اپوزیشن آئین میں 26ویں ترمیم ہضم نہ کر پائی تھی کہ27ویں ترمیم آگئی ۔27ویں ترمیم کا نزول خلاف توقع نہ تھا جن حالات میں آئین میں 26ویں ترمیم منظور کی گئی تھی اس وقت ہی کہا جارہا تھا جن باتوں کی 26ویں ترمیم میں منظوری حاصل نہیں کی جاسکی وہ جلد 27ویں ترمیم میں حاصل کر لی جائے گی لہذا جو کسر 26ویں ترمیم میں رہ گئی تھی اسے 27ویں ترمیم میںنکال لیا گیا۔ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت حکومت کی طرف سے برملا کہا جاتا رہا کہ فی الحال 27ویں ترمیم نہیں آرہی لیکن وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم تارڑ اچانک اپنی’’ زنبیل ‘‘سے آئینی ترمیم نکال کر لے آئے اور اپوزیشن کو سرپرائز دیا۔ آئین میں 26ویں راتوں رات 21اکتوبر 2024ء کو جس طرح منظور کی گئی لوگوں کو ابھی تک یاد ہے سینیٹ سے 27ویں کی منظوری کے لئے وہی طریقہ کار استعمال کیا گیا جو26ویں ترمیم کی منظوری کے لئے استعمال کیا گیاجمعیت علما اسلام کی جانب سے مشروط حمایت کی وجہ سے حکومت آئینی عدالت نہ بنا سکی تھی اور آئینی بنچ بنانے پر اکتفا کر لیا تھا ۔ اب ساری کسر 27ویں ترمیم میں نکال لی گئی ہے لیکن ترمیم بھی عجلت میں منظور کی گئی ہے۔ ’’جھٹ منگنی پٹ بیاہ ‘‘ کی صورت حال تھی جس طرح سینیٹ سے ترمیم منظور کرائی گئی اس بارے پارلیمانی حلقوں میں کئی’’ کہانیاں ‘‘ گردش کر رہی ہیں حکومت کو آئینی ترمیم کی منظوری میں اس حد تک جلدی تھی کہ نجی ہسپتال میں موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا سینیٹر عرفان صدیقی کی زیست بارے مختلف افواہیں گشت کر رہی تھیں اس کے باوجود سینیٹ کا اجلاس جاری رکھا گیا حکومت نے پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو اور جمعیت علما اسلام کے احمد خان کے ووٹوں سے سینیٹر عرفان صدیقی کی کمی پوری کی چونکہ 27ویں ترمیم کی تیاری پر پورا ہوم ورک مکمل نہیں ہوا تھا اس میں قوی اسمبلی میں مزید ترامیم کرنا پڑیں 4شقیں خارج کر کے 4شقوں کا اضافہ کر دیا گیا جن کی منظوری کے لئے حکومت کو دوبارہ سینیٹ سے رجوع کرنا پڑا ۔حکومت نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں جمعیت علما اسلام کی مدد حاصل کی تھی لیکن اب کی بار جمعیت علما اسلام نے اپنا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں ڈال دیا اور خود مولانا فضل الرحمن بنگلہ دیش چلے گئے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جمعیت علما اسلام نے آئینی ترمیم کی مخالفت میں ووٹ ڈالے ۔جب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قوم کو آئین میں 27ویں ترمیم لانے کی نوید سنائی تو پورے ملک میں آئین میں 18ویں ترمیم میں صوبوں کو دئیے جانے والے ثمرات ختم کرنے اور این ایف سی ایوارڈ کی تنظیم نو کا بڑا شور شرابہ ہوا لیکن جب یہ ترمیم آئی تو اس میں 18ویں ترمیم کو چھیڑا گیا اور نہ ہی این ایف سی کے تحت صوبوں کو دئیے جانے والے حصے میں ردو بدل کیا گیا البتہ عدلیہ اور فوج بارے اہم تبدیلیاں کی گئیں اگر نرم الفاظ میں 27ویں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ عدلیہ پر مقننہ و انتظامیہ حاوی ہو گئی ہے اب عدلیہ کسی وزیر اعظم کو از خود نوٹس کے ذریعے گھر نہیں بھجوا سکے گی ۔ حکومت کے پاس دونوں ایوانوں کی گنتی پوری تھی لہذا حکومت نے مولانا فضل الرحمن کے دربار پر حاضری دینے کی بجائے مولانا فضل الرحمن کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اس آئینی ترمیم کے بعد جمعیت علما اسلام مکمل طور پر پی ٹی آئی اسپانسرڈ اپوزیشن کیمپ میں چلی گئی ہے البتہ وہ ابھی تک تحریک تحفظ آئین کا حصہ نہیں بنی۔
27ویں ترمیم میں آئینی عدالت کے قیام ، ججوں کی تقرری اور ان کے تبادلوں کے اختیارات فیڈرل جوڈیشل کمیشن کو ملنے سےانتظامیہ عدلیہ پر حاوی ہو گئی ہے۔ صدر مملکت کو تاحیات صدارتی استثنیٰ پر سیاسی حلقوں میں بڑی لے دے ہو رہی ہے جہاں تک آئینی عدالت کے قیام کا تعلق ہے یہ میثاق جمہوریت کے مطابق ہے 2006میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے لندن میں میثاق جمہورت پر دستخط کئے تھے جس کی کم و بیش تمام جماعتوں نے توثیق کی تھی آج 19سال بعد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کا آئینی عدالت کے قیام کا خواب پورا ہو گیا ہے۔ جسٹس امین الدین خان کو فوری طور آئینی عدالت کا چیف جسٹس بنا دیا گیا ہے اور جبکہ آئینی عدالت کے سات ججوں کی بھی تقرری عمل میں آگئی ہے ۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں اپوزیشن نے آئینی ترمیم کیخلاف نعرے بازی کی لیکن ووٹنگ میں حصہ نہیں لیاجس سے حکومت کو دونوں ایوانوں میں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کرانےمیں آسانی ہو گئی۔ عوامی نیشنل پارٹی نے موقع غنیمت جان کر خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کرانے اور بلوچستان عوامی پارٹی نے بلوچستان اسمبلی کی نشستوںمیں اضافہ کرانے کی کوشش کی لیکن ان سب کو اگلی ترمیم میں شامل کرنے کا لولی پاپ دے کر 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لئے ووٹ حاصل کر لئے گئے ۔ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان کی سینیارٹی برقرار رہے گی ۔ آئین کے ابتدائی مسودے میں این ایف سی ، آبادی اور نصاب کے امور بھی شامل تھے جو بوجوہ ڈراپ کر دئیے گئے۔ وفاقی آئینی عدالت کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں چاروں صوبوں کو یکساں نمائندگی حاصل ہو گی ۔ آئینی ترمیم میں سو موٹو پاور کے استعمال کو بھی آئینی عدالت کی منظوری سے مشروط کر دیا گیا ہے ججوں کے تبادلے کا طریقہ یکسر تبدیل کر نے کے بعد سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں منصور علی شاہ اور اظہر من اللہ نے استعفیٰ دے دیا جب کہ مسرت ہلالی نے خرابی صحت کے باعث آئینی عدالت کا جج بننے سے معذرت کرلی۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے27ویں ترمیم کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے جب حکومت کو عجلت میں تیار کی گئی27ویں میں اغلاط کا احسا س ہوا تو قومی اسمبلی میں 27ویں ترمیم میں 8شقوں پر مشتمل ترامیم پیش کر دیں اس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت نے آئینی ترمیم بارے میں ہوم ورک مکمل نہیں کر رکھا تھا۔جس کے باعث اسے بار بار ترمیم کرنے کی شرمندگی اٹھانا پڑی ۔آئین میں ترمیم کے بعد اب آرمی چیف کے عہدے کو چیف آف ڈیفنس فورسز کا نام دیا گیاہے ان کو جہاں فیلڈ مارشل کا اعزاز دینے کے اقدام کو آئینی تحفظ حاصل ہو گیا ہے لیکن سب سے بڑا سر پرائز فیلڈ مارشل عاصم منیر کی 5سالوں کے لئے نئی تقرری ہے اب وہ2030 ء تک ڈیفنس سروسز چیف کی حیثیت سے فوج کے سربراہ رہیں گے۔ اسی طرح فوج سے متعلق دیگر شقوں میں کی جانے والی ترامیم میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 6کی شق 2 میں وفاقی آئینی عدالت اور آئین کے آرٹیکل 10میں لفظ سپریم کورٹ کا اضافہ کیا گیا ہے آئین کے آرٹیکل 176میں ترمیم کے تحت موجودہ چیف جسٹس کو اپنی ٹرم پوری ہونے تک چیف جسٹس ہی کہا جائے گا جب کہ آئین کے آرٹیکل 255کی شق 2میں ترمیم موجودہ چیف جسٹس کی ٹرم پوری ہونے کے بعد نئے چیف جسٹس کی تقرری سے متعلق ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کی مدت تین سال ہو گی۔ آئینی عدالت کے فیصلے ملک کی تمام عدالتوں پر لازم ہوں گے ۔ آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد فیلڈ مارشل اور دیگر اعلیٰ فوجی عہدوں کو تا حیات آئینی تحفظ اور تاحیات استثنیٰ مل گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 42،63اے ، 175تا 191میں ترامیم کے بعد عدلیہ کا ڈھانچہ یکسر تبدیل ہو گیا ۔افتخار چوہدری اور ثاقب نثار نے از خود نوٹس کا جتنا بے رحمانہ استعمال کیا شاید ہی سپریم کورٹ میں اس کی نظیر ملتی ہو۔ آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے اختیارات میں نمایاں کمی ہو گئی ہے۔