پاک افغان سرحد یعنی ڈیورنڈ لائن 1893ء میں کھینچی گئی جب امیر افغانستان عبدالرحمان نے برطانوی وزیر خارجہ Mortimer Durand کیساتھ معاہدے پر دستخط کئے۔8 اگست 1919ء کو ایک اور معاہدے پر دستخط ہوئے جسے راولپنڈی ٹریٹی کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے افغانستان نے ایک بار پھر ڈیورنڈ لائن کو انٹرنیشنل بارڈر تسلیم کرتے ہوئے درہ خیبر کے اس طرف مداخلت نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ بعدازاں 8نومبر 1933ء کو جب افغان حکمران نادر شاہ ایک ہائی اسکول کا دورہ کرنے کیلئے گئے ہوئے تھے تو ہزارہ قبیلے کے ایک طالبعلم عبدالخالق نے ریوالور سے فائرنگ کرکے انہیں قتل کردیا۔ بتایا جاتا ہے کہ عبدالخالق نے ہزارہ کمیونٹی کے قتل عام کا انتقام لیا۔
بہرحال نادر شاہ کے قتل پر انکے کمسن بیٹے ظاہر شاہ کو افغانستان کا بادشاہ بنایا گیا جو اس وقت 19سال کے تھے،بعض روایات کے مطابق تخت نشین ہوتے وقت انکی عمر 14برس تھی۔ ظاہر شاہ کے چچا مارشل شاہ ولی خان کو انکا سرپرست مقرر کیا گیا۔ ظاہر شاہ افغانستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ برسراقتدار رہنے والے بادشاہ ہیں،انہیں افغانستان کا آخری بادشاہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انکی اقتدار سے علیحدگی کے بعد بادشاہت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ ظاہر شاہ کے 40سالہ دور میں انکے چچا حکومتی معاملات میں دخیل رہے،پہلے انکے ایک چچا ہاشم خان وزیراعظم کے طور پر اختیارات استعمال کرتے رہے اور پھر انکے دوسرے چچا عزیز خان کے بیٹے سر داؤد خان کو 1952ء میں شاہی وزیراعظم بنایا گیا۔
ظاہر شاہ کے دور اقتدار میں برسہا برس تک ڈیورنڈ لائن پر کوئی اعتراض نہ کیا گیامگرجب ہندوستان کے بٹوارے کی بات ہورہی تھی تو ظاہر شاہ کی ہدایت پر افغان وزیر خارجہ عبدالصمد غوث نے 1944ء میں برطانوی حکام کو خط لکھ کر ڈیورنڈ لائن کی حیثیت تبدیل کرنے کو کہا،افغانستان کا موقف تھا کہ سرحد کے دونوں طرف افغان بستے ہیں اسلیے انہیں جدا نہیں کیا جا سکتا۔برطانیہ نے افغانستان کا موقف یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ ڈیورنڈ لائن مستقل سرحد ہے اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ قیام پاکستان کے بعد جب اقوام متحدہ میں شمولیت کا مرحلہ آیا اور ووٹنگ ہوئی تو افغانستان کے مندوب عبدالحسین خان عزیز نے پاکستان کو اقوام متحدہ کا رُکن بنانیکی مخالفت کی مگر بعدازاں جب بات چیت ہوئی اور دونوں ملکوں نے اپنے اپنے سفیر مقرر کیے تو افغانستان نے پاکستان کی مخالفت میں ڈالا گیا ووٹ واپس لے لیا۔ مگر دونوں ملکوں کے تعلقات خوشگوار نہ ہوسکے۔ ایک موقع پر تو کابل میں پاکستانی سفارتخانے کو آگ لگادی گئی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ظاہر شاہ تو پاکستان سے اچھے تعلقات کے خواہاں تھے مگر انکے وزیراعظم سردار داؤد خان قوم پرست تھے اور ڈیورنڈ لائن کو ختم کرکے شمال مغربی سرحدی صوبے کو اپنے ملک کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔بہر حال ظاہر شاہ کا سب سے بڑا کارنامہ انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں پر مبنی1964ء کا دستور متعارف کروانا ہے۔ جب اختلافات کے سبب انکے چچا زاد بھائی سردار داؤد خان شاہی وزیر اعظم کے منصب سے الگ ہو گئے تو انہوں نے سید شمس الدین مجروح کی سربراہی میں قانون دانوں، جمہوریت پسندوں اور دانشوروں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا جسکا کام آئین تشکیل دینا تھا۔ اس کمیشن کے ذریعے بننے والے آئین کی شق نمبر24جسکے تحت شاہی خاندان کے افراد پر اقتدار کے دروازے بند کردیئے گئے،ظاہر شاہ کے اقتدار سے بیدخلی کی وجہ بنی کیونکہ سردار داؤد کا خیال تھا کہ اس شق کا مقصد انہیں اقتدار سے محروم کرنا ہے۔
جنرل ایو ب خان اپنی خود نوشت ”Friends Not Masters“میں پاک افغانستان تعلقات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ افغانوں نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ہے کہ انکے ”پختونستان“کے مطالبے کی وضاحت نہ ہونے پائے۔اب سے پہلے انہوں نے ایسے نقشے بھی پیش کیے جن میں دکھایا گیا تھا کہ دریائے سندھ تک کا علاقہ بلکہ کراچی تک ”پختونستان“تک کا حصہ ہے لیکن جب کبھی ہم ذرا سختی سے پوچھتے ہیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ہم کسی علاقے کے دعویدار نہیں۔ہمیں تو بس ”پختونستان“کے لوگوں کی بھلائی کی فکر ہے۔میں نے شہزادہ نعیم سے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ افغان اپنی تجویز کو کیوں جان بوجھ کر مبہم رکھنا چاہتے ہیں۔ظاہر ہے وہ چاہتے ہیں کہ کچھ اور اقدامات کرنے سے پہلے پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کا حق حاصل کرلیں۔
ظاہر شاہ ملک میں جمہوری نظام کے خواہاں تھے جبکہ سردار داؤد بادشاہت جاری رکھنے کے قائل تھے۔چنانچہ اب سردار داؤد نے PDPAیعنی پرچم پارٹی بنا کر ظاہر شاہ کی مخالفت کرنا شروع کردی۔مارچ1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت ختم کردی گئی اور اس کے نتیجے میں شمال مغربی سرحدی صوبے یعنی موجودہ خیبر پختونخوا میں بھی صوبائی حکومت مستعفی ہو گئی تو افغان عوام کی بے چینی میں اضافہ ہوا کہ بادشاہ ظاہر شاہ نے اس حوالے سے کوئی قدم کیوں نہیں اُٹھایا۔ 17جولائی 1973ء کو جب ظاہر شاہ اٹلی میں زیر علاج تھے تو ان کے سابق وزیراعظم اورفرسٹ کزن سردار داؤد خان جن کے ساتھ ان کا سالہ بہنوئی کا رشتہ بھی تھا،انہوں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ظاہر شاہ کو اس فیصلے کی خبر ملی تو انہوں نے حالات سے سمجھوتہ کرلیا،ان کی اہلیہ ملکہ حمیرا بغاوت کے وقت کابل میں تھیں،کچھ عرصہ بعد انہیں ملک سے جانے کی اجازت مل گئی اور پھر ان دونوں نے لگ بھگ29سال جلاوطنی میں گزارے۔
ظاہر شاہ نے 2002ء میں تب جلاوطنی ختم کرکے واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا جب افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم ہوئی اور حامد کرزئی کو صدر بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ظاہر شاہ نے افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ہونے والے لویہ جرگہ میں شرکت کی اور پھر دارلحکومت کابل میں واقع اپنے پرانے محل میں منتقل ہوگئے۔ظاہر شاہ 23جولائی2007ء کو 92سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔