وانا کیڈٹ کالج پر حملہ،اسلام آباد کچہری، اور پاکستان کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کی حالیہ وارداتیں ایک بار پھر یہ سوال اٹھاتی ہیں کہ آخر ہزاروں جانوں کی قربانی کے باوجود یہ آگ بجھنے کا نام کیوں نہیں لے رہی، راکھ میں دبی چنگاریوں کو کون ہوا دے رہا ہے۔ کیا یہ سب کچھ بیرونی سازشوں کا شاخسانہ ہے، یا یہ ہمارے ماضی کی غلطیوں کی قسط وار سزا ہے جو ہم آج بھگت رہے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ بھائی چارے اور برادرانہ تعلقات کی بات کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بھائی چارے کے جواب میں ہمیں اکثر دشمنی، بداعتمادی الزام تراشی ،دشنام طرازی ملی۔ بھارت کے شہربہار میں انتخابی مہم کے دوران بھی پاکستان مخالف بیانیہ استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ بھارتی عوام کی توجہ اندرونی مسائل سے ہٹائی جا سکے۔ ایسے میں بھارت کے اتحادیوں کی فہرست میں افغانستان کا کردار بڑھتا جا رہا ہے، جو پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ افغان حکومت بھارت کے دباؤ میں آ کر ایسے اقدامات کر رہی ہے جو نہ صرف خطے کے امن کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ چار دہائیوں پر محیط قربانیوں کو بھی پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دی، ان کے بچوں کو تعلیم دی، روزگار دیا، لیکن آج یہی سرزمین ہمیں دشمن سمجھنے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ المیہ ہے کہ جس ملک نے انسانیت کی بنیاد پر ہاتھ بڑھایا، اس کے ہاتھوں میں بارود تھما دیا گیا۔ پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے دہشت گردی کے خلاف بے مثال جنگ لڑی۔ آپریشن ضربِ عضب سے لے کر ردالفساد تک ہزاروں جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تاکہ یہ سرزمین محفوظ ہو، مگر دشمن کی چالیں ختم نہیں ہو رہیں۔ افغانستان کی سرزمین آج بھی پاکستان مخالف تنظیموں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ پاکستان بارہا اقوامِ متحدہ اور عالمی طاقتوں کو اس حقیقت سے آگاہ کر چکا ہے کہ افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی خطے کے امن کو تباہ کر رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب افغانستان خود معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، تو وہ بھارت جیسے ملک کے ہاتھوں کٹھ پتلی کیوں بن رہا ہے؟ اس کا سیدھا جواب یہی ہے کہ ہماری ماضی کی پالیسیوں نے ہمیں کمزور پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے۔ ہم نے ہمیشہ وقتی مفاد کے لیے فیصلے کیے، وقتی فائدے کے لیے دوست بنائے اور وقتی دباؤ میں آ کر دشمنیاں مول لیں۔ افغان پالیسی میں تسلسل کبھی رہا ہی نہیں۔ ایک وقت میں ہم نے افغانستان میں اپنی پسند کی حکومت کے لیے کوششیں کیں، دوسرے وقت میں انہی قوتوں کو دشمن قرار دیا۔ یہی تضاد آج ہمارے سامنے ایک بحران بن کر کھڑا ہے۔ بھارت نے بڑی چالاکی سے افغانستان میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ تعلیمی وظائف سے لے کر تعمیراتی منصوبوں تک، بھارتی اثر و رسوخ نے وہاں کے نوجوانوں کے ذہنوں میں پاکستان کے خلاف زہر گھولا۔ میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز پر نفرت کا بیانیہ پھیلایا گیا، اور افسوس کہ ہم نے اس پروپیگنڈے کا تریاق کرنے میں ہمیشہ تاخیر کی۔ ہماری خارجہ پالیسی ردِعمل کی بنیاد پر چلتی رہی، پیشگی منصوبہ بندی کبھی نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج افغانستان بھارت کے دباؤ میں پاکستان کے خلاف بیانات دیتا ہے، بارڈر پر چھیڑ چھاڑ کرتا ہے، اور عالمی فورمز پر پاکستان پر الزام لگاتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر دباؤ کا ایک وقت ہوتا ہے، اور ہر جھوٹ کی ایک حد۔ افغانستان کے عوام بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان نے ان کے لیے کیا کچھ قربانیاں دیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں میں سنجیدگی سے اصلاح کریں۔ دشمن کی چالوں کا جواب جذبات سے نہیں بلکہ حکمتِ عملی سے دینا ہوگا۔ ہمیں اپنی سرحدی پالیسی مضبوط بنانی ہوگی، انٹیلی جنس نیٹ ورک کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا، اور سب سے بڑھ کر اپنے اندرونی اختلافات ختم کرنے ہوں گے۔ جب تک ہم اندر سے متحد نہیں ہوں گے، بیرونی دشمن ہمیں کمزور کرتا رہے گا۔ دہشت گردی صرف گولیوں اور بموں سے نہیں ہوتی، یہ نظریات کی جنگ بھی ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ ہم اپنے اداروں پر اعتماد کھو بیٹھیں، اپنے رہنماؤں سے بدظن ہو جائیں، اور اپنی کامیابیوں کو فراموش کر دیں۔ یہ وہ محاذ ہے جہاں ہمیں سب سے زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات کو ازسرِنو پرکھنے کا وقت آ گیا ہے۔ ہمیں واضح الفاظ میں بتانا ہوگا کہ بھائی چارہ یکطرفہ نہیں ہو سکتا۔ اگر دوستی چاہیے تو اخلاص کی بنیاد پر، اگر دشمنی ہے تو پھر اس کا جواب بھی اپنی سرزمین کے وقار کے مطابق دیا جائے گا۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، امن چاہتا ہے مگر کمزوری نہیں۔ افغانستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بھارت کے لالچ میں آ کر وہ نہ صرف اپنے ہمسائے سے تعلقات بگاڑ رہا ہے بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو ایک غیر مستحکم مستقبل دے رہا ہے۔ دوسری طرف ہمارے پالیسی سازوں کو بھی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا۔ اب وقتی سیاست کے لیے قومی سلامتی کو داؤ پر لگانے کا وقت گزر چکا ہے۔ ہمیں خارجہ پالیسی کو قومی مفاد کے مطابق، مستقل مزاجی کے ساتھ چلانا ہوگا۔ پاکستان کے عوام نے بہت خون دیا ہے، اب انہیں امن چاہیے۔ وانا کیڈٹ کالج، اسلام آباد کچہری کے شہداء، اور ان گنت بے گناہ لوگ ہم سے سوال کر رہے ہیں کہ ان کی قربانیوں کا صلہ کب ملے گا۔ یہ سوال ہمارے حکمرانوں، اور عوام سب کے لیے ہے۔ دشمن باہر کا ہو یا اندر کا، اسے شکست صرف تب ہوگی جب ہم ایک قوم بن کر سوچیں گے۔ افغانستان کو بھی ایک دن احساس ہوگا کہ پاکستان سے دشمنی اس کے اپنے مفاد کے خلاف ہے، لیکن اس احساس کے آنے تک ہمیں اپنے قدم مضبوط رکھنے ہوں گے۔ کیونکہ اب وقت جذبات کا نہیں، عمل کا ہے۔