آج کل پاک افغان تعلقات بالخصوص افواج پاکستان کی طرف سے افغانستان میں دہشت گردوں کو نشانہ بنائے جانے پر بھانت بھانت کے تبصرے ہورہے ہیں تو سوچا کیوں نہ تاریخ کی ورق گردانی کی جائے۔ کیا آپ جانتے ہیں ماضی میں افغان فوج نے کتنی بار جارحیت کا ارتکاب کیا اور ان علاقوں کو نشانہ بنایا جو آج کل خیبرپختونخوا کا حصہ ہیں؟ افغانستان کی فوج نے 3مئی 1919ء کو اچانک برطانیہ کے زیرانتظام شمال مغربیِ سرحدی صوبے یعنی موجودہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان پر حملہ کردیا۔ اس حملے کے نتیجے میں تیسری اینگلو افغان جنگ شروع ہوئی۔ افغان فوج نے موجودہ خیبر پختونخوا کے علاقوں باغ اور لنڈی کوتل پر قبضہ کرلیا۔ اس مہم جوئی کا مقصد پشاور کو دوبارہ حاصل کرنا تھا جسے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب کا حصہ بنادیا تھا۔برطانوی فوج نے جوابی حملہ کرتے ہوئے نہ صرف افغانوں کو پسپا کردیا اور یہ علاقے واپس لے لئے بلکہ DAKKA کے مقام پر قبضہ کرلیا ۔اُدھر کوئٹہ سے قندھار جانے والے راستے پر بھی شدید جھڑپیں ہو رہی تھیں۔ انگریزوں کی فوج نے اسپین بولدک کے قلعے پر دھاوا بول دیا تاکہ قندھار کے راستے افغان فوج کی پیشقدمی کوروکا جاسکے۔ وزیرستان سمیت قبائلی علاقوں میں مزاحمت بڑھتی چلی گئی تو تاج برطانیہ نے فضائیہ کو لڑائی میں شریک کرنے کا فیصلہ کیا۔برطانوی رائل ایئر فورس کے پانچ اسکواڈرن آگئے۔نہ صرف وزیرستان میں شدید بمباری کی گئی بلکہ فضائی حملوں کا دائرہ کابل اور جلال آباد تک بڑھا دیا گیا۔
برطانیہ ا س بار باقاعدہ جنگ سے گریز چاہتا تھا اور فضائیہ کے ذریعے بمباری کا مقصد امیر افغانستان امان اللہ خان کو مذاکرات کی میز پر آنے کیلئےمجبور کرنا تھا۔کابل میں بھی جلد ہی زمینی حقائق کا اِدراک کرلیا گیا چنانچہ پہلے DAKKA اور پھر مری میں افغان امن وفود بھیجے گئے اور پھر 3جون 1919ء کو امان اللہ خان نے جنگ بندی کا اعلان کردیا۔ سیز فائر کے بعد افغان اور برطانوی نمائندوں کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوا، کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد 8اگست 1919ء کو ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جسے راولپنڈی ٹریٹی کہا جاتا ہے۔اس معاہدے کی رو سے افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو انٹرنیشنل بارڈر تسلیم کرتے ہوئے درہ خیبر کے اس طرف مداخلت نہ کرنے کا وعدہ کیا اور اس معاہدے کے نتیجے میں سب سے بڑی پیشرفت یہ ہوئی کہ برطانیہ نے افغانستان کی مسلمہ حیثیت کو تسلیم کرلیا۔ افغانستان اب برطانوی کالونی نہیں بلکہ ایک آزاد اور خودمختار ملک تھا، چنانچہ افغانستان نے 19اگست کو یوم آزادی منانے کا فیصلہ کیا۔
امان اللہ خان کا شمار افغانستان کے روشن خیال اور ترقی پسند حکمرانوں میں ہوتا ہے۔اس نے لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے کاسموپولیٹن اسکولز بنوائے، پردے اور لباس سے متعلق صدیوں پرانے رسوم و رواج کو تبدیل کرنیکی کوشش کی۔یکساں حقوق اور شخصی آزادیوں پر مبنی ایک دستور متعارف کروایا۔کابل میں لائبریریاں بنوائیں ۔اس کے علاوہ یورپی اور ایشیائی ممالک سے تجارتی تعلقات استوار کئے تاکہ افغانستان کو اپنے پیروں پہ کھڑا کیا جا سکے۔امان اللہ خان نے روس سے حاصل کئے گئے جہازوں کے ذریعے افغان فضائیہ کی بنیاد رکھی۔کہا جاتا ہے کہ امان اللہ خان کے اس ترقی پسندانہ اور روشن خیال ایجنڈے کے پیچھے ان کی اہلیہ ملکہ صوریا ترضی اور ان کے سسرMahmud Tarziکا ہاتھ تھا۔
امان اللہ خان نے اپنی ملکہ کے ہمراہ یورپ کا دورہ بھی کیا جو خاصا کامیاب رہا مگر ان کے ترقی پسندانہ ایجنڈے کے خلاف مزاحمت شروع ہوگئی۔لوگ صدیوں پرانی روایات اور رسم و رواج ترک کرنے کو تیار نہ تھے اور جدیدیت کو بے حیائی سمجھتے تھے۔پہلے خوست میں بغاوت ہوئی جسے دبا دیا گیا اس کے بعدامان اللہ خان کیخلاف احتجاج سول جنگ میں تبدیل ہوگیا۔باغیوں نے جلال آباد سے کابل کی طرف مارچ شروع کردیا ۔حالات خراب ہونے پر امان اللہ خان نے جنوری 1929ء میں عنان اقتدار اپنے بڑے بھائی عنایت اللہ خان کے حوالے کی اور ملک سے فرار ہوگئے۔باغیوں کی قیادت کرنے والے حبیب اللہ کلکانی جو بچہ سقہ کے نام سے مشہور تھے ،انہوں نے عنایت اللہ خان کو بھی بادشاہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور پیغام بھیجا کہ سرنڈر کردو یا پھر مقابلے کے لئے تیار ہو جاؤ۔عنایت اللہ خان کو تاج وتخت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔تین دن کی بادشاہی کے بعد اس نے کابل چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔
عنایت اللہ خان کو برطانوی رائل ایئر فورس نے کابل سے ایئر لفٹ کرکے نکالا۔عنایت اللہ خان نے باقیماندہ زندگی جلاوطنی میں گزاری اور اس دوران ہی 1946ء میں ان کا انتقال ہوا۔عنایت اللہ خان کے فرار ہو جانے پر باغی کابل میں داخل ہوگئے اور پھر ایک ماشکی کا بیٹا حبیب اللہ کلکانی امیر افغانستان بن گیا۔حبیب اللہ کلکانی نے 17جنوری 1929ء سے 13اکتوبر1929ء تک تقریباً 9ماہ حکومت کی مگر ان کے اقتدار کو کسی ملک نے تسلیم نہ کیا۔امان اللہ خان نے ایک بار اقتدار واپس حاصل کرنے کی کوشش کی ،اس نے 22مارچ1929ء کو افغانستان واپس آکر قندھار میں اپنی فوج ترتیب دینے کی کوشش کی۔مگر خاطر خواہ کامیابی نہ ملی تو امان اللہ خان کو دو ماہ بعد 23مئی 1929ء کو ہمیشہ کیلئے افغانستان سے فرار ہونا پڑا۔
امان اللہ خان نے اٹلی میں پناہ لے لی اورجب 1960ء میں جلاوطنی کے دوران وفات پائی تو انہیں جلال آباد لاکر سپرد خاک کیا گیا۔حبیب اللہ کلکانی کا دور تب اختتام پذیر ہوا جب13اکتوبر1929ء کو نادر شاہ بارکزئی کے لشکر نے کابل میں داخل ہوکر اس کا تختہ اُلٹ دیا۔حبیب اللہ کلکانی کو یکم نومبر 1929ء کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کرکے گولی ماردی گئی۔نادر شاہ کا تعلق بارکزئی خاندان کی ایک اور شاخ سے تھا۔نادر شاہ،بارکزئی خاندان کے اقتدار کی بنیاد رکھنے والے امیر افغانستان دوست محمد خان بارکزئی کے بھائی سلطان خان بارکزئی کاپڑ پوتا تھا۔دوست محمدخان کے بھتیجے اور افضل خان کے بیٹے عبدالرحمان خا ن نے اپنے دورِاقتدار میں اس خاندان کو افغانستان سے جلاوطن کردیا تھا اور اپنے بیٹے کو بھی نصیحت کی تھی کہ انہیں واپس نہیں آنے دینا۔مگر عبدالرحمان خان کے بیٹے حبیب اللہ خان جو دل پھینک کے طور پر مشہور تھے، برطانیہ کے زیر انتظام بھارت کے سرکاری دورہ کے موقع پر ان کا نادر شاہ کی بہن سے آمنا سامنا ہوا تو اس سے شادی کرلی اور اس خاندان کو کابل لے آئے۔بعد ازاں نادر شاہ نے خوست کی بغاوت کو کچلنے میں حبیب اللہ خان کی مدد کی۔