وفاقی دار الحکومت اسلام آباد کی شاہراہ مری جو سرینگر پر جا کر ختم ہوتی ہے پر ایک مارکی میں الخدمت فائونڈیشن نے سرزمین انبیا کے پھولوں کے اعزاز میں ایک پر تکلف عشائیہ کا اہتمام کر رکھا تھا ہر طرف ان پھولوں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی جسے الخدمت فائونڈیشن اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بننے سے بچاکرپاکستان لے آئی۔
یہ تمام طلبہ و طالبات ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج میں پیشہ طب کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں انکے اعزاز میں منعقد ہونے والی تقریب کا عنوان ’’غزہ کی تعمیر نو‘‘ رکھا گیا تھا جسکا مقصد پاکستان کے دانشوروں اور صاحب ثروت افراد کو الخدمت فائونڈیشن کی طرف سے ’’غزہ کی تعمیر نو ‘‘ کے سلسلے میں اہداف سے آگاہ کرنا تھا۔
تقریب کےمہمان خصوصی پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے فلسطین نیشنل کونسل کے اسپیکر راوہی فتح تھے تقریب میں شام کے سفیر اور نامور شاعر انور مسعود فلسطینی طلبہ و طالبات سے اظہار یک جہتی کیلئے موجود تھے انور مسعود کی پیرانہ سالی کے باوجودتقریب میں موجودگی اس بات کا اظہار تھا کہ انہیں مسئلہ فلسطین سے کس حد تک دلچسپی ہے ۔ پنڈال میں ہر سوانبیاء کی سرزمین کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔زمانہ طالبعلمی میں فلسطینی طالبعلم بھی میرے ہم جماعت تھے آج نصف صدی بعد اتنی بڑی تعداد میںفلسطینی طلبہ و طالبات کو ایک جگہ دیکھنے کا موقع ملا ، دل خوش ہو گیا ۔ یہ وہ طلبہ طالبات تھے جنکے والدین ، بہن بھائی اور عزیز واقارب دو سال قبل اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن چکے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن ان پھولوں کو بکھرنے سے بچا کر پاکستان لے آئی ہے جہاں کوئی ڈاکٹر بنے گا اور کوئی انجینئر۔ پاکستانی شرکاء کی فلسطین سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب مقررین فلسطین اور غزہ کے مظلومین کا ذکر کرتے توشرکاء کی جانب سے پرجوش رسپانس آتا۔
فلسطین کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے اس سرزمین پر سب سے زیادہ انبیاء نے جنم لیا اور اسی سرزمین میں مدفن ہیں ۔یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کیلئے بیت المقدس یکساں قابل احترام ہے لیکن ’’اعلان بالفور‘‘ کے تحت برطانیہ نے فلسطین کی سرزمین پریہودیوں کیلئے اسرائیل نامی ایک ناجائز ریاست بنائی جسے قائد اعظم نے تسلیم نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ ہم نے بھی اسے تسلیم نہیں کیا ۔برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے عربوں کے سینے پر مونگ دلنےکیلئے ایک یہودی ریاست بنادی ۔بالفوراعلامیہ سادہ کاغذ پر لکھے67الفاظ پر مشتمل ہے جس نے مشرق وسطیٰ کا نقشہ و تاریخ تبدیل کر دیا ۔ یہ معاہدہ سرزمین فلسطین میں یہودیوں کو آباد کرنے کے مکروہ عمل کا آغاز تھا۔ارض فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن قرار دیا گیا اور فلسطینیوں پر یہود کی شکل میں ایک عذاب مسلط کر دیا گیا۔ اسرائیل نے عالمی استعمار کی مدد سے جہاںپوری دنیا سے یہودیوں کو یہاں لا کر آباد کیا وہاں اس سرزمین کے اصل وارثوں کو نکال کر یہودی ریاست کی بنیاد رکھی جسے امریکہ ، برطانیہ سمیت ،مغربی ممالک کی پشت پناہی حاصل ہے ۔نصف صدی کے دوران اسرائیل نے اپنی ریاست کو محفوظ بنانےاور وسعت دینے کیلئےاردن،شام ، فلسطین اور مصر کی اراضی پر قبضہ کر لیا ۔ فلسطین اتھارٹی تو قائم ہو گئی لیکن فلسطین کی آزاد و خود مختار ریاست قائم نہ ہونے دی گئی ۔غزہ کی پٹی پر حماس کی حکمرانی ہے ۔7اکتوبر 2023ء کو حماس کی جرات مندانہ کارروائی نے اسرائیل کے ناقابل شکست ریاست کے تصور کو پاش پاش کردیا جس پر اسرائیل نےاپنے شدید ردعمل میںغزہ کو تباہ و برباد کر دیا۔66ہزار سے زائد فلسطینی ،جن میں 20ہزاربچے شامل ہیں ،کو شہید کر دیا گیا جبکہ زخمی اور اپاہج ہونیوالوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے اسرائیل کی اس وحشیانہ کارروائی کے خلاف پوری دنیا نے احتجاج کیا لیکن کسی مسلمان ملک کو اسرائیل کا ہاتھ روکنے کی جرات نہ ہوئی غزہ سےمظلوم فلسطینیوں کی آہ بکا پر پوری دنیا سڑکوں پر سراپا احتجاج بن گئی اور اسرائیل کو دنیا کا ایک’’ بدمعاش ملک‘‘ قرار دیا لیکن جن اقوام کے پاس اسرائیل کی بدمعاشی روکنے کی طاقت تھی وہ یہودی استعمار کے دبائوکے سامنے خاموش تماشائی بنی رہیں۔ غزہ میں خوراک کی کمی نے ایک المیے کو جنم دیا جس پر پوری دنیا کی فلاحی تنظیمیں غزہ کے بے آسرالوگوں کی امداد کیلئے میدان میں نکل آئیں ان میں پاکستان کی ایک تنظیم ’’الخدمت فائونڈیشن ‘‘کا نام سب سے نمایاں ہے،جو اب تک غزہ کے متاثرین کی امداد پر 8ارب 10کروڑ خرچ کر چکی ہے ۔ جنگ بندی کے بعد الخدمت فائونڈیشن شارٹ اورلانگ ٹرم دو مراحل کی سرگرمیوں کا آغاز کررہی ہے ’’ری بلڈغزہ‘‘ پروجیکٹس کیلئے ابتدائی طور پر 15ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے ۔فلسطینی پھولوں کی اعلیٰ تعلیم کا پروگرام بھی اس کی ایک کڑی ہے الخدمت فائونڈیشن ڈاکٹر حفیظ الرحمن کی سربراہی میں کام کر رہی ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر حفیظ الرحمن سے کئی برسوں سے دوستی ہےتقریب میں ان سے کافی عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی۔انہوں نے اپنی زندگی الخدمت فائونڈیشن کیلئے وقف کر رکھی ہے ڈاکٹر حفیظ الرحمن پیشے کے لحاظ سے ماہر امراض چشم ہیں اور پشاور میڈیکل کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے راولپنڈی میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا ۔ راولپنڈی میڈیکل کالج نے انکی خدمات کے اعتراف میں میڈیکل کالج کی سلور جوبلی پر ’’بیسٹ ایچویمنٹ ایوارڈ‘‘ دیا ۔وہ فیما کے پہلے بین الا قوامی ریلیف کوآرڈینیٹر اور سیکریٹری جنرل رہے۔ وہ فیما کے ’’بینائی کے محفوظ پروگرام ‘‘ کے بانی ڈائریکٹر بنے اور گزشتہ کئی سال سے دنیا کے 20سے زائد ممالک میں پروگرام کی نگرانی کر رہے ہیں۔
ری بلڈ غزہ پروگرام کے تحت پہلے مرحلے میں غزہ کے ا ندر100ٹن خوراک پہنچانے کے کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ 100 ٹن امدادی سامان پاکستان سے ائیرکارگو کے ذریعے قاہرہ پہنچ چکا ہے 6ہزار خاندانوں کیلئےایک ماہ کا فوڈ پیکیج قاہرہ میں تیار کیا گیا ہے جو آئندہ چند دنوں میں غزہ کیلئے روانہ کر دیا جائے گا۔ مصر میں 100ٹن چاول کی خریداری جاری ہے ۔الخدمت فائونڈیشن کے تحت غزہ میں پینے کے صاف پانی کے 100منصوبے شروع کئے جائیں گے ۔موسم سرما کا آغاز ہو چکا ہے اگلے10دنوںمیں پاکستان سےکمبل ، لحاف اور گرم کپڑوں پر مشتمل سامان دو طیاروں کے ذریعے روانہ کر دیا جائے گا ۔دبئی میں ڈونرز کی معاونت سے ایک ہزار کمبل قاہرہ میں ہی خرید کرغزہ بھجوائے جارہے ہیں ۔اس وقت پاکستان میں غزہ کے 404طلبہ و طالبات اکیڈمک اسکا لر شپ پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کی تعداد ایک ہزار تک بڑھائی جا رہی ہے۔الخدمت فائونڈیشن کے تحت غزہ میں 750یتیموں کی کفالت کی جا رہی ہے جب کہ 100یتیموں کی مصر کے اندر کفالت کی جا رہی ہے جبکہ یہ تعداد 750سے بڑھا کر3ہزارتک کی جارہی ہے۔