوالے سے مبصرین کراچی اور لاہور میں ٹریفک چالان کے جرمانے میں حیران کن فرق کا بطور خاص ذکر کر رہے ہیں ۔ کراچی اور لاہور کے جرمانوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو واضح فرق سامنے آتا ہے، کراچی میں ڈرائیونگ لائسنس نہ رکھنے پر پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے جبکہ لاہور میں یہی جرمانہ صرف 200 روپے ہے، اسی طرح، ہیلمٹ نہ پہننے پر کراچی میں 5 ہزار روپے جبکہ لاہور میں 2 ہزار روپے وصول کئے جارہے ہیں، سگنل توڑنے کی صورت میں کراچی میں جرمانہ 5 ہزار روپے اور لاہور میں صرف 300 روپے ہے، اوور اسپیڈنگ پر کراچی میں 5 ہزار روپے جبکہ لاہور میں صرف 200 روپے کا چالان ہو رہا ہے، اس حوالے سے سب سے بڑا فرق ون وے کی خلاف ورزی میں دیکھا گیا ہے کراچی میں اس پر 25 ہزار روپے جرمانہ رکھا گیا ہے جبکہ لاہور میں 2 ہزار روپے کا چالان مقرر ہے۔ کراچی میں جرمانوں کی مذکورہ بالا بھاری شرح نہ صرف عوام کیلئے پریشانی کا باعث ہے بلکہ مختلف شہروں میں قوانین کے غیر مساوی اطلاق نے حکومت اور اس کے اداروں کی کارکردگی پر سوالات بھی اٹھا دئیے ہیں اس حوالے سے لوگوں کے تحفظات ہرگز غلط نہیں، صرف کراچی کی چیدہ سڑکوں پر کیمرے لگا کر پورے شہر کو تذبذب، پریشانی اور ہیجان میں مبتلا کرنا انہیں خوفزدہ کرنے کے مترادف ہے، ٹریفک لائسنس برانچز میں شہریوں سے اہل کار اور عملے کا نارواسلوک جاری و ساری ہے، ڈی آئی جی ٹریفک اس بات کی صداقت پر اعتبار نہ کریں تو بھیس بدل کر ان برانچز کا دورہ کریں یا وہاں اسٹنگ آپریشن کریں،محکمہ ایکسائز کا عالم یہ ہے کہ لگ بھگ 5 ماہ ہو گئے ہیں عوام سے پیسے لینے کے باوجود اس نے لوگوں کوگاڑیوں کی نئی نمبر پلیٹس جاری نہیں کیں اور مزید 2 ماہ تاخیر کی نوید دیدی ہے۔سندھ حکومت اور سندھ پولیس نے ٹریفک کیلئے جس جدید نظام کا سہارا لیا ہے وہ فرسٹ ورلڈ کی نوعیت کا ہے اس ضمن میں عوامی رد عمل یہ ہے کہ کیا حکومت عوام کو ان ممالک جیسی سڑکیں اور دیگر ٹریفک سہولیات بھی فراہم کرے گی؟ کیا جدید کیمرے لگنے کے بعد حکومت اور پولیس سڑکوں پر قبضہ کر کے کاروبار کرنے والی مافیا کا صفایا کرے گی؟ اس سسٹم کا اطلاق صرف کراچی کے شہریوں پر ہی کیوں کیا گیا؟ جب کہ قانون سازی پورے صوبے کیلئے کی گئی ہے اگر قانون ہے تو پورے صوبے کیلئے یکساں طور پر نافذ ہونا چاہئے ۔
سندھ ہائیکورٹ میں ای چالان کے خلاف بس اونرز ایسوی ایشن کی جانب سے درخواست دائر کر دی گئی ہے، بس اونرز ایسوسی ایشن نے ٹریفک جرمانوں کی شرح کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے عدالت سے ریلیف مانگ لیا۔ درخواست گزار کے وکیل منصف جان ایڈوکیٹ نے موقف اپنایا کہ ایک لاکھ روپے تک کا ای چالان کسی بھی ٹرانسپورٹر کیلئے ناقابلِ برداشت ہے اور اس سے شہریوں کو سفری سہولتیں فراہم کرنے والا نظام شدید متاثر ہوگا۔ امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے بھی کہا ہے کہ ای چالان سسٹم کے نام پر عوام کو لوٹا جا رہا ہے۔کراچی کی سڑکیں کچے علاقوں سے بھی بدتر ہیں لیکن جرمانے عالمی معیار کے مقرر کئے جا رہے ہیں۔ پنجاب میں یہی جرمانے 10 گنا کم ہیں جبکہ سندھ حکومت عوام کو شعور دینے کے بجائے صرف جرمانوں سے خزانہ بھرنے میں لگی ہے۔ رواں سال کراچی میں 700 شہری ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہو چکے ہیں اور 10 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ بھاری گاڑیوں کی وجہ سے 205 اموات ہوئیں۔ ٹینکر، ٹرالر اور ڈمپر عوام کیلئے موت کا پروانہ بن چکے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر جاری ای چالان کے خلاف درخواست پر متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 25 نومبر تک جواب طلب کر لیا ہے۔ درخواست گزار سید جو ہر رضوی کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا کہ کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر عائد کئے گئے جرمانے غیر منصفانہ طور پر بہت زیادہ ہیں۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ملک کے دیگر حصوں خصوصاً لاہور میں جن خلاف ورزیوں پر جرمانہ 200 روپے عائد ہوتا ہے، کراچی میں اُسی خلاف ورزی پر جرمانہ 5 ہزار روپے وصول کیا جا رہا ہے۔ درخواست گزار کے مطابق حکومت سندھ نے جولائی 2025 سے کم از کم تنخواہ 40 ہزار روپے مقرر کی ہے، جس میں پہلے ہی گروسری، یوٹیلیٹی بلز، بچوں کی تعلیم سمیت دیگر ضروریات پوری کرنا مشکل ہے، ایسے میں بھاری جرمانے شہریوں پر مزید بوجھ ہیں۔