• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ضرب المثل کے مطابق سفر وسیلہ ظفر ہے اور اشفاق احمد کا سفر درسفر، جسمانی سفر کیساتھ روحانی اور رومانی تجربات بھی سکھاتا ہے ۔’سیروفی الارض ‘بھی پیش نظر ہے۔ کبھی جاپان میں اوساکا کے پہاڑوں کی وادیوں کے رنگ نظر کوٹھنڈک پہنچاتے ہیں تو کبھی ہنگری بوڈا پوسٹ کے دریا پر آباد تہذیب کئی سبق سکھاتی ہے، کبھی فرانس کے دریائے سین اور پیرس کے عجائب گھروں کے نوادرات سے تاریخ اور شعور کا علم سیکھتے ہیں تو کبھی برسلز اور مانچسٹر میں زندگی کے تلخ وشیریں تجربات سے گزرتے ہیں، کبھی لاہور میں تاریخ سے ہم کلام ہوتے ہیں تو کبھی اسلام آباد میں اقتدار کے اونچے ایوانوں کی جھوٹی شان وشوکت کا نظارہ کرتے ہیں۔ غرض ہر سفر کچھ نہ کچھ سکھاتا ہے سرگوشیاں کرتا ہے، آپ کے دل کو گدگداتا ہے، کئی بارآہ نکلواتا ہے تو کبھی بے اختیار مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے ۔جہاں دریاؤں، پہاڑوں اور جنگلوں کی اپنی زبان ہوتی ہے وہاں ریگستانوں ،روہیوں اور صحراؤں کے بھی اپنے کومل ، مدھم سرہوتےہیں جوصرف دیکھنے، سننے اور محسوس کرنے سے ہی جانے جاسکتے ہیں۔ روہی کا سفر ہو تو خواجہ غلام فرید کیسے یاد نہ آئیں کہ وہ تو روہی اور محبوب کو ایک ہی گردانتے تھے، کہتے ہیں۔

پیرن تھل دا جاننا ، روہی دا راز نہ جانے

جیہڑا روہی رہیندا آوے ،سوہی عشق پچھانے

’’پاؤں تھل کوروشن کرتے ہیں یعنی روہی میں جب تک پاؤں نہیں لگتے آپ کو روشنی نہیں ملتی آپ تھل کا راز نہیں جان سکتے گویا روہی کا راز جاننا ہے تو تھل کی ریت پر چلو۔روہی کا رہنے والا ہی عشق کا بھید پاسکتا ہے‘‘۔ اگر لفظی معنوں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو اسکا مطلب یہ بھی ہے کہ عشق کا راز جاننے کیلئے آپ کو اسی میدان کا شہ سوار ہونا چاہیے۔ سیاست کے مشورے انجینئر سے نہیں سیاست دان سے ہی ہونے چاہئیں اور صحت کے مسائل ڈاکٹر سے طے کرنے چاہئیں ۔نہ کہ کسی باغبان سے۔

روہی تنہائی، اداسی اور ہجر سے عبارت ہے اکثر شعراء صحرا اور تھل میں درد کی آہیں اور کراہیں سنتے ہیں، کونج کی آواز میں بھی ملنے کی پیاس محسوس کی جاتی ہے مگر یہ دیکھنے کا ایک رخ ہے ’’پیلوں پکیاں نی‘‘ دوسرا رخ ہے جس میں وصال اور محبت کی سرشاری دیکھنے کو ملتی ہے انہی ہجروصال اور خوشی وغمی کے ملے جلے جذبات کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے طلباوطالبات نے سرائیکی محفل موسیقی میں پیش کیا بالخصوص روہی کی اصل زبان ولہجہ صحرا کے روایتی سرخ لباس اور اپنے ہی بنائے ہوئے آلات موسیقی کے حامل گلوکاروں نے وہ رنگ باندھا کہ تھل کی ریت کے ذرے بھی رقصاں ہوگئے ہونگے۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے پروفیسر جام سجاد نے محبت کے وہ جام لنڈھائے کہ ریگستان میں نخلستان کا سا رنگ پیدا ہو گیا۔ منڈی بہاؤالدین سے تعلق رکھنے والا آصف نوید رانجھا مجھے تو تخت ہزارےکا دھیدو رانجھا لگا جس نے مدھر بانسری بجا کر نہ صرف ہیرسیال بلکہ دنیا بھر کو آج تک مسحور کر رکھا ہے ۔آصف نوید رانجھا نے اپنی میٹھی زبان کا وہ سر لگایا ہے جو روہی میں سر چڑھ کر بول رہا ہے، نوجوان پروفیسر شہزاد جذبہ جنون سے علم و فضل کو فتح کرنے کے خواہشمندہیں، ڈاکٹر روبینہ خالد نے یونیورسٹی کے ماضی مستقبل اور حال کا پرکشش نقشہ کھینچا ان کا بین الاقوامی ویژن متاثر کن تھا گو شیخ الجامعہ ڈاکٹر کامران سرکاری فرائض کے سلسلے میں اسلام آباد میں تھے مگر ان کی محبت وہیں موجود تھی ہر مقرر اور ہر تقریر میں انکے نام نامی کا ذکر اس بات کی دلالت تھی کہ انہوں نے بہاولپور کی خدمت میں اپنا نام کندہ کروا لیا ہے۔

اسلامیہ یونیورسٹی میں بالخصوص اور سرکاری یونیورسٹیوں میں بالعموم شدید مایوسی محسوس کی جا رہی ہے، یہ سرکاری یونیورسٹیاں غریب اور بے وسیلہ طالب علموں کیلئے جائے پناہ ہیں لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتیں اسکولوں کی فنڈنگ تو کر رہی ہیں مگر انہوں نے اعلیٰ تعلیم کی حمایت سے ہاتھ کھینچ کر بے وسیلہ خاندانوں کو بھی نجی یونیورسٹیوں کی مہنگی فیسوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ معاملہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ یونیورسٹی کے اساتذہ کو کئی کئی ماہ تنخواہ نہیں ملتی ۔ظاہر ہے اس مسئلے کو فوری حل کرنا ضروری ہے میری رائے میں جہاں حکومتوں کو اعلیٰ تعلیم پر فنڈنگ میں خاطر خواہ اضافہ کرنا چاہیے وہاں یونیورسٹیوںکے ڈھانچے میں بھی جدید تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے کوئی بھی پروجیکٹ فیزیبلٹی کے بغیر شروع ہی نہیں کیا جاتا ، یونیورسٹیوں کے اندر جدید منصوبہ سازوں اور بالخصوص فنانشل ایڈوائزر اور پڑھے لکھے آڈیٹرز کی اشد ضرورت ہے فی الحال سرکاری یونیورسٹیوں میں مالی منصوبہ بندی، آمدن کے خرچ پر کنٹرول اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سی ایف او ( چیف مالیاتی افسر) کی تعیناتی کو یقینی بناناچاہئے۔

سرائیکی خطے میں ادب ،تعلیم کی پیاس مرکزی پنجاب سے کہیں بڑھ کر ہے مگر ساتھ ہی ساتھ انہیں سرائیکی شناخت اور اپنی محرومیوں کا دکھ بھی ہے ابھی یہ دکھ زخم نہیں بنے اس لیے خصوصی اقدامات کر کے ان دکھوں کا مداوا ہو سکتا ہے جب محرومیاں زخم بن جائیں تو انکی سرجری کرنی پڑتی ہے یا پھر ان زخموں پر مرہم لگانے کیلئے حد سے زیادہ کوششیں کرنا پڑتی ہیں ۔پنجابی اور سرائیکی فاصلے جتنے کم ہوں گے اتنی ہی ریاست مضبوط ہوگی۔ اگر آئین کے آرٹیکل 140میں ترمیم کر کے مقامی اداروں کو مکمل با اختیار بنا دیا جائے تو مقامی محرومیوں کا فوری خاتمہ ہو سکتا ہے دنیا بھر میں مقامی مسائل کے حل کیلئے مقامی حکومتیں ہی کردار ادا کرتی ہیں۔

تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو دنیا کی سب سے بڑی محرومیاں’ وسائل اور اختیار میں کمی ‘ہیں۔ بلوچستان کا مسئلہ، سندھ کی ناراضی ،سرائیکی خطے میں بے چینی ،خیبر پختونخوا کی اندرونی مذہبی آویزش یا مرکزی پنجاب میں مستقبل کے بارے میں بےیقینی اور مایوسی، سب کے پیچھے یہی دو بڑے ایشوز ہیں۔ صوبے بنانے سے نہ تو وسائل بڑھیںگے اور نہ ہی ایسے اختیارات ملیں گے جو ان خطوں کی تقدیر بدل دیں۔ جنرل مشرف کے دور میں ضلعی حکومتوں نے اس خلا کو پر کرنے کی کامیاب کوشش کی تھی مگر ضلعی حکومتوں میں باصلاحیت افراد ہی موجود نہیں تھے، کسی ضلعی حکومت کے پاس پورے ضلع کی منصوبہ بندی کرنیوالے ٹیکنیکل افسر نہیں تھے، وہ آرکیٹیکٹ نہیں تھے جو ضلعوں کی پرانی اور نئی عمارتوں کے بارے میں پالیسیاں بنا سکیں اور تو اور کوئی ایسا جدید پڑھا لکھا فنانشل ایڈوائزر بھی نہ تھا جو ضلعی حکومتوں کو مشورہ دے سکے کہ آمدن کیسے بڑھانی ہے اور خرچ کیسے کم کرنے ہیں پھر فنانشل ڈسپلن یعنی مالیاتی نظم و نسق کیلئے کوئی مضبوط ڈھانچہ موجود نہ تھا جسکی وجہ سے ہر جگہ سے مالیاتی کرپشن کی شکایات موصول ہوتی رہیں ۔اگر اختیارات کی منتقلی کرنی ہے تو جدید دنیا کے بزنس ماڈل کو مدنظر رکھنا ہوگا جب تک یہ جدید اصلاحات نہیں کی جائینگی اختیارات کی منتقلی بھی بے معنی ہی رہے گی ۔

بہاولپور کے دورے کی اصل وجہ تو تنصیر الحسن ترمذی کی بیٹی ڈاکٹر اسماء کی شادی تھی مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان کسی جگہ پر وہ بھی نوابوں کے بہاولپور جائے اور نوابوں کے آثار سے لطف اندوز نہ ہو کاش پاکستان کے لوگ اپنے ہی ملک کی سیاحت کی عادت ڈالیں ۔بہاولپور کا گلزار محل بکنگھم پیلس یا وائٹ ہاؤس سے کم خوبصورت اور پر شکوہ نہیں بلکہ کچھ زیادہ ہے۔

تازہ ترین