• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جماعت اسلامی کا اجتماع اُن حالات میں منعقد ہو رہا ہے جب ملک ِ عزیز میں قوت اور اختیارات چند ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ گئے ہیں۔ 26 ویں ترمیم نے جو تباہی نظام عدل میںپھیلائی تھی، اسکے بعد 27 ویں ترمیم نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ نچلی سطح پر عدالتی نظام ویسے ہی عدل کی دھول اڑا رہا تھا، اب اعلیٰ عدلیہ کو مکمل طور پر حکمرانوں کے ہاتھوں مجبور بنانیکا اہتمام کیا گیا ہے۔ صدرِ مملکت اور فوجی سربراہی کو تاحیات عدالتی استثنا دیدیا گیا ہے، اور یہ ایسی حرکت ہے جو اسلام، قراردادِ مقاصد، دستور اور قانون کے کسی بھی اعلیٰ معیار سے متصادم ہے۔ کیا مقتدر طبقوںکو سمجھ نہیں آتی کہ جب آپ عدل و انصاف کو قتل کر دیں گے تو معاشرہ ظلم،بے حسی، مایوسی اور انتشار کا منظر پیش کرئیگا۔ ایسے ملک میں ممکن ہے کچھ دولت مندوں اور طاقت وروں کو چین اور سکون ملتا ہوا محسوس ہو، مگر اپنی جگہ معاشرہ تہذیبی فساد کی طرف گامزن ہی ہوگا، جو آخرکار خود ایسے مراعات یافتہ طبقوںکیلئے بھی تباہی لائے گا۔ جب لوگ عدل سے مایوس ہونگے تو سڑکوں پر اپنی اپنی عدالتیں لگا کر لاقانونیت کو فروغ دینگے اور اس لاقانونیت کو بڑھاوا دینے کے مرتکب بہرحال وہی لوگ ہونگے، جنھوں عدل و انصاف کو قتل گاہ میں پھندے پر لٹکایا ۔ اس لیے ہم حاکموں اور موجودہ نام نہاد پارلیمنٹ سے کہتے ہیں کہ ہوش کےناخن لیں، قانون، عدل اور انصاف کی بالادستی قائم کریں کہ اسی سے امن اور ترقی کے دروازے کھل سکتےہیں۔معاشرے میں سے ناداری، جہالت اور غلامی کو دور کرنے کا سب سے اہم ذریعہ تعلیم عامہ ہے۔ ایسی تعلیم جس کیلئے دستور پاکستان نے ریاست اور انتظامیہ کو پابند بنایا ہے۔ لیکن انتظامیہ بلکہ اسمبلیاں تک قومی تعلیم کو برباد کرنے میںشریک جرم مجرموں کا سا کردار ادا کر رہی ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو سنبھالنے کے بجائے تعلیم کو بیچنے، قومی اداروں کو تباہ کرنے اور پرائیوٹائز کرنے میں مسلسل سرگرمی دکھائی دی جا رہی ہے۔ نجی شعبے کی تعلیم کیلئے خدمات کا ہم اعتراف کرتے ہیں، لیکن اندھی بہری نجی تعلیمی پالیسی نے والدین کے استحصال کے ساتھ نئی نسل کےمستقبل کو خراب کرنے میں بڑا افسوس ناک کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف سرکاری تعلیمی ادارے تباہی کی گہرائی میں گر رہے ہیں۔ مسلسل داخلے کم ہو رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے متعدد شعبہ جات بند ہو رہے ہیں۔ سرکاری اداروں کے اساتذہ بے قدری کا نشانہ ہیں تو نجی شعبے میں اساتذہ کا خون چوسا جاتا ہے۔ ہم سرکاری اداروں میں مفت تعلیم کے حامی ہیں، مگر مفت تعلیم کا مطلب خراب اور برباد تعلیمی مستقبل نہیں بلکہ مقابلے کی صلاحیت رکھنے والا فعال نظام تعلیم ہے۔ اسی طرح اسکولوں سے باہر3کروڑ بچوں کو اسکولوں میں لانا حکومت کیلئے لازم ہے۔دستور، قانون اور شورائی و جمہوری کلچر کا تقاضا ہے کہ اختیار عوام تک منتقل ہو، جسکا قابل عمل اور موثر ذریعہ بلدیاتی اداروں کی بحالی ہے۔ مگر اسمبلیوں میں بیٹھے جاگیردار یا شہروں میں بیٹھے چند سو کاروباری و صنعتکار ہرگز نہیں چاہتے کہ اختیارنچلی سطح تک پہنچے۔ اختیارات کے حصول کی دوڑ میں اسمبلیاں زیادہ فعال ہیں، مگر نچلی سطح پر لوکل باڈیز کے نظام کو موثر اور بااختیار بنانےکیلئے یہ قانون سازی اور انتخابات کرانے پر آمادہ نہیں۔ جماعت اسلامی اس حق کے حصول کی جدوجہد کو اوّلیت دیتی ہے کہ:۱۔ کروڑوں محنت کش اور مزدور کم سے کم تنخواہ پر گزارہ کر رہے ہیں اور ان میں صرف ۷۱فی صد رجسٹرڈ ہیں، جبکہ ۳۸ فی صد رجسٹرد ہی نہیں بلکہ عارضی بنیاد پر محنت مشقت پر مجبور ہیں۔ ٹریڈ یونین کا وجود ختم ہو چکا ہے اور روزگار کا تحفظ سرے سے موجود نہیں۔۲۔ کسانوں اور کھیت مزدوروں کی حالت ان سے بھی بدتر ہے۔ چھوٹے کسان اور زرعی مشقت سے وابستہ مزدور دردناک غلامی کی چلتی پھرتی علامتیں ہیں۔ زراعت تنزلی کی گہرائی میں لڑھک رہی ہے۔ فصلوں کا معاوضہ بنیادی اخراجات تک کو پورا نہیں کرتا، کجا یہ کہ انھیں معقول منافع دے۔ ایک زرعی ملک اجناس بیرون ملک سے خریدنے پر مجبور ہے۔۳۔جاگیرداروں نے بڑے بڑے رقبے ہی قبضے میں نہیں لے رکھے بلکہ اسکے ساتھ معاشرے پر بھی انھوں نے اپنی سیاسی و انتظامی گرفت مضبوط بنا رکھی ہے۔ اور اب کارپوریٹ جاگیرداری استحصال کی نئی شکل میں ڈھل رہی ہے۔ جس کا ایک مظہر آپ مثال کے طور پر بنیادی فصلوں گندم، چاول، کپاس اور گنے کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہم اسکے بجائے کسان، تاجر، اور محنت کش کی پارٹنرشپ کو قانونی شکل میں روبہ عمل دیکھنا چاہتے ہیں اور اس مقصدکیلئے بیداری پیدا کریں گے۔۴۔اس معاشی استحصال کے شکار طبقوں میں حددرجہ مجبور افراد، دانش کی بے قدری اور بے حرمتی کے اذیت ناک پہلو سے نظر آتے ہیں۔ معاشرے میں ظلم اور ناانصافی کو روکنے کی توانا و طاقت ور آواز قلم، صحافت اور ابلاغ عام سے وابستہ شعبے ہیں۔ یہ لوگ ماضی میں قوم کی آواز اور زبان ہوتے تھے، لیکن آج یہ لکھنے بولنے کی قوت سے محروم کر دیے گئے ہیں۔ اگر سوشل میڈیا کا راستہ نہ ہوتا تو استحصالی گٹھ جوڑ کے ہاتھوں قلم ٹوٹ چکے ہوتے۔قلم وصحافت کی حرمت کو بحال کرنے کیلئے، ہر سطح پر تحریک چلانا وقت کی ضرورت ہے، ورنہ ملک بدترین آمریت اور ظلم کی نذر ہو جائیگا۔۵۔صحت عامہ کا شعبہ تباہی سے دوچار ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس بنیادی ذمہ داری کو اٹھانےسےگریزاںہیں۔ سرکاری ہسپتال ناکافی ہی نہیں بلکہ سہولتوں سے بھی خالی ہیں۔ اور اگلا ظلم یہ ہے کہ بہت تیزی کے ساتھ بنیادی صحت کے مراکز اور سرکاری ہسپتال، نجی شعبے کی طرف دھکیلے جار ہے ہیں۔ بڑی تعداد میں نجی میڈیکل کالجوں سے مہنگی تعلیم حاصل کر نیوالے ڈاکٹروں کو نہ معاشی تحفظ حاصل ہے اور نہ اعلیٰ تربیت و ترقی کے مواقع میسر ہیں۔ یہ چیز تعلیم و ہنر کی بے قدری کا ذریعہ بن رہی ہے۔ جسے تبدیل کرنے کیلئے تمام اہل علم حضرات کو کردار ادا کرنا ہے۔

(صاحب تحریر جماعت اسلامی پاکستان کے امیر ہیں)

تازہ ترین