• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب اس سال چھ ماہ تک بارشیں اسلام آباد سے روٹھی رہیں تو وہی پارک، جو ہمیشہ ہرے بھرے اور تروتازہ دکھائی دیتے تھے، دھول سے اَٹ گئےاور ہر طرف ایک اجاڑ سی ویرانی محسوس ہونے لگی۔ تب یہ غلط فہمی دور ہوئی کہ اسلام آباد کی شادابی کسی ادارے کی رہین ِ منت نہیں، محض قدرت کی فیاضی ہے۔کراچی کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے، جہاں بارشیں شاذ ہی ہوتی ہیں اور جب کھل کر برس جائیں تو پورا شہر پانی میں ڈوب جاتا ہے۔ یوں قدرت کی نعمت لمحوں میں عذاب کا روپ دھار لیتی ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کراچی کی سڑکوں کا حال قابلِ رحم ہے، شہر کا بیشتر انفراسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ اور گندگی کی نذر ہو چکا ہے۔ مین شاہراہیں ادھڑی پڑی ہیں جن پر روزانہ لاکھوں گاڑیاں رواں رہتی ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی سڑک کھود دی جاتی ہے اور پھر مہینوں، بلکہ کئی سال گزر جاتے ہیں مگر مرمت کا نام نہیں لیا جاتا، اور عوام بے چارے اذیت کا بوجھ اٹھائے انہی رستوں پر گامزن رہتے ہیں ـ جس شہر کے قدموں میں سمندر بچھا ہو، جسکی بانہوں میں بندرگاہ سمائی ہو، جہاں دو دریا اپنی موجوں کے ساتھ زندگی کا سرگم سناتے ہوں ـ جہاں سے ملک کا ستر فیصد ٹیکس حاصل ہوتا ہو اُس شہر کی خستہ حالی دیکھ کر دل میں احساسِ افسوس کے سوا آخر کیا ہو سکتا ہے؟ایک زمانہ تھا جب کراچی آنے والا اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتا تھا۔ مگر اسّی کی دہائی کے لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات نے اس شہر کا چہرہ بری طرح مسخ کر دیا۔ اسکے باوجود، آج بھی اگر پاکستان میں واقعی کوئی کوسموپولیٹن شہرہے تو وہ صرف کراچی ہے۔

چند ہفتے پہلے اداکارہ صبا قمر نے کراچی کے بارے میں کچھ تلخ بات کہہ دی۔ وہاں نہ رہنے کے باوجود، سچ پوچھیے تو دل کو ایک عجیب سا دھچکا لگا۔ آخر کراچی وہی شہر ہے جس نے ہر طبقے، ہر نسل اور ہر قومیت کے لوگوں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا ، اور سب کو اپنی وسعتِ ظرف میں سمیٹا، ـ کون سی قوم ہے جو کراچی میں نہیں بستی؟ اور کون سا دوسرا شہر ہے جہاں ایسی رنگا رنگ ثقافتی اور نسلی تنوع کی جھلک دکھائی دیتی ہے؟ سوائے کراچی کے ،کہیں نہیں۔ تین ہفتے کے قیام نے اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی کہ دگرگوں حالات کے باوجود پاکستان کے دیگر خطوں کے بے شمار لوگوں کا روزگار ابھی تک اسی شہر کے سہارے چل رہا ہے۔کراچی کی ایک اور خوبی اسکی فنونِ لطیفہ سے وابستہ سرگرمیوں کا وہ مسلسل اور بے پایاں سلسلہ ہے جو شہر کو ہر دم رواں رکھتا ہے۔ انہی سرگرمیوں میں آرٹس کونسل کراچی ایک نمایاں اور معتبر مقام رکھتا ہے جسے اس مقام تک پہنچانے کا سہرا آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ اور انکی ٹیم کے سر ہے ۔

حکومت سندھ بھی ایسی ثقافتی سرگرمیوں کو نہ صرف کھلے دل سے خوش آمدید کہتی ہے بلکہ فنڈز بھی مہیا کرتی ہے ـ آج کل کراچی آرٹس کونسل میں جنگ اور جیو کے تعاون سے’’ورلڈ کلچرل فیسٹیول‘‘جاری ہے، جس میں دنیا کے ایک سو چالیس ممالک سے آئے ہوئے فنکار، گروہ حصہ لے رہے ہیں۔ دن بھر گہماگہمی، اور رات کو دن کی طرح روشن محفلیں۔ ـ کہیں کوئی گا رہا ہے، کہیں تھیٹر ہو رہا ہے، کہیں سرکس کی دھنک بکھری ہے، تو کہیں رقص کے رنگ۔اطراف میں لطف اندوز ہوتے غیر ملکیوں کو دیکھ کر یہ احساس اور بھی گہرا ہوا کہ جہاں دوسرے شہروں میں اس طرح کے باوقار اور باقاعدہ ثقافتی پروگراموں کا ایک عجیب سا قحط ہے وہاں فن و ثقافت کے فروغ کی ذمہ داری صرف کراچی نے اٹھائی ہوئی ہے۔کراچی کے موسم کو مدنظر رکھتے ہوئے ان چار ماہ میں مختلف نوعیت کی سیاسی، ثقافتی اور سماجی تقریبات کا عروج رہتا ہے ـ کراچی کی آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق تین کروڑ تک پہنچ چکی ہے، اور جب آبادی اس حد تک بڑھ جائے تو کوئی بھی شہر بے ہنگم، بے ربط اور مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کا حل نئی سڑکیں بنانے ، پل کھڑے کرنے کے ساتھ شہری منصوبہ بندی، اچھے نظم و نسق اور سماجی رویّوں کی اصلاح میں بھی ہے۔ کراچی کیلئے سب سے اہم کام یہ ہے کہ، لوکل گورنمنٹ کاقیام عمل میں لایا جائے اور اسکو مکمل اختیارات، بجٹ اور عملہ دیا جائے۔میونسپل سروسز ،صفائی، پانی، سیوریج، اسٹریٹ لائٹس ،مرکزی حکومت کی نہیں، مقامی حکومت کی ذمہ داری ہو۔ہر ضلع اور ہر ٹاؤن اپنی کارکردگی کا خود ذمہ دار ہو۔شہر کی توسیع کو مزید بے قاعدہ ہونے سے بچایا جائے ـرہائشی، تجارتی اور صنعتی علاقوں کی واضح حدبندی کی جائے، ـغیر قانونی آبادیاں، تجاوزات اور بے ہنگم تعمیرات پر سختی سے پابندی لگانی چاہیے ـبڑے شہر اسی وقت منظم ہوتے ہیں جب عوام قابلِ اعتماد اور تیز رفتار پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں۔

پبلک ٹرانسپورٹ کا جال ہر علاقے تک پہنچے۔نجی گاڑیوں پر انحصار کم کیا جائے تاکہ سڑکوں پر دباؤ کم ہو۔مرکزی شہر کے اردگرد نئے، منصوبہ بند شہر آباد کیے جائیں۔وہاں روزگار، صنعت، یونیورسٹیاں اور دفاتر منتقل کیے جائیں۔ یوں لوگوں کی ہجرت کم ہوتی ہے اور مرکزی شہر پر دباؤ نہیں بڑھتا۔شہروں کے بگڑنے کی ایک بڑی وجہ شہریوں کے رویّے بھی ہیں۔کچرا پھینکنے، تجاوزات اور قوانین توڑنے کے خلاف سختی اور تعلیم دونوں ساتھ چلیں۔شہریوں میں احساسِ ملکیت پیدا ہو کہ شہر انہی کا ہے۔ ٹیکس کلچر، صفائی اور ماحول دوستی کو عام کیا جائے ـکراچی تبھی قابلِ رہائش ہوگا جب:نکاسیِ آب کا مستقل اور سائنسی نظام بنایا جائے۔ پانی کی فراہمی بہتر ہو اور لائنوں کی چوری بند ہو۔ سڑکوں کی مرمت مستقل بنیادوں پر ہو، نہ کہ عارضی’’پینٹ اور پیچ‘‘ کے ذریعے۔ ـکراچی کے بے پناہ مسائل کا حل ناممکن نہیں۔بااختیار مقامی حکومت، مضبوط شہری منصوبہ بندی، موثر پبلک ٹرانسپورٹ اور شہری شعور ـیہ چار ستون ہوں تو تین کروڑ کی آبادی والا کراچی بھی دنیا کے بڑے شہروں جیسا منظم، رواں اور قابلِ رہائش بن سکتا ہے۔

تازہ ترین