قارئین !جنوبی ایشیا کی سیاست اور امن کا سب سے بڑا امتحان پاک بھارت تعلقات ہیں۔ سات دہائیوں سے زائد عرصے میں یہ رشتہ کبھی مکمل اعتماد کا نہ بن سکا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارت کی دہشتگردانہ پالیسیوں نے اسے مزید خراب کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ پاکستان روز اول سے بھارتی ریاستی دہشتگردی، سرحد پار حملوں، جاسوسی نیٹ ورکس اور پراکسی جنگوں کا شکار رہا ہے۔ کشمیرسے لے کر بلوچستان تک، بھارت نے کبھی براہ راست فوجی جارحیت کی اورکبھی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے دہشتگردوں کو ہتھیار، تربیت اور مالی امداد فراہم کی۔ عالمی اداروں اور آزاد تحقیقاتی رپورٹوں میں بار ہا ثبوت سامنے آچکے ہیں کہ بھارت نے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشتگردی کی فیکٹری بنا رکھا ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی ،بلوچستان لبریشن آرمی اور دیگر گروپوں کو ’را‘نے کھلے عام پناہ، تربیت اور فنڈنگ دی۔ یہ وہی بھارت ہے جو ایک طرف عالمی برادری کو دہشتگردی کے خلاف جنگ کا سبق پڑھاتا ہے اور دوسری طرف خود سب سے بڑار یاستی دہشت گرد بن کر ابھرتا ہے۔ کلبھوشن یادیوکی گرفتاری اور اس کے اعترافات نے بھارت کے چہرے سے پر امن ملک کا نقاب نوچ کر پھینک دیا ہے۔ پاکستان نے 78 سال سے یہ سلسلہ برداشت کیا، صبر کا دامن تھاما، مگر جب پانی سر سے گزرا تو قوم اور فوج نے ایک آواز ہو کر جواب دیا۔ آپریشن بنیان مرصوص وہ تاریخی لمحہ تھا جب پاکستان نے نہ صرف بھارتی جارحیت کو نا کام بنایا بلکہ دنیا کو دکھا دیا کہ دفاع وطن کیلئے پاک فوج کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح پاک فضائیہ نے لمحوں میں دشمن کے جنگی طیارے مار گرائے، کس طرح سرحد پر بیٹھے سپاہیوں نے اپنے خون سے وطن کی مٹی کو سیراب کیا۔ وہ جواب اتنا واضح اور دو ٹوک تھا کہ آج بھی بھارتی اسٹیبلشمنٹ اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکی، جسکی داستان امریکی صدر روزانہ سنا رہا ہے، مگر مودی حکومت اپنی شیطانی فطرت سے باز نہیں آرہی۔ کشمیر میں حالیہ دھما کے، دہلی میں فالس فلیگ آپریشنز، اور سرحد پر مسلسل اشتعال انگیزیاں بتاتی ہیں کہ نئی دہلی ایک بار پھر وہی پرانا کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔ پاکستان بار بار خبردار کر چکا ہے کہ اگر ایک اور جارحانہ قدم اٹھایا گیا تو جواب پہلے سے کہیں زیادہ شدید اور تباہ کن ہوگا۔ پاک فوج کے سر براہ پہلے ہی دنیا کو باور کرواچکے ہیں کہ وطن کا دفاع ہو یا استحکام، اگرخطرہ لاحق ہوا تو ہم آدھی دنیا کو بھی اپنے ساتھ لے جانے سے گریز نہیں کریں گے۔ بھارت کی ریاستی دہشتگردی اب صرف پاکستان تک محدود نہیں رہی۔ سری لنکا، نیپال، مالدیپ، بنگلہ دیش اور حتیٰ کہ نیوزی لینڈ تک میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے گھناؤنے کھیل سامنے آچکے ہیں۔ کینیڈا میں خالصتان تحریک کے رہنماؤں کا قتل، آسٹریلیا میں سکھ کا رکنوں پر حملے اور امریکہ میں گرودواروں کی جاسوسی، یہ سب مودی کے فسطائی ایجنڈے کی کھلی داستا نیں ہیں۔ عالمی برادری اب خاموش تماشائی بننے کے بجائے ذمہ داری نبھائے۔ بھارت کو لگام نہ دی گئی توخطے کی تباہی کا ذمہ دار صرف اور صرف بھارت ہوگا۔ پاکستان امن چاہتا ہے، لیکن امن کمزوری کا دوسرا نام نہیں۔ عالمی برادری کو جان لینا چاہئے کہ پاکستان نے ہر بار صبر سے کام لیا، لیکن اب صبر کی آخری حد پار ہو چکی۔ ہمارے پاس نہ صرف روایتی طاقت ہے بلکہ ایٹمی صلاحیت بھی ہے جو کسی بھی جارحیت کو خاکستر کر سکتی ہے۔ اگر مودی نے ایک اور پاگل پن کیا تو نہ صرف دہلی جلے گا بلکہ پوری دنیا کو اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔
دوسری جانب اردن کے شاہ عبداللہ دوئم کا پاکستان کا دورہ دونوں ممالک کے دیرینہ تعلقات،باہمی اعتماداور امن و ترقی کے مشترکہ مقصد کی عکاسی کرتا ہے۔پاکستان اور اردن کے مابین ویسے بھی تاریخی تعلقات ہیں لیکن شاہ عبداللہ دوم کے حالیہ دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان مزید قربت کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ دونوں ملکوں کا باہمی تعاون جہاں ان دونوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہوگا وہیں اس اتحاد سے مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے راستہ ہموار ہوتا بھی دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان اور اردن کی طرف سے اہم شخصیات کو جو اعزازات دئیے گئے ہیں ان سے ان ملکوں کے آپس میں تعلقات کو مزید فروغ ملے گا۔ شاہ عبداللہ دوم کے دو روزہ سرکاری دورے کے موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان جو معاہدے ہوئے ان سے انھیں دفاعی اور معاشی حوالے سے فائدہ پہنچے گا ۔اردن کے فرمانروا نے پاکستان کے دفاعی ادارے گلوبل انڈسٹریل اینڈ ڈیفنس سلوشنز کا دورہ کیا۔ مسلح افواج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، شاہ عبداللہ دوم کے ہمراہ شہزادی سلمیٰ بنت عبداللہ سمیت سول و عسکری حکام کا اعلیٰ سطحی وفد بھی موجود تھا۔ جہاں تک فیلڈ مارشل عاصم منیر کی طرف سے پاکستان کے دفاع کے ضمن میں دئیے گئے بیان کا تعلق ہے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی افواج ملک کے دفاع کیلئے پوری طرح تیار ہیں اور ہمارا ازلی دشمن بھارت رواں برس مئی کے مہینے میں ہمیں آزما کر دیکھ چکا ہے اور اس کو پاکستان کی طرف سے جو بھرپور اور مسکت جواب دیا گیا اس نے پوری دنیا پر بھی یہ بات واضح کر دی ہے کہ پاکستان کی افواج اپنے ملک کے دفاع کیلئے کس حد تک جا سکتی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مئی سے لے کر اب تک جو پاکستان کے گْن گا رہے ہیں اس کے پیچھے بھی ہماری مسلح افواج کی اسی بے مثال کارکردگی کا دخل ہے۔ بھارت اور اس کی پراکسیز کیلئے پاکستان کی طرف سے دو ٹوک جواب یہی ہے کہ اگر وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے کوئی اقدام کریں گے تو ہماری افواج جوابی کارروائی کے طور پر ان کے ایڈونچرز کو ایسے مس ایڈونچرز میں تبدیل کر دیں گی کہ پھر عرصہ دراز تک وہ اپنے زخم چاٹتے رہیں گے۔