جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن ہمیشہ سےایک حساس معاملہ رہا ہے۔ پاکستان، بھارت، چین اور خلیجی خطے کے بدلتے ہوئے حالات نے دفاعی منصوبہ بندی کو غیر معمولی پیچیدگیوں سے بھر دیا ہے۔ پاکستان سے شکست کے بعد بھارت کیلئے اپاچی ہیلی کاپٹرز حاصل کرنا بہت ضروری ہوگیا تھا مگر یہ منصوبہ اس وقت بحران کا شکار ہو گیا جب بھارتی فوج کیلئے تیار کیے گئے اپاچی ہیلی کاپٹروں کو لیجانے والا An-124مال بردار طیارہ (یوکرینی ڈیزائن کا سوویت دور کا بھاری طیارہ) اچانک امریکہ واپس لوٹ گیا۔ بھارت میں میڈیا نے جس سرعت سے اس واقعے کو ترکیہ کیساتھ جوڑ کر فضائی حدود کی بندش کا الزام عائد کیا، اس نے نہ صرف نئی سفارتی بحث چھیڑ دی بلکہ خطے کے تجزیہ کاروں کو ایک مرتبہ پھر ترکیہ بھارت پاکستان مثلث کی طرف متوجہ کر دیا ہے۔بھارت تک نہ پہنچنے والے ان ہیلی کاپٹرز کی کہانی کچھ یوں ہے کہ 30اکتوبر کو جرمنی کے شہر لائپزگ میں کھڑے An-124 طیارے پر Apache AH-64E ہیلی کاپٹر انتہائی احتیاط کے ساتھ لوڈ کیے گئے اور ان پر بھارتی آرمی ایوی ایشن کے رنگ اور نشانات واضح دکھائی دے رہے تھے۔یکم نومبر کو طیارہ جرمنی سے روانہ ہو کر امریکی ریاست ایریزونا پہنچا، جہاں آخری تکنیکی تیاری کے مراحل مکمل کئے گئے۔ اسکے بعد طیارہ اپنے اگلے پڑاؤ East Midlands Airport UKکی طرف روانہ ہوا، جہاں سے اسے براہِ راست بھارت جانا تھا۔مگر 8 دن کی خاموشی کے بعد اچانک یہ خبر سامنے آئی کہ طیارہ بھارت جانے کے بجائے دوبارہ Mesa لوٹ گیا ہے۔ بعد میں تصاویر وائرل ہوئیں جن میں اپاچی ہیلی کاپٹرز کو طیارے سے اتارتے دکھایا گیا۔ یہ ناقابلِ فہم موڑ تھا، کیونکہ اس سطح کی لاجسٹک پروازیں مکمل پلان اور واضح ٹائم لائن کے ساتھ ہوتی ہیں لیکن یہاں ایک ایسی رکاوٹ آن کھڑی ہوئی جس نے بھارت کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اس رکاوٹ پر بھارتی میڈیا نے بغیر ثبوت کے براہِ راست ترکیہ کو نشانہ بنایا کہ اس نے An-124 کیلئے اوور فلائٹ اجازت نہیں دی۔بھارت نے اسے اس طرح رپورٹ کیا جیسے کوئی بڑا سفارتی بحران پیدا ہو گیا ہو۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ ترکیہ نے کوئی بیان دیا اور نہ امریکہ نے، مگر خاموشی کا مطلب تائید نہیں ہوتا، بلکہ یہ سفارتی احتیاط بھی ہو سکتی ہے۔بھارتی میڈیا کی جانب سے ترکیہ پر الزام کا پس منظر بھی اہم ہے اور اسے پورا سمجھے بغیر یہ معاملہ ادھورا رہتا ہے۔ بھارت ترکیہ پر گویا ادھار کھائے بیٹھا ہے مئی میں پاک بھارت کشیدگی پر جس طرح ترکیہ نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا بھارت کوایسے لگا جیسے ترکیہ نے بھارت کے سینے پر مونگ دل دی ہو، پھر کشمیر پر ترکیہ کا موقف بڑا واضح ہے اور صدر ایردوان ہمیشہ بین الاقوامی پلیٹ فارمز پردو ٹوک انداز میں جس طر یقے سے مسئلہ کشمیر پرپاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کرتے ہیں وہ بھارت کو ہضم نہیں ہو پاتا،اوپر سے پاکستان اور ترکیہ کےدرمیان باقاعدگی سے سالانہ فوجی مشقیں ہونا، دونوں ممالک کے درمیان دفاعی ٹیکنالوجی، ڈرون صنعت (ترکیہ کے Bayraktar TB2 نے جس طریقے سے پاک بھارت کشیدگی کے دوران بھارت کو نقصان پہنچایا بھارت ابھی تک اسے بھول نہیں پایا) اور بحری تعاون نے بھارت کی نیندیں حرام کررکھی ہیں، اسی لیے بھارت پاکستان کے ساتھ ساتھ ترکیہ کو بھی اپنا دشمن سمجھتا ہے۔
اپاچی ہیلی کاپٹر صرف ایک ہتھیار نہیں، بلکہ جنوبی ایشیا میں عسکری توازن کو بھارت کے حق میں کرنے کی ایک کوشش ہے لیکن بھارت اپنے اس زعم میں پاکستان سےایک بار پھر مار کھا سکتا ہے کیونکہ پاکستان بھارت کے ہر ہتھیار کا پہلے ہی سے توڑ کرنے کی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ اب آتے ہیں کہ ترکیہ نے کیونکر روسی ساختہ روسی An-124کارگو طیارے کو اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت نہیں دی حالانکہ ترکیہ کے امریکہ اور روس دونوں ہی کیساتھ بڑے گہرے اور قریبی تعلقات ہیںلیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ترکیہ نیٹو کا رکن بھی ہے اور ترکیہ نے یوپی ممالک کیساتھ ساتھ روس کیساتھ بھی معاہدہ لوزان پر دستخط کر رکھے ہیں۔ اس معاہدے کی رو سے نہ امریکہ ، نہ یورپی ممالک اور نہ ہی روس بلا اجازت فوجی سازو سامان کی ترسیل کیلئے اجازت کے بغیر ترکیہ کی فضائی اور سمندری حدود استعمال کرسکتے ہیں۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ امریکہ نے بلا اجازت ترکیہ کی فضائی حدود استعمال کر تے ہوئے، اس کارگو طیارے کو بھارت روانہ کرنے کاشیڈول تیار کیا تھا لیکن ترکیہ کی جانب سے بلا اجازت اس کی فضائی حدوداستعمال کرنے کی اجازت نہ ملنے پر بلکہ ترکیہ کی جانب سے شدید ردِ عمل دکھانے پرامریکہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا ہے۔اپاچی ہیلی کاپٹرز کی فراہمی میں تاخیر دراصل پاکستان کیلئے Blessing in disguiseوالی کیفیت ہے یعنی اسے پاکستان کی سفارتی کامیابی بھی کہا جاسکتا ہے۔ امریکہ نے اب تک اس سلسلے میں خاموشی اختیار کررکھی ہے جبکہ ترکیہ کی خاموشی میں سفارتی حکمت پوشیدہ ہے اور انقرہ کسی ایسے واقعے پر فوری ردّعمل نہیں دیتا جو غیر مصدقہ ہو۔ یہ رویہ ترکیہ کی پیشہ ورانہ سفارتکاری کی علامت ہے۔ امریکہ سے روانہ اپاچی ہیلی کاپٹر جو بھارت پہنچنا تھے پہنچنے سے پہلے ہی لاپتہ ہوگئے ہیں لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اپاچی ہیلی کاپٹر اب بھارت کو مل بھی سکیں گے یا پھر بھارت یہ کہنے پر مجبور ہو جائیگا ’’بخشو امریکہ بھارت لنڈورا ہی بھلا‘‘ ۔ An-124 کی واپسی محض ایک تکنیکی واقعہ نہیں۔اسکے اثرات سفارتکاری، دفاعی سیاست، خطے کی کشمکش، میڈیا بیانیے اور عالمی طاقتوں کے تعلقات تک پھیلے ہوئے ہیں۔فی الحال اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کا اپاچی خواب عارضی طور پرترکیہ نے چکنا چورکر دیاہے۔