• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ جنگل کے ایک بے نام خرگوش کی کہانی ہے ۔اسے نہ ببر شیروں کے عروج و زوال سے غرض ہے اور نہ شیروں اور چیتوں کی مقبولیت یا عدم مقبولیت سے، اس بیچارے کو صرف اتنی غرض ہے کہ کوئی اس کی قلانچیں نہ روکے،اس کا رزق چلتا رہے اور کوئی ببر شیر اس کی آزادی نہ چھین لے یا شیر اور چیتے کی لڑائی اس کے زمین میں کھدے ہوئے بل تک نہ پہنچ پائے ۔

خرگوشوں کی قوت شامہ یا سونگھنے کی صلاحیت غیر معمولی طور پر تیز ہوتی ہے انسانوں کے اندر قوت شامہ کے پانچ ملین حسیاتی خلیے ہوتے ہیں جبکہ خرگوشوں میں 100 ملین کے قریب حسیاتی خلیے ہوتے ہیں گویا خرگوش کے سونگھنے کی صلاحیت انسان سے 20 گنا زیادہ ہے۔ خرگوش کا ناک ایک منٹ میں 20 سے 150 دفعہ پھڑ پھڑاتا ہے تاکہ وہ فضا کو سونگھ کر خطرات یا اپنے چارے دونوں کی علامات جان سکے۔

خرگوش کو دور دراز سے آنے والے خطرات اور اچھے حالات کی خبر سب سے پہلے مل جاتی ہے۔

جنگل کے خرگوش کے نتھنے آج کل کچھ زیادہ ہی پھڑ پھڑا رہے ہیں اسے آنے والی تبدیلیوں کے سگنل ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ تو فی الحال طے ہے کہ ببر شیر ہی جنگل کو چلائیں گے مگر وہ جنگل کے پرانے اور بوسیدہ نظام سے اپ سیٹ ہیں اور سمجھتے ہیں جنگل کی خوشحالی اور ترقی میں یہ بوسیدہ نظام ہی حائل ہے۔ شیروں اور چیتوں کی بار بارباریوں کے پیچھے جمہوریت کا گھن چکر ہے۔ جنگل میں خرگوش کو یہ الرٹ مل رہے ہیں کہ کوئی اعلان کیے یاکوئی ڈھول بجائے بغیر نظام تبدیل ہو رہا ہے۔ چین کی ترقی اور سعودی عرب کی حیرت ناک تیزی سے تبدیلیاں نئے نظام کا ماڈل بن رہی ہیں۔ ترقی میں جمہوریت رکاوٹ بنےتواس رکاوٹ کو دور کیا جائے گامگر اسی نظام کے اندرسے۔اگر عدلیہ رکاوٹ بن رہی ہے تو عدلیہ کو ختم کیے بغیر اس کے اندر اصلاحات کی جائیں گی اور اگر سیاسی جماعتیں اور پارلیمان رکاوٹ کا ذریعہ ہیں تو اس میں بھی مداخلت کر کے اصلاح کی جائے گی ۔آزادی اظہار اور انسانی حقوق کا ایجنڈا اگر ملکی ترقی اور خوشحالی کے راستے میں رکاوٹ ہوگا تو اس رکاوٹ کو بھی اعلان کیے بغیر ہٹا دیا جائے گا اصل ہدف ترقی اور خوشحالی ہے۔ اگر ہدف کے حصول میں کوئی نظام، جمہوریت ،عدلیہ، پارلیمان، میڈیا یا سیاستدان حائل ہوتے ہیں تو ان کی طاقت و تقدس کی وجہ سے انہیں چھوٹ نہیں دی جائے گی۔ چین سعودی عرب میں نہ عدلیہ بے مہابا آزاد ہے نہ سیاسی جماعتوں کو آزادی ہے کہ وہ ترقی کے راستے میں حائل ہوں اور نہ ہی میڈیا ریاست اور حکومت کے خلاف کوئی خبر دے سکتا ہے۔

خرگوش کے ناک میںمسلسل جو رنگ برنگی شیریں و تلخ ہوائیں چھورہی ہیں وہ بتا رہی ہیں کہ دنیا بھر میں 70 سال پہلے قائم کیا گیا عالمی نظام آخری دموں پر ہے ۔جمہوریت ،آزادی اظہار، عدلیہ کی آزادی اور انسانی حقوق، ان کا 70 سال پہلے تصور تک نہ تھا دوسری عالمی جنگ کے بعد انہیں جان بوجھ کر فروغ دیا گیا تاکہ دنیا کی بڑی طاقتیں ان نعروں کی بنیاد پر چھوٹے ملکوں پر اپنا اثر قائم رکھ سکیں۔ خرگوش نے ایک تازہ ہوا سے یہ بھی محسوس کیا کہ ملک میں مضبوط دفاع اور عوامی خوشحالی ہی دو اہم ترین نکات ہیں باقی سب تو جعلی میک اپ اور اس کے اندر جھوٹا روپ۔

خرگوش کو حسین ماضی کی یادیں بہت تنگ کرتی ہیں وہ جنگل میں قلانچیں بھرتا کبھی ادھر اور کبھی ادھر جاتا تھا، ماضی قریب میں شیر اور چیتے آپس میں مصروف پیکار تھے مگر خرگوش آواز نکالنے ،تنازعے کی شکل میں عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانے اور اپنی شکایت کو منتخب اداروں تک لے جانے میں آزاد تھا۔ اب خرگوش کو اندازہ ہو گیا ہے کہ یہ سب عیاشیاں ختم ہونے والی ہیں۔یہ جنگل ایک منظم شکل اختیار کرنے لگا ہے اب جنگل کی انتظامیہ اپنی رٹ پوری طاقت سے نافذ کرے گی کیا شیر اور کیاچیتے ،کیا گیدڑ اور کیا خرگوش سب جنگل کے ڈسپلن کے تابع ہوں گے ۔کوئی گندی سیاست نہیں ہوگی بلکہ سرے سے ایسی کوئی سیاست ہی نہیں ہوگی ۔آخر کیا ضرورت ہے کہ گدھے اور گھوڑوں کا کھیل دیکھا جائے ۔آزادی اظہار کا جس طرح غیر ذمہ دارانہ استعمال کیا جاتا ہے جنگل کی ریاست میں اس کی سرے سے اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جنگل سے باہر جا کر جو مرضی جھک مارے جنگل کی انتظامیہ کے پاس اس کو کنٹرول کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں مگر جنگل کی حدود میں نہ جھک اور نہ سچ دونوں مارنے اور بولنے پر سخت پابندی ہوگی ۔یہ پابندی خرگوش کو جائز بھی لگتی ہے کہ اگر دفاع کو مضبوط کرنا ہے اور عوامی خوشحالی کو یقینی بنانا ہے تو جنگل کو چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے اس پالیسی کو بہ زور بازو نافذ کرنا پڑے گا۔

عباسی دور خلافت میں کلیلہ اور دمنہ کی کہانی کا فارسی میں ترجمہ ہوا، کلیلہ اور دمنہ دراصل ریاست کاری کے اصولوں پر مبنی علامتی کہانی ہے جس میں خرگوش عقل کی علامت ہے اس کہانی میں جنگل کا ببر شیر ریاست کا بادشاہ ہے وہ بہادر ہے اور اچھے کام کرنا چاہتا ہے مگر اس کے مشیر اپنے مفاد کے لیے اس کو گمراہ کرتے ہیںمگر کمزور خرگوش اپنی عقل سے ببر شیر کو صحیح راہ پر لگاتا ہے مگر یاد رکھنا چاہیے کہ کہانیاں تو کہانیاں ہوتی ہیں اور حقیقت کچھ اور۔ ببر شیر گھاس کھانے والے ،پھدکنے والے اور پھڑپھڑانے والے خرگوش کے مشورے کہاں سنتا ہے۔ طاقت اور اقتدار میں اختلافی آوازیں سننا بند ہو جاتی ہیں۔ خوشامدی لومڑ اور گیدڑ ایسا گھیرا ڈالتے ہیں کہ ببر شیر خود کو سب سے برتر اور اعلیٰ سمجھنا شروع ہو جاتا ہے خود کو عقلمند اور بالاتر سمجھنے والے ہی دراصل سب سے بڑے بے وقوف ثابت ہوتے ہیں۔ تاریخ میں خود کو بڑےبڑے سیاست خان اور بہادر خان سمجھنے والوں کو گرتے ہوئے دیکھا اور پڑھا ہے۔ جہاں سے مخالف آوازیں غائب کر دی جائیں وہاں مخالفت ظاہری نہیں خفیہ ہوتی ہے بظاہر امن ہوتا ہے مگر اندر ہی اندر لاوا پکتا رہتا ہے اور کسی بھی دن آتش فشاں کا لاوا پھٹتا ہے اور پورا جنگل تہ خاک ہو جاتا ہے۔

دیسی جنگل کے خرگوش کو عالمی خرگوش کانفرنس یاد آئی جس میں دنیا بھر کے جنگلوں کے خرگوش مدعو تھے۔ کیا امریکی اور کیا چینی، کیا سعودی اور کیا جاپانی، سب عقلمند جمع تھے ۔کنفیوشس اور سن زو کے دیس چین سے آئے بوڑھے خرگوش نے بتایا تھا کہ چین میں ترقی اور خوشحالی بہت زور و شور سے ہے مگر خرگوشوں کے قلانچیں بھرنے اور آبادی بڑھانے پرسخت پابندی ہے۔ اس پر خرگوشوں میں سراسیمگی پھیل گئی اور انہیں یہ ڈر پیداہوگیا کہ بڑےجانور انہیں بل سے باہر نکلتے ہی کھا جائیں گے ۔سعودی عرب کے صحرا سے آئے ایک دانش مند خرگوش نے کہا کہ جس نے ایک دفعہ سورج دیکھ لیا اسے تا دیر اندھیرے میں قید نہیں رکھا جا سکتا اورجس نے جمہوریت اور آزادی کا مزہ چکھ لیا ہے اس سے یہ مزہ تا دیر چھینا نہیں جا سکتا۔ یہ مزےاوریہ نشے ایسے ہیں کہ انکی لت زندگی بھر بلکہ برسوں نہیں جاتی۔ خرگوش کانفرنس بے نتیجہ ختم ہوئی مگر خرگوش یہ گانا گنگناتے ہوئے کانفرنس سے باہر نکل آیا ’ مجھے تو تیری لت لگ گئی…

تازہ ترین