• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں طرح طرح کی عدالتیں ہیں اور بھانت بھانت کے قاضی اور منصف مگر شاید ہی کسی عاشق نے ان کا نام محبت یا عزت سے لیا ہو۔مرد، عشق کے دعوے تو بہت کرتا ہے مگرکاریوںکے قبرستان میں کوئی مرد دفن نہیں ہے،حالانکہ کہتے ہیں کہ جوڑے آسمان پر بنائے جاتے ہیں مگر ان کے بیچ دیواریں کون کھڑی کرتا ہے؟ اور کیوں؟بچپن سے ان کی دیکھ بھال کرنے والے،ان کے آنسوؤں پر تڑپ جانے والے ان کی فرمائشیں پوری کرنے والے ناز پرور غیرت کی چھریاں کیوں تیز کرتے ہیں؟ ارمان،حسرت کیوں بنتے ہیں؟ اور عنایت حسین بھٹی کے گانے کا ایک بول المیہ فلموں میں بار بار سنوایا جاتا تھا۔

محبت کا جنازہ جا رہا ہے

تاہم سنیما ہال کی کرسیوں کودل جلےتماشائیوں سے بچانے کیلئے دنیا میں وصال نہ پا سکنے والوں کو آخری منظر میں کسی ستارے یا چاند پر اکٹھا کرکے ان کی محبت کی بنیاد بننے والے دوگانے کو پھر سے سنوا دیا جاتا اور اس آخری منظر پر بہت سے وہ والدین بھی خوشی سے تالیاں بجاتے جو بعد میں محبت کی شادی کرنیوالی بیٹی یا بیٹے کو عاق کر دیتے اور وصیت کر جاتے کہ انہیں ہمارے جنازے پر بھی نہ آنے دیا جائے۔ دل جلوں کو ہم ملتانی ’ہاں دے ساڑے‘کہتے ہیں ان کی چغلیوں اور طعنوں کو اردو میں تیلی لگانا اور سرائیکی میں ’چوانتی لاون‘ کہتے ہیں۔زیادہ خبیث لوگ معصومانہ شکل بنا کے کہتے ہیں’ آپ کی بہن اور بیٹی کو ہم بھی اپنی عزت خیال کرتے ہیں،پر کل یہ آپ کی اجازت سے گلی کمنگراں،محلہ چوڑی گراں یا سوتری وٹ میں گئی تھی، بشیرے دڑھیل یا نذیرے مُچھل کے ساتھ؟ اللہ کی لعنت ہو جھوٹے چغل خور پر ہماری رضیہ نے اپنا معصوم ہاتھ اس بے غیرت کے کندھے پر رکھا ہوا تھا،پیدل چلتے چلتے تھک گئی ہوگی شاید‘۔یہی نہیں بچپن کی یاریاںتڑک کرکےٹوٹتی ہیں،جب یہ چوانتی باز فتنہ گراپنا کام دکھاتے ہیں۔ میاں بیوی،عاشق معشوق ہنستے کھیلتے گھر اور بے فکرے مگر فُقرے،تہی کیسہ خوش باش لوگ ادبی مجالس میں مشاعروں میں رنگ دکھانے والے انہی لوگوں کو اچھے نہیں لگتے،ہم نے اپنے زمانہ طالب علمی میں دوہنستے کھیلتے شاعر دیکھے تھے حسین سحر(سحر رومانی) اور اقبال ارشد دونوں لازم و ملزوم تھے بے شک اقبال ارشد ہنسوڑ تھے اور جملہ باز غضب کے،تین چار عشرے ایسے تھے جب ہمارے شہر کی یہ ادبی جوڑی بے مثال تھی پھر کچھ ایسا ہوا کہ حسین سحر کو ایک تنظیم نے دھمکیاں دیں وہ زرگر پسر تھا،سعودی عرب چلاگیا،واپڈا کا افسر تعلقات عامہ جو مجلس آرا اور جان محفل ہوتا تھا کچھ اکیلا سا ہوگیا،اس کی خواہر نسبتی فاخرہ بتول میری شاگرد تھی ایک مرتبہ کالے منڈی میں کسی نے بتایا کہ ساتھ کی گلی میں اقبال ارشد کا گھر ہے میں وہاں چلا گیا میں شاید پہلے بھی لکھ چکا ہوں بڑے پیار سے اقبال ارشد نے اپنی اہلیہ کا نام لے کے کہا’ سنتی ہو؟ سید انوار حسین آئے ہیں چائے کے دو پیالے بھیج دو‘ میں نے کہا ’یار اقبال ارشد میں کہاں کا سید؟ خدا کا خوف کرو‘۔میرا ہاتھ دبا کے کہا’آہستہ بولو،یہ سید زادی کسی غیر سید کیلئے چائے نہیں بناتی‘۔ اسی اقبال ارشد کی بینائی جاتی رہی،جوان بیٹا مرا تو رو رو کے پوچھا حسین سحر کواطلاع ملتی تو وہ سعودی عرب سے آ جاتا میرے پاس تعزیت کیلئے۔ حسین سحر کے بھتیجے کتاب نگر کے خوبصورت شاکر حسین شاکر نے دل شکستہ کا دل رکھنے کو کہا کہ چچا آئے تھے دو دن کیلئے یہاں پرسہ دینے والوں کا ہجوم تھا اگلے دن آپ کی طبیعت خراب تھی ڈاکٹر کی دوائی کے اثر سے آپ غنودگی میں تھے۔ پھر ہم نے اسی شہر میں رضی الدین رضی اور شاکر حسین شاکر کی جوڑی دیکھی،کئی رفاقتوں سے زیادہ پائیدار اورزرخیز،ملتان اور ملتان سے باہر یہ جوڑی ہمارے شہر کے نئے طرز احساس کے نمائندے کے طور پر تھی ،تقریبات کو سجانے کیلئے۔محبت کی ایک تعریف یہ کی گئی ہے کہ یہ تعلق کو خوبصورت بنانے کا جذبہ ہے،اب کچھ رخنہ اندازاس تعلق کو کمزور کرنے پر مستعد ہیں مگر ہماری دعا ہے کہ یہ جوڑی سلامت رہےکہ یہ ملتان کی ادبی تاریخ کے بھی امانت دار ہیں۔عطا الحق قاسمی اور امجد اسلام امجد کی جوڑی مشہور تھی امجد کی وفات سے پہلے کچھ نقب زن اس دوستی پر بھی حملہ آور تھے معصومیت کے ساتھ۔

جس کسی نے فارسی کلاسیکی شاعری پڑھی ہے خاص طور پرغالب کو پڑھا ہو اور اس کے معنی پرور شعروں کو دل سے محسوس کیا ہو تو وہ جانتا ہے کہ یوسف خود کہتے تھے کہ زلیخا نے مجھ پر عشق کی تہمت باندھی ہے مگر ہمارے صوفی شاعر اسے سچی عاشق کہتے ہیں۔ غالب نے بھی کہا ہے ۔

سب رقیبوں سے ہوں ناخوش پر زنانِ مصر سے

ہے زلیخا خوش کہ محوِ مہِ کنعاں ہو گئیں

ابھی کل ہی فیض کا یومِ وفات منایا گیا،وہ ایک طرح سے عشق کے ا سپیشلسٹ تھے وہ جنہوں نے شاید غالب کے اس خیال کی توضیح کی تھی۔

جاں بیچنے کو آئے تو بے دام بیچ دی

اے اہلِ مصر وضعِ تکلف تو دیکھئے

انصاف ہے کہ حکمِ عقوبت سے پیشتر

اک بار سوئے دامنِ یوسف تو دیکھئے

پھر فیض کے علاوہ شاید ہی کوئی اور عاشق شاعر ہو جس نے رقیب سے یوں خطاب کیا ہو۔

آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے

جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا

ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے،کیا سیکھا ہے

جُزترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں

اب عاشقوں کی بات چلی ہے تو اعتراف کروں کہ گزشتہ کالم میں اوکاڑہ کےرانا محمد اظہر کا نام غلطی سےرانا محمد ارشد لکھا گیا۔پیپلز پارٹی سے لگاؤ رکھنے والے بانوے برس جینے والے ’ایک سیاسی کارکن کی یادداشتیں‘جیسی کتاب کو کوئی بوڑھا جیالا کیسے بھول گیا؟رانا اظہر نے ضیا الحق کی جانب سے اس کی مجلس شوریٰ کی رکنیت قبول کرنے والے کی پیشکش ٹھکرا دی تھی۔ساہیوال کے زکریا خان کی دل آزاری پر دل و جان سے معذرت!

تازہ ترین