• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ یقینی طور پر کسی ’جادو‘ سے کم نہیں تھا ورنہ یہ ممکن نہیں کہ ایک جماعت سے اُس کا نام لے لیا جائے، الیکشن کا نشان لے لیا جائے، لیڈر جیل میں ہو، سرکردہ رہنما روپوش ہوں اور سب سے اہم بات طاقتور حلقہ مخالف ہو پھر بھی عام انتخابات میں ’ووٹ‘ اسی کے نام پر پڑیں، اِ سکے برخلاف جب وہ جماعت اور لیڈر جسے مقتدر ہ کی حمایت حاصل ہو نام بھی ہو اور نشان بھی پھر بھی بمشکل الیکشن میں اسے کامیابی ملے اور سیاسی ’کٹھ پتلیوں‘ کی مدد سے حکومت بنانی پڑے۔ اب ہمارے بہت سے سیاسی اور دانشور دوستوں کا کل تک یہ خیال تھا جو اتنا غلط بھی نہیں تھا کہ وہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آیا۔ اب جب انہی دوستوں سے 8؍فروری ، 2024ء کے الیکشن کا پوچھو تو وہ اُسے ’عمران کے کلٹ‘ کا نام دیتے ہیں یعنی ہم کسی حال میں ’مقبولیت‘ کی حقیقت جاننے اور ماننے کو تیار نہیں۔ کسی بھی جمہوری اور روشن خیال معاشرے میں ’مقبولیت‘ کا ایک ہی پیمانہ ہوتا ہے اور وہ ہے صاف اور شفاف انتخابات۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں نہ سیاست پروان چڑھنے دی گئی نہ ہی جمہورت ورنہ شائد آج ہمیں نہ 26 ویں نہ ہی 27 ویں آئینی ترمیم کی ضرورت ہوتی۔ یہ سب کچھ اور آنے والے وقتوں میں اور بہت کچھ کرنے کا بادی النظر میں مقصد ایک ہی نظر آتا ہے۔ ’عمران‘ کا راستہ کیسے روکا جائے کیونکہ بہر حال جیسے تیسے ہی سی ملک میں بہرحال بلدیاتی الیکشن بھی ہونے ہیں اور سال دو سال بعد عام انتخابات بھی، یہ بات 8؍فروری کے انتخابات نے ثابت کردی کہ میڈیا بلیک آؤٹ اور جماعت کے باہر ہونے اور نشان کے بغیر بھی ووٹ اسی کو پڑا تو یہ عمل دوبارہ بھی ہوسکتا ہے۔

بظاہر سابق وزیر اعظم عمران خان اور اُن کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کیلئے ’آسانیاں‘نہیں ہیں مگر زمینی حقائق کچھ ایسے ہیں کہ مارچ 2022 کے بعد سے آج تک کےتمام سرویز کے مطابق اسکی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اکتوبر میں پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن تا حکمِ ثانی ملتوی کردیئے گئے ہیں۔ پنجاب کی سیاست بھی بہت دلچسپ ہے اور اِس کا سنجیدگی سے جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ اِس بڑے صوبے پر ہمیشہ سے قوم پرست جماعتیں ہی نہیں بڑی سیاسی جماعتیں بھی پرواسٹیبلشمنٹ کا الزام لگاتی رہی ہیں شاید یہ بات ’اشرافیہ‘ کی حد تک ٹھیک ہو مگر زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ یہاں کے عوام نے ہمیشہ ’بہادری‘ سے کھڑے رہنے والوں کو ووٹ دیا ہے۔ زیادہ دور نہ بھی جائیں تو خود میاں نواز شریف کی بھی مقبولیت میں اُس وقت اضافہ ہوا جب انہوں نے ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کیا 1993ء میں، اورموٹروے کے بجائے جی ٹی روڈ کا راستہ اپنایا۔ مگر وہی میاں صاحب اور اُن کی جماعت اپنی مقبولیت کھوبیٹھے جب انہوں نے ایک بار نہیں دو بار ’سمجھوتہ‘ کیا 2000ءمیں جنرل پرویز مشرف سے اور پھر شاید جب پارٹی کو اُن کی سب سے زیادہ ضرورت تھی 2020ءمیں وہ لندن چلے گئے اور الیکشن کے اعلان تک واپس نہ آئے۔ یہ ایک ایسا سیاسی خلا تھا جس کو کسی اور نے نہیں عمران خان نے پُر کیا کیونکہ وہ اُس وقت برسر پیکار تھا۔ اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے فوراً بعد عام انتخابات ہوجاتے تو آج سیاسی صورتحال خاص طور پر پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے اتنی خلاف نہ ہوتی۔

ماضی میں پنجاب پی پی پی اور ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ اِس لئے کھڑا ہوا کہ اُس نے پھانسی کے پھندے کو گلے لگایا اور جب تک اُس وقت کی مقتدرہ نے پی پی پی اور بےنظیر بھٹو کو ہرانے کیلئے اسلامی جمہوری اتحاد نہیں بنایا اور فتح کو پنجاب میں شکست میں نہیں بدل دیا اور نواز شریف صاحب کو وزیر اعلیٰ نہیں بنایا پی پی پی وہاں بھی مقبول جماعت رہی۔

مسلم لیگ (ن) ہی نہیں خود پی پی پی کی قیادت بھی ’پنجاب‘ کے سیاسی مزاج کوسمجھے۔ وہاں کی اشرافیہ اور عوام کی سوچ میں فرق ہے وہاں کے عوام کی سوچ میں فرق ہے وہاں کے عوام ’کھڑے‘ رہنے والے کے ساتھ ہوتے ہیں کیونکہ یہ وہا ں کی سیاسی نفسیات کا بھی معاملہ ہے۔ اب پنجاب میں بشمول لاہور کے چند ضمنی الیکشن غالباً 23؍نومبر کو ہونے جارہے ہیں۔ عام طور پر ضمنی الیکشن حکمران جماعت کے حق میں جاتے ہیں مگر بعض اوقات ’اپ سیٹ‘ بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ خود پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ایک سے زائد بار ہوا۔ بہرحال اچھی بات ہے ’آزاد اُمیدوار‘ کی حیثیت سے ہی سہی انہوں نے میدان نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم، مسلم لیگ(ن) خود بحیثیت تنظیم2022 سےیہ بظاہر متحرک نظر نہیں آئی البتہ سرکار اُنہی کی ہے۔

عمران کی شخصیت میں ’جادوئی پن‘ ضرور ہے مگر اپنے دورِ اقتدار میں انہوں نے بعض سنگین سیاسی غلطیاں کرکے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ پارٹی اور اپنے اتحادیوں کو بھی مشکل میں ڈالا جس میں خاص طور پر اُن کا سب سے پہلے عثمان بزدار کو وزیرِ اعلیٰ بنانا پھر خود پارٹی کے اعتراض کے باوجود اُس کا دفاع کرنا اور آخر میں پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کو توڑنے کا فیصلہ۔ بہر کیف اِس بڑے صوبے کی آج بھی بڑی سیاسی قوتیں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) ہی ہیں۔ پی پی پی اب خاصی پیچھےہے کیونکہ پارٹی نے کبھی اپنی سیاسی شکست کا اعادہ کیا ہی نہیں اور کیا تو غلط۔ 2013 کا الیکشن پی پی پی کیلئے پنجاب میں حیران کُن تھا اُن کا بیشتر ووٹر پی ٹی آئی میں گیا۔

عمران کا آخر ووٹر کون ہے اورسپورٹر کون ۔ جب مقتدرہ اُس کو سپورٹ کررہی تھی اور جب وہ اسکے خلاف ہے۔ اس میں کلٹ ایک فیکٹر ہے مگر واحد نہیں۔ اُس نے معاشرے کے اُس طبقے کو بھی ’پولنگ اسٹیشن کا راستہ دکھایا جو کبھی ووٹ ڈالنے گھر سے نہیں نکلا تھا۔ دوئم ‘پاکستان کی 60-فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جسکی اکثریت آج بھی اُس کی حامی ہے۔ اب جامعات کے دورےکرنے، نوجوانوں سے گفتگو کرنے، لیپ ٹاپ اور موبائل فون تقسیم کرنے سےرائے عامہ تبدیل نہیں ہوتی۔ سوئم، وہ طبقہ جو عمران کا حامی نہیں مگر مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی سے مایوس ہے۔ اب اِن تین بنیادی وجوہات کا توڑ سیاسی ہی ہوسکتاہے’جبر‘ کی سیاست سےنہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ریاستی حربے ہمیشہ اپوزیشن کے حق میں جاتے ہیں۔

کسی بھی جمہوری معاشرے میں ’مقبولیت‘ ہمیشہ نہیں رہتی مگر جب غیر جمہوری انداز میں ’قبولیت‘ کو مشروط کردیا جائے اقتدار لینے سے اور انکار کی صورت میں بے دخل کردیا جائے تو زمینی نتائج مختلف ہوتےہیں ۔جمہوری پیمانہ ’مقبولیت‘ کا ایک ہی ہے آزاد اور غیر جانبدار، شفاف الیکشن۔ ’مقبولیت‘ زور زبردستی سے کم نہیں ہوتی ایک پروسیس سے ہی جاتی ہےورنہ پھانسی کے بعد بھٹو کا سحر 40سال نہ رہتا۔ قید ’مقبولیت‘ کو مضبوط کرتی ہے۔

تازہ ترین