جس طرح راولپنڈی اور اسلام آباد جڑواں شہر ہیں یا جیسے میرا آبائی شہر جوہر آباد اور خوشاب آپس میں جڑے ہوئے ہیں بالکل ایسے ہی دور افق پار مجازی دنیا میں دو جڑواں شہر الٹ نگر اور سیدھ نگر ہیں۔ کبھی یہ ایک ہی شہر ہوتا تھا اور یہاں کا راجہ دیوتا سمان تھا مگر پھر راجہ کے دو بیٹوں میں لڑائی ہوگئی بڑا بیٹا سیدھ نگر کا راجہ بنا تو چھوٹے نے بغاوت کر کے دریا پار الٹ نگر کی بنیاد ڈال دی ۔تاریخ بتاتی ہے کہ تب سے یہ پڑوسی شہر اسی طرح بس رہے ہیں لیکن دونوں شہروں کے رسم و رواج، طور طریقوں اور آئین و قانون میں زمین آسمان کا فرق ہے سیدھ نگر میں تو باقی دنیا کی طرح کے رسم و رواج ہیں مگر الٹ نگر کے راجے سیدھی راہوں سے باغی تھے اس لئے انہوں نے دنیا سے الگ اپنے ہی قوانین ترتیب دے ڈالے۔ مثلاً سیدھ نگر میں گاڑیاں پیٹرول سے چلتی تھیں اور لوگ دودھ کو خوراک کے طور پر پیتےتھے مگر الٹ نگر میں گاڑیاں دودھ سے چلتی تھیں اور الٹ نگر کے لوگ پیٹرول پی کر خوش ہوتے تھے۔ سیدھ نگر میں گاڑیاں سڑکوں پر اور لوگ فٹ پاتھوں پر چلتے تھے مگر الٹ نگر میں سب کچھ الٹا تھا گاڑیاں فٹ پاتھوں پر فرآٹے بھرتی تھیں اور سڑکوں پر پیدل چلنے والوں کا راستہ تھا۔ الٹ نگر میں گاڑی آہستہ چلانے پر چالان ہو جاتا ہے حالانکہ سیدھ نگر میںگاڑی تیز چلانے پر چالان ہوتا ہے۔ الٹ نگر میں جو گاڑی سب سے زیادہ حادثات کا ریکارڈ بنائےاور جگہ جگہ حادثات کرے اسے ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا جاتا ہے ۔سیدھ نگر کے لوگ عقل سے کام لیتے ہیں اور اسکو جذبات سے بہتر قرار دیتے ہیں مگر الٹ نگر میں جذبات کی حکمرانی ہے جو جتنا جذباتی ہو اس کی اتنی ہی عزت اور توقیر کی جاتی ہے، عقل کی مذمت پر ایک خصوصی دن منایا جاتا ہے جس میں ہر سال یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ آج کی دنیا کی سب برائیوں کی جڑ عقل ہے عقل نہ ہوتی تو انسان جذبات کی وجہ سے برائی کو دنیا سے نکال چکا ہوتا۔ امن کی وجہ سے ہی دنیا میں برائی موجود ہے الٹ نگر کا قومی کھیل لڑائی جھگڑا ہے، ریاست اس قومی کھیل کے فروغ کے لیے گاہے گاہے اشتہاری مہم چلاتی ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ آج کے انسان کی ترقی کی وجہ جنگیں اور لڑائیاںہیں۔ شہر میں جگہ جگہ پرانے سپین اور روم کی طرح کے اسٹیڈیم ہیں سپین میں جس طرح مینڈھے سے لڑائی کے دوران ڈھول تاشے خوشی کا اعلان کرتے ہیں یہاں بھی ہر لڑائی جھگڑے کو انتہائی شوق اور انہماک سے دیکھا جاتا ہے کس نے گھونسہ کیسے مارا اور کس کا سر کیسے پھٹا۔ کتنا خون بہا اور کون کتنا زخمی ہوا۔ اس پر کرکٹ کی طرح کے ماہرین تبصرہ نگار ہیں جو لاکھوں تنخواہ پاتے ہیں۔ یہ ماہرین اینکرز لڑائی جھگڑوںاور ڈوئلز کی اس قدر خوبصورت رننگ کمنٹری کرتے ہیں کہ پورے شہر کے ہر ہر شخص میں لڑائی کا جذبہ فزوںتر ہو جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں 70سال سے اوپرسر خ سبز بوڑھوں کی لڑائی کا شاندار مقابلہ ہوا جس کا آغاز طعنوں الزامات، گالیوں اور پھر عوام کے مخالفانہ نعروں سے ہوا جب مجمع پوری طرح بھڑک اٹھا تو بوڑھے پہلوان برسرپیکار ہوئے ایک سبز بوڑھا جب گھونسہ مارتا تو میدان میں ایک طرف ڈھول رقص اور جذباتی نعرے شروع ہو جاتے، جب سرخ بوڑھا جوڈو کا وار کرتا تو ہجوم کی دوسری طرف ڈھول اورتاشےبجتے۔ میچ برابری پر ختم ہو گیا کیونکہ راجہ نے دونوں بوڑھوں کو فاؤل کھیلنے پر رِنگ سے باہر نکال دیا۔ شہر اس میچ سے اس قدر لطف اندوز ہوا کہ اخبارات کے خصوصی ایڈیشن نکالے گئے، عام تعطیل کا اعلان کر دیا گیا اور یوں جیتنے والوں، ہارنے والوں اور راجہ ایمپائر سب کو آرام کا موقع مل گیا۔
الٹ نگر اور سیدھ نگر میں فاصلہ تو چند کلومیٹر کا ہے مگر نظامِ فکر اور طریقِ کار میں شدید فرق ہے ۔سیدھ نگر میں چوری، ڈکیتی، اسمگلنگ اور رشوت ستانی کے خلاف قوانین ہیں مگر الٹ نگر میں قانون، آئین اور اصولوں کی پیروی جرم ہے۔ یہاں چوری کی اجازت ہے، ڈکیتی ہر وہ شخص کر سکتا ہے جس میں جرأت اور بہادری ہوکہ یہ کمزوروں کا کام نہیں ،اس میں زندگی کا رسک ہے۔ اسلئے الٹ نگر میں چوروں سے کہیں زیادہ ڈاکوؤں کا رتبہ ہے اسمگلنگ کو جائز اور حلال سمجھا جاتا ہے اسے کاروبار کا مبارک نام دیا گیا ہے۔ الٹ نگر کی معیشت میں اسمگلنگ کا حصہ سب سے زیادہ ہے، رشوت ستانی اور بخشش ایک فرض ہے جسے ریاست کے تمام ملازم ثو اب سمجھ کر پورا کرتے ہیں ۔سیدھ نگر میں انتخابات منشور کی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں جبکہ الٹ نگر میں انتخابات طاقت کی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں جو طاقتور ہوتا ہے یا جس کے ساتھ طاقت ہوتی ہے وہ جیت جاتا ہے۔ اگر سیدھ نگر اور الٹ نگر کی معیشت کا تقابل کیا جائے تو الٹ نگر اسمگلنگ کی وجہ سے تیز ترین ترقی کر رہا ہے طاقتوروں کے اقتدار کی وجہ سے منٹوں میں فیصلے ہو جاتے ہیں جبکہ سیدھ نگر میں عقل ہر کام میں آڑے آتی رہتی ہے دلائل اور مباحث پر سارا وقت ضائع ہو جاتا ہے اسی لئے سیدھ نگر میں ترقی نہیں ہو پاتی۔ الٹ نگر پلک جھپکتے ترمیم کرکے ہر طرح کی بحرانی صورتحال کا خوبصورتی اور کامیابی سے مقابلہ کرلیتا ہے جبکہ سیدھ نگر میں برسوں مباحث چلتے ہیں اور کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔
سیدھ نگر اور الٹ نگر میں ٹیکس کے دو متضاد نظام رائج ہیں ۔سیدھ نگر میں تاجروں سے زیادہ اور تنخواہ داروں سے کم ٹیکس لیا جاتا ہے مگر الٹ نگرنے تنخواہ داروںسے زیادہ ٹیکس لینےاور تاجروں سے اغماض برتنےکی خوبصورت اور کامیاب پالیسی بنا رکھی ہے۔ سیدھ نگر میں آئے روز تاجر ہڑتال پر رہتے ہیں حکومت ان سے مذاکرات کر کے انہیںراضی رکھتی ہے ۔ الٹ نگر کے تنخواہ دار نہ بول سکتے ہیں نہ بولنے کے قابل ہیں ان پر جتنا بھی ٹیکس لگا دیا جائے ان کی کونسی آواز ہے جو سنی جائے وہ گونگے اور الٹ نگر کی حکومت اس حوالے سے بہری ہے الٹ نگرکو ٹیکس پالیسیوں میں بڑی کامیابیاں ملی ہیں تنخواہ داروں کی چیخیں نکل رہی ہیں اور الٹ نگر کے شکرے اپنے شکار کوپنجے میں تڑپتا دیکھ کر قہقہے لگا رہے ہیں ۔
غیر ملکی سیاح سیدھ نگر اور الٹ نگر دونوں کا اکٹھے وزٹ کرتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں کہ دو پڑوسی ممالک کس طرح متضاد اور مخالف طور طریقوں پر اپنا نظام چلا رہے ہیں ؟ الٹ نگر کے راجہ سے ایک بار غیر ملکی سیاح نے پوچھا یہاں ہر چیز الٹ کیوں ہے ؟ تو راجہ نے اطمینان بھرے لہجے میں جواب دیا ’’کام سیدھی انگلیوں سے نکلے یا ٹیڑھی اور الٹی انگلیوں سے،بس کام نکلنا چاہئےہم نظام کو کامیابی سے چلا رہے ہیں یہی اصل بات ہے ‘‘اور پھر راجہ نے یہ تاریخی فقرہ کہا ’’ ذرائع کو چھوڑیں طریق کار سے کیا غرض؟ نتائج اہم ہیں۔ہم الٹے طریقے سے ہی سہی مثبت نتائج تک پہنچ جائیں گے‘‘۔