برطانوی جریدے ’’دی اکانومسٹ‘‘ کا شمار دنیا کے صف اول جریدوں میں ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں ’’اکانومسٹ لائف اسٹائل میگزین‘‘ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے حوالےسے ایک رپورٹ ’’صوفی، کرکٹر اور جاسوس، پاکستان کا گیم آف تھرونز‘‘ شائع کی جس نے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا۔ یہ رپورٹ میگزین کی تاریخ کی سب سے بڑی اسٹوری بن گئی جسے پہلے 24 گھنٹے میں ایک ملین افراد اور اب تک کروڑوں افراد پڑھ چکے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ رپورٹ عالمی شہرت یافتہ سینئر صحافی اوون بینٹ جونز نے اپنی پاکستانی معاون بشریٰ تسکین کے ساتھ تیار کی جس میں عمران خان دور حکومت میں بشریٰ بی بی کے سیاسی کردار، اثر و رسوخ اور پاکستان کی سیاست پر اُنکے اثرات کے حوالے سے تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ کو پی ٹی آئی قیادت نے پلانٹڈ قرار دیا اور کارکنوں نے سوشل میڈیا پر بشریٰ تسکین کے خلاف طوفان برپا کردیا۔ رپورٹ کے مطابق سابق خاتون اول بشریٰ بی بی نے عمران خان کی سیاسی سوچ کو متاثر کیا اور اُن کی زندگی میں روحانیت کا رنگ بھرا، روزمرہ حکومتی معاملات، تقرری و تبادلے، آنا جانا اور ملنا ملانا ہر چیز جادو اور روحانی علم کی بنیاد پر کئے جاتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق سابق انٹیلی جنس سربراہ جنرل فیض حمید نے بشریٰ بی بی کو شاطرانہ انداز میں استعمال کیا، وہ ایک افسر کے ذریعے معلومات بشری بی بی تک پہنچاتے تھے جو بشریٰ بی بی، عمران خان کے سامنے اپنی روحانی بصیرت سے حاصل کرنے کا دعوی ٰکرتی تھیں اور جب وہ پیش گوئیاں درست ثابت ہوتیں تو عمران خان کا اپنی اہلیہ کی بصیرت پر یقین مزید پختہ ہوجاتا تھا۔
یورپی میڈیا ماضی میں عمران خان کو ہمیشہ اُن کے یورپین کنکشن کے باعث سپورٹ کرتا رہا ہے تاہم یہ پہلی بار ہوا ہے کہ برطانوی جریدے دی اکانومسٹ کی رپورٹ نے بشریٰ بی بی کے سیاسی کردار کے بارے میں سوالات کھڑے کردیئے ہیں اور اُنکا سیاسی مستقبل ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ گزشتہ سال بشریٰ بی بی ایک بڑا مجمع اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں مگر حالیہ رپورٹ ،جسے جھٹلانا ممکن نہیں، کی اشاعت کے بعد وہ پانی کے بلبلے کی طرح ایکسپوز ہوچکی ہیں اور روحانیت کا جو لبادہ انہوں نے اوڑھ رکھا تھا، بے نقاب ہوگیا ہے۔ حالیہ رپورٹ کا شائع ہونا نہ صرف عمران خان اور بشریٰ بی بی کیلئے شرمندگی کا سبب بن رہا ہے بلکہ اس نے پاکستان کی سیاست اور عالمی سطح پر ایک نئی بحث بھی چھیڑدی ہے۔ رپورٹ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انٹیلی جنس کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید نے اُس وقت کی خاتون اول کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا یا بشریٰ بی بی نے جنرل فیض حمید کو استعمال کیا؟ میرے خیال میں پاور کی اس گیم میں ہر فریق نے ایک دوسرے کو استعمال کیا۔ عمران خان، بشریٰ بی بی سے شادی کرکے وزیراعظم بننا چاہتے تھے، جنرل فیض حمید، خاتون اول کا اعتماد حاصل کرکے آرمی چیف بننے کا خواب دیکھ رہے تھے اور بشریٰ بی بی، جنرل فیض حمید سے حاصل کردہ حساس معلومات کو روحانیت کے پردے میں استعمال کرکے نہ صرف حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہورہی تھیں بلکہ وزیراعظم پر کنٹرول حاصل کرکے مالی فوائد بھی حاصل کررہی تھیں جو یقیناً ایک تشویشناک بات ہے لیکن اس پوری گیم نے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور عالمی سطح پر یہ تاثر ابھرا کہ 25 کروڑ آبادی والے ایٹمی ملک کا سربراہ جو عوام میں اپنی مقبولیت اور پاکستان کو ’’ریاست مدینہ‘‘ بنانے کا دعویٰ کرتا تھا، اپنی حکومت کے فیصلے جادو ٹونے اور روحانیت کی بنیاد پر کررہا تھا۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا یہ اقدام قابل تحسین ہے جنہوں نے عمران خان دور میں آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیراعظم کو بشریٰ بی بی کی مبینہ بدعنوانیوں سے آگاہ کیا جسکے نتیجے میں عاصم منیر کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ کاش اُس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے وزیراعظم کو اس حقیقت سے آگاہ کرتے کہ خاتون اول، ملک کے ساتھ کس طرح کا کھلواڑ کررہی ہیں مگر وہ جنرل عاصم منیر کی طرح اتنی جرات نہ کرسکے۔
رپورٹ سے یہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں روحانیت کا کردار کہاں تک جائز ہے اور کیا یہ ملکی سلامتی کے حق میں ہے؟ کیا ہمارے سیاسی اداروں اور قیادت کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ ملک کو روحانیت اور جادو ٹونے سے دور رکھیں؟ سعودی عرب، یو اے ای، مصر، ایران اور افغانستان سمیت کئی افریقی ممالک میں کالے جادو کی پریکٹس اور اس نوعیت کی دیگر سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد ہے اور اسے جرم تصور کیا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ جادو ٹونے کی پریکٹس پر پابندی عائد کرے تاکہ آئندہ بشریٰ بی بی جیسی کوئی خاتون روحانیت کے دعوؤں کے ذریعے ریاستی معاملات اور قومی سلامتی پر اثر انداز نہ ہوسکے۔