پانی تمدن کی پہلی لکیر ہے اور جہاں یہ بہتا ہے وہاں زندگی اپنی داستاں رقم کرتی ہے۔ دریاؤں کے کنارے بستیاں بنتی ہیں اور نہریں وہ شریانیں ہیں جن سے زمین کو سانس ملتا ہے۔ برصغیر کی تاریخ دراصل پانی اور زمین کے رشتے کی تاریخ ہے وہ رشتہ جو کبھی راوی کے کنارے بننے والی سبز وادیوں میں دکھائی دیتا ہے، کبھی ستلج کے کنارے جھونپڑیوں میں اور کبھی چناب کے کنارے طلوع ہوتی سنہری فصلوں میں۔ اسی رشتے کو دوام دینے کیلئے پنجاب کے سینے میں وہ آبی شاہکار تراشے گئے جو آج پاکستان کی زرعی معیشت کے ستون ہیں۔انیسویں صدی کے اواخر سے بیسویں صدی کے آغاز تک برطانوی عہد میں نہری انقلاب برپا ہوا۔ 1886ء سے 1940ء تک پنجاب کے میدانوں میں نو بڑی نہریں وجود میں آئیں ۔اپر چناب نہر (1892ء)، لوئر چناب نہر (1902ء)، لوئر جہلم نہر (1901ء)، اپر جہلم نہر (1915ء)، لوئر باری دوآب نہر (1914ء)، ڈیگ نہر، سکھر بیراج کا نظام (1932ء)، ہاون، ڈیرہ غازی خان اور مظفرگڑھ نہریں۔ یہ سب محض پانی کی راہیں نہیں تھیں بلکہ تمدن کی بنیادیں تھیں۔ ان نہروں کے ذریعے بنجر زمینوں میں نئی آبادیاں بسائی گئیں جنہیں کالونیاں کہا گیا: چنیوٹ، سرگودھا، لائلپور (فیصل آباد) اور خوشاب انہی منصوبوں کے ثمر ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کسان پہلی بار بیل کے ساتھ زمین نہیں خواب جوتتا تھا اور انگریز انجینئر جو کمپاس اور تھیوڈولائٹ سے زمین ناپتے تھے دراصل ایک نئے تمدن کے نقشے بنا رہے تھے۔جب پاکستان بنا تو یہ تمام نہریں اس کے وجود کی ریڑھ کی ہڈی بن چکی تھیں۔ 1947ء کے بعد انہی نہروں سے جڑے دریاؤں پر تنازع نے پاکستان کو اپنی آبی خودمختاری کیلئے نئی جنگ لڑنے پر مجبور کیا۔ یوں ہماری زمین نے ایک بار پھر اپنی قسمت پانی سے جوڑی، اس بار سندھ طاس معاہدے (1960ء) اور اس کے نتیجے میں بننے والی آٹھ الحاقی نہروں کے ذریعے جنہوں نے ملک کو خشک ہونے سے بچایا۔ رسول قادرآباد، قادرآباد بلوکی، بلوکی سلیمانکی، چشمہ جہلم، طاونہ پنجند، ٹنڈو محمد خان، پنیاری اور رتودیرو ۔ یہ نہریں صرف آبپاشی کے منصوبے نہیں بلکہ بقاکے عہدنامے ہیں۔ یہی وہ تاریخی پس منظر ہے جس سے آج کا پاکستان اپنی زراعت اپنی روٹی اور اپنی بقا کا قرض ادا کر رہا ہے۔
انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں جب انگریز پنجاب کے میدانوں تک پہنچے تو یہ خطہ اپنے پانچ دریاؤں جہلم، چناب، راوی، ستلج اور بیاس کے باوجود خشک اور بنجر تھا۔ زمین میں استعداد تھی مگر نظم نہیں تھا۔ بارش کی کمی، آبپاشی کا فقدان اور غیر آباد رقبہ اس خطے کو پیاسا رکھتا تھا۔ تب 1886ء سے 1940ء کے درمیان ایک عظیم منصوبہ شروع ہوا۔ گورنر چارلس ایچی سن کے زیرِ نگرانی پنجاب کے سینے میں 33 ہزار 612 کلومیٹر طویل نہری نظام کی رگیں پیوست کی گئیں۔ بغیر جدید مشینری، صرف مزدوروں کے بازوؤں اور بیلچوں کے سہارے ایک ایسا آبی جال بچھایا گیا جو آج بھی دنیا کے سب سے بڑے مربوط آبپاشی نظام کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ نظام ایک انجینئرنگ کارنامہ نہیں تھا ایک تمدنی احسان تھا۔ پنجاب کے بنجر علاقے آباد ہوئے، زراعت تین گنا بڑھی، گندم، کپاس اور گنے کی پیداوار میں انقلاب آیا۔ اس طرح پنجاب جو کل تک ریت اور چراگاہ تھا ایک سنہری کھیتوں کا سمندر بن گیا۔لیکن آزادی کی صبح اپنے ساتھ ایک پیاسا سورج بھی لائی۔ 1947ء میں جب برصغیر تقسیم ہوا تو کئی بڑے ہیڈورکس مثلاً مادھوپور، فیروزپور اور ہری کی بھارت کے حصے میں چلے گئے۔ یکم اپریل 1948ء کو بھارت نے راوی اور ستلج کا پانی روک دیا اور قوم پہلی بار یہ جان پائی کہ آزادی کے بعد بھی پیاس باقی ہے۔یہ بحران سندھ طاس معاہدے تک جاری رہا جو 19 ستمبر 1960ء کو عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا۔ اس معاہدے نے تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کو دیے اور تین مشرقی دریاؤں راوی، بیاس، ستلج بھارت کے حوالے کیے۔ یوں پاکستان نے اپنی بقا کیلئے نئی آبی حکمتِ عملی وضع کی۔مشرقی دریاؤں کے پانی کے نقصان کے ازالے کیلئے پاکستان نے آٹھ عظیم الحاقی نہریں تعمیر کیں۔ یہ نہریں صرف پانی کی راہیں نہیں بلکہ قومی عزم کی علامت تھیں۔ رسول قادرآباد، قادرآباد بلوکی، بلوکی سلیمانکی، چشمہ جہلم، طاونہ پنجند جیسے منصوبوں نے مغربی دریاؤں کا پانی ان علاقوں تک پہنچایا جو پہلے مشرقی دریاؤں پر انحصار کرتے تھے۔ ان نہروں کے ساتھ منگلا اور تربیلا ڈیم بھی تعمیر ہوئے جنہوں نے پاکستانی زراعت کو نئی زندگی عطاکی۔ یہ سب کچھ اُس قوم کی مثال ہے جو مشکل وقت میں پانی کو تقدیر کے بجائے تدبیر سے حاصل کرتی ہے۔مگر افسوس آج پون صدی بعد وہی نظام ہماری غفلت کے بوجھ تلے دم توڑ رہا ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ تربیلا اور منگلا مٹی سے بھر چکے ہیں۔ نہروں کے کچے کنارے ساٹھ فیصد پانی ضائع کر دیتے ہیں۔ کسان اب بھی صدی پرانے طریقوں سے زمین سیراب کرتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی، آبادی میں اضافہ اور صوبائی سیاست نے آبی سلامتی کو بحران میں بدل دیا ہے۔ پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہو چکا ہے جہاں فی کس پانی کی دستیابی خطرناک حد تک کم ہے۔پانی اب صرف دریا کا تحفہ نہیںقومی بقا کا سوال ہے۔ ہمیں اپنے رویوں میں انقلاب لانا ہوگا۔ زمین کو جدید بنانا ہوگا، ڈرپ ایریگیشن، اسپرنکلر سسٹم اور رین واٹر ہارویسٹنگ اپنانی ہوگی۔ پانی کے ضیاع کو قومی جرم سمجھنا ہوگا۔ اگر ہم نے پانی کی قدر نہ کی تو آنے والی نسلیں صرف تاریخ کی کتابوں میں نہریں دیکھیں گی، زمین پر نہیں۔
پنجاب کا نہری نظام صرف ماضی کی یاد نہیں، یہ ہمارے حال اور مستقبل کی ضمانت ہے۔ یہ توایک واضح حقیقت ہےکہ انگریزسرکار نے ایک بہترین نہری نظام وضع کیا اورزمین کو آباد کیا، ہم پر فرض ہے کہ ہم اس نظام کو محفوظ اور مستحکم کریں کیونکہ اگر پانی رک گیا تو تاریخ بھی رک جائے گی۔