• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

گزشتہ ہفتے ہم این سی اے کے حوالے سے بات کر رہے تھے آج کل این سی اے میں ٹرائینالے کے 2025 کسبِ کمال کن کی رنگا رنگ تقریبات جاری ہیں۔ پرانے سازوں سارنگی اور ستار کے بڑے خوبصورت شوز ہو چکے ہیں۔ فنون لطیفہ پر بڑی معلوماتی ورکشاپس اور معلوماتی لیکچرز کا سلسلہ جاری ہے پورے ملک کے کسی ادارے نےآج تک اتنی تقریبات کا اہتمام نہیں کیا جیسے نیشنل کالج آف آرٹس نے اپنی 150 ویں تقریبات منانے کا سلسلہ شروع کیا۔ خیر پچھلے کالم کے حوالے سےبات کو آگے بڑھاتے ہیں میو ا سکول آف آرٹس کے ذمہ پنجاب میں دیگر دستکاری کے اداروں کی نگرانی بھی شامل تھی ہم سمجھتے ہیں آج اس تعلیمی ادارے کی نگرانی میں پنجاب میں گھریلو صنعت اور دستکاری کے اداروں کی نگرانی شامل ہونی چاہیے اس کالج میں اساتذہ جس سطح کا کام کراتے ہیں وہ واقعی بین الاقوامی معیار کا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل اور خصوصاً انگریزوں کے دور میں استاد بشیر احمد نے اس ادارے میںمنی ایچر میں بہت کام کیا ان کے ہزاروں ا سٹوڈنٹس آج اس فن کو آگے بڑھا رہے ہیں عبدالرحمن چغتائی نے بھی منی ایچر بنائی مگر ان کا اپنا ایک علیحدہ انداز تھا جس کو چغتائی آرٹ بھی کہا جاتا ہے وہ استاد بشیر احمد کے منی ایچرکے انداز سے مختلف تھا۔ بھائی رام سنگھ پہلے ہندوستانی تھے جو پہلے اس تعلیمی ادارے کے وائس پرنسپل اور پھر پرنسپل بنے وہ ایک ماہر ڈیزائنر اور کاریگر تھے۔ بھائی رام سنگھ نے بھی لاہور میں کئی خوبصورت عمارات تعمیر کیں۔ این سی اے کےآرکائیومیں سرگنگا رام کے دستخط محفوظ ہیں ۔آج سے کئی برس قبل جب سر گنگا رام کی پڑپوتی این سی اے آئیں تو اپنے پڑدادا کے دستخط دیکھ کر جذبات پر قابو نہ پا سکیں اور رو پڑی تھیں ۔یہ وہ ادارہ ہے جو کئی سماجی اور معاشرتی مخالفتوں کے باوجود اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے اور اب لوگوں کو احساس ہو رہا ہے کہ یہ تمام ادارے کس طرح بین الاقوامی طور پر ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں۔ لاہور میں لوگوں کو این سی اے کے ڈگری شو کا انتظار رہتا ہے اور یقین کریں ادھر ڈگری شو ہوا ادھر شو میں رکھے گئے سارے فن پارے ،تخلیقات، شاہکار ،پینٹنگز سرامکس اور دیگر بنائی گئی اشیاء ہاتھوں ہا تھ فروخت ہو جاتی ہیں۔ اس سے ایک تو ا سٹوڈنٹس کو فائدہ ہوتا ہے تو دوسری طرف کالج کو بھی اس میں کچھ شیئر مل جاتا ہے کبھی ہوم اکنامکس کالج کی طالبات بھی اپنے تھیسز ورک کی نمائش کیا کرتی تھیں پھر ایک ایسی وائس چانسلرآئیں جنہوں نے ہو م اکنامکس کا مضمون انتہائی محدود کر دیا ،میوزک کا سبجیکٹ توختم ہی کر دیا ۔ ہوم اکنامکس کالج جب تک یونیورسٹی نہیں بنا تھا اس کالج کی تعلیم و تربیت کا چرچا پورے ملک میں تھا اب تو یونیورسٹی بنا کر اس تاریخی کالج کے قدیم تشخص کو ہی ختم کر دیا گیا ہے حالانکہ ہوم اکنامکس کے اندر بے شمار ایسے مضامین ہیں جن میں اسپیشلائز یشن کر کے طالبات اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی تھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں بے شمار یہاں کی گریجویٹس نے اپنے کاروبار شروع کیے۔ افسوس ایک سابق وائس چانسلر نےاس ادارے کا ستیاناس مار دیا اور اب یہ ایک عام یونیورسٹی بن چکی ہے حالانکہ ملک میںتین ہوم اکنامکس کالج ابھی کام کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر تعلیم رانا سکندر حیات دلچسپی لے کر ہوم اکنامکس یونیورسٹی میں اس حوالے سے وہ تمام مضامین دوبارہ شروع کرائیں جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ کبھی عجائب گھر بھی این سی اے کے کنٹرول میںتھا ،اگر دیکھا جائے تو عجائب گھر این سی اے کے ساتھ ہی منسلک رہنا چاہیے کیونکہ عجائب گھر میں فنون لطیفہ اور دیگر نوادرات موجود ہیں جن کا تعلق آرٹ سے ہے چنانچہ حکومت کو عجائب گھر این سی اے کے حوالے کر دینا چاہیے۔ چند برس قبل ٹولنٹن مارکیٹ کو این سی اے کے حوالے کر کے حکومت نے ایک احسن فیصلہ کیا ۔ٹولنٹن ما رکیٹ کے بارے میں بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ پہلا عجائب گھر اسی مارکیٹ میں قائم کیا گیا تھا کسی زمانے میں اس مارکیٹ کا نام میونسپل مارکیٹ تھا اور ٹولنٹن مارکیٹ سے بینڈ اسٹینڈ گارڈن (گول باغ کا پرانا نام اور موجودہ ناصر باغ) تک جو سڑک جاتی ہے اس کو نمائش روڈ ( Exhibition Road)بھی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گوروں نے جو سب سے پہلے انڈسٹریل آرٹ نمائش کی تھی اس نمائش کو بہت پسند کیا گیا ویسے ہمارے بعض لاہوریوں کو یاد ہوگا کہ 1965 تک لاہور کے منٹو پارک میں ایک آل انڈیا نمائش بھی ہوا کرتی تھی اس نمائش میں 1963 میں پہلی مرتبہ لاہوریوں کو ٹیلی ویژن کا مظاہرہ دکھایا گیا تھا بہت سارے لاہوریے اس نمائش میں قائم اسٹوڈیو میں داخل ہوئے اورا سٹوڈیو کے باہر ایک اونچا سا ٹیلی ویژن سیٹ رکھا ہوا تھا جیسے پٹرول پمپ میں فیول بھرنے والی مشین ہو اس نمائش میںاوپل کار انعام میں یعنی لکی ڈرا میں بھی لوگو ںکو ملتی تھی۔ اونچے جھولے اور مختلف کھیل تماشے ہوتے تھے۔اوپل کار اپنے زمانے کی بڑی خوبصورت موٹر کار تھی جو گلابی اور سفید دو رنگوں میں آیا کرتی تھی۔ لاہور میںشاید ہی کوئی خاندان ہو جو یہ نمائش دیکھنے نہ جاتا ہو۔ لاہور کے سینما گھروں میں 1965 کی جنگ ستمبر تک بھارتی فلمیں دکھائی جاتی تھیں لاہور کے تاریخی اور قدیم سینما رتن میں دلیپ کمار کی فلم ’آن ‘کئی ہفتے چلی تھی۔ اسی طرح ایک فلم ’بارہ دری‘ جس میں طلعت محمود کا گایا ہوا یہ گانا شامل تھا’تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی ‘بہت عرصہ چلی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک بھارتی فلم کو اجازت ملی تھی جس میں مختار شیخ ولن تھے جن کے چہرے پر ماتا (چیچک )کے داغ تھے اپنی بھیانک شکل کی وجہ سے وہ بھارتی فلموں میں ولن آتے تھے۔ ایک زمانے میں لاہور میں چیچک (ماتا )کے چہرے والے کئی لوگ نظر آتے تھے اس مرض میں چہرے پر گڑھے پڑ جاتے ہیں جیسے فلم اسٹار اوم پوری کے چہرے پر تھے پھر چیچک کی ویکسین ا سکولوں میں لگائی گئی جسےبھنبھیری والا ٹیکہ کہا جاتا تھا۔آج وہ لوگ جن کی عمریں 50 سال اور 100 برس کے درمیان ہیں ان مرد اور خواتین کے بازوئوں پر آج بھی بھنبھیری والے ٹیکے کے نشان موجود ہیں۔ یہ ٹیکے لاہور کارپوریشن اور کمیٹی کی ڈسپنسریوں میں جا کر لگوانے پڑتے تھے ۔(جاری ہے)

تازہ ترین