عشاق کا اصرار ہے کہ شہر اقتدارکا موسم تیور بدل رہا ہے۔ وہ جو گلشن سیاست میں بہار کی آمد پر چہک رہے تھے،اب انہیں کوچہ جاناں سے یہ کہہ کر رخصت ہونا پڑئیگا کہ’’ یہ گھر میرا گلشن ہے،گلشن کا خدا حافظ‘‘۔عاشقان ِعمران کو لگتا ہے نکہت ِبادِ بہاری پر بہت جلد خزاں رسیدہ موسم کی سرد ہوائیں غالب آنے کو ہیں اور پت جھڑ کے اس دور میں بہت کچھ بدل جائے گا۔خوش گمانی کے محلات اس خیالِ خام کی بنیادوں پر استوار کئے گئے ہیں کہ 27ویں ترمیم ہوچکی،وفاقی آئینی عدالت بن چکی،فیلڈ مارشل کو نہ صرف تاحیات استثنیٰ مل گیا بلکہ 2030ء تک تینوں مسلح افواج کی سربراہی بھی مل گئی تو اب اس غیر مقبول حکومت کا بوجھ اُٹھانے کا تکلف کیوں کیا جائیگا؟ کئی باخبر صحافی بھی ان عشاق کے ہم نوا ہیں اور نہایت رازداری سے یہ مژدہ جانفزا سناتے پھرتے ہیں کہ 2026ء میں یہ حکومت نہیں ہوگی۔میری دانست میں یہ خواہش تو ہوسکتی ہے خبر نہیں۔یہ نظام حکومت جسے وزیر دفاع خواجہ آصف ہائبرڈ رجیم کہتے ہیں،کہیں نہیں جارہاکیونکہ فریقین کے درمیان طے ہوا ہے کہ کوئی بھی رُت ہو،چاہت اور محبت یونہی برقرار رہے گی۔اسلئے کہ دونوں کی بقا ایک ساتھ جڑے رہنے میں ہے۔
بتایا جارہا تھا کہ نومبر کا مہینہ بہت تلاطم خیز ہوگا۔وطن عزیز میں نومبر کا مہینہ سپہ سالار کی تعیناتی کے سبب نہایت اہمیت کا حامل ہوا کرتا تھا مگر اس بار نومبر میں داخلی و خارجی محاذ پر قومی سلامتی کو کئی قسم کے خطرات لاحق تھے۔یہ بھی کہا جارہا تھا کہ 27ویں آئینی ترمیم پر حکومتی اتحادٹوٹ جائیگا۔ بیرونی خطرات کی بات کریں تو مغربی سرحد پر کشیدگی کے باعث،افغانستان کی طرف سے کسی بھی قسم کی مہم جوئی کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔یہ اطلاعات مل رہی تھیں کہ بھارتی پردھان منتری نریندرمودی خفت مٹانے اور اپنے پیروکاروں کو مطمئن کرنے کیلئےآپریشن سندورکے طرز پر ایک اور جارحانہ کارروائی کا منصوبہ بنا ئے ہوئے ہیں اور نومبر میں مشرقی سرحد پر حالات ایک بار پھر خراب ہوسکتے ہیں۔داخلی خطرات کی بات کریں تو ایک کالعدم مذہبی جماعت کے بانی کا عرس تھا،اس تناظر میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کے خدشات ظاہر کئے جارہے تھے۔ایک سیاسی جماعت جو تقریباً کالعدم ہے اسکے ہاں یہ منصوبے تیار کئے جارہے تھے کہ اس وقت ریاست مشکل ترین حالات سے دوچار ہے تو کیوں نہ موقع کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسلام آبادپر یلغار کی جائے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا جائے۔
اب جبکہ نومبر اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے تو ان تمام خدشات کے بادل چھٹ چکے ہیں اور مطلع بالکل صاف دکھائی دیتا ہے۔اگرچہ پاک افغان مذاکرات کے اونٹ کو تاحال کسی کروٹ نہیں بٹھایا جاسکا لیکن افغان طالبان نے کسی قسم کی حماقت کا ارتکاب نہیں کیا۔بھارت کے ارادے یوں خاک میں مل گئے کہ بھارتی فضائیہ کو جس جنگی طیارے پر بہت ناز تھا،وہ دبئی ایئر شو کے موقع پر گر کر تباہ ہوگیا اور یوں عالمی سطح پر ایک بار پھر رسوائی و جگ ہنسائی کے باعث ممکنہ جارحیت کے بھارتی منصوبے بھی خاک میں مل گئے۔کالعدم مذہبی جماعت نے باباجی کے عرس کی تقریبات منسوخ کردیں اور ابھی تک حکومت کو اس حوالے سے کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں۔سیاسی جماعت جو نومبر میں برسی پر احتجاج کی کال دینا چاہتی تھی،ابھی تک یہ طے نہیں کرپائی کہ کرنا کیا ہے۔تذبذب اور گومگوکا یہ عالم ہے کہ ایک طرف اس سیاسی جماعت کے بانی نے ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور دوسری طرف اس کے رہنما اپنے امیدواروں کیلئےووٹ مانگتے پھرتے ہیں۔27ویں آئینی ترمیم دونوں ایوانوں سے منظور ہونے کے بعد آئین پاکستان کا حصہ بن چکی ہے۔بہت جلد 28ویں آئینی ترمیم لائی جائے گی کیونکہ پیپلز پارٹی کی مزاحمت کے باعث این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے جو ترامیم موخر کردی گئیں،اب 28ویں آئینی ترمیم کے ذریعے وہ ایجنڈا مکمل کیا جائے گا۔آپ موجودہ ہائبرڈ رجیم کی سیاسی حکمت عملی ملاحظہ فرمائیں۔26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی حمایت درکار تھی تو جن معاملات پر انہیں اعتراض تھا،وہ نکات نکال دیئے گئے اور 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت سمیت دیگر تبدیلیاں لائی گئیں۔ اس بار پیپلز پارٹی کی طرف سے جن نکات کی مخالفت کی گئی،انہیں وقتی طور پر موخر کردیا گیا لیکن 28ویں آئینی ترمیم کے ذریعے یہ مقاصد حاصل کرلئےجائینگے۔واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ 28ویں آئینی ترمیم میں نہ صرف این ایف سی ایوارڈ کا فارمولا تبدیل ہوگا بلکہ تعلیم کاشعبہ صوبوں سے واپس لیکر ایک بار پھر وفاق کے حوالے کردیا جائیگا۔
اسی طرح آرمی چیف کے مستقبل سے متعلق انواع و اقسام کے تبصروں اور چہ میگوئیوں کا سلسلہ جاری تھا۔انکی مدت ملازمت کا ایک ایک دن گن کر گزاراجارہا تھا۔اور اب صورتحال یہ ہے کہ افواج پاکستان کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نہ صرف تینوں مسلح افواج یعنی آرمی،نیوی اور ایئر فورس کی قیادت سنبھالنے جارہے ہیں بلکہ اب گنتی زیرو سے شروع ہوگی جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ 2030ء تک افواج پاکستان کی قیادت کریں گے اور اسکے بعد انکی مدت ملازمت میں توسیع یا پھر دوبارہ تعیناتی کا امکان بھی موجود ہے۔گویا فی الحال راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مستقبل سے متعلق کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔نہ صرف یہ کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرینگی بلکہ ”اِن ہاؤس“ تبدیلی کا بھی دور دور تک کوئی امکان نہیں۔”انہیں“ شہبازشریف سے بہتر وزیراعظم میسر نہیں آسکتا۔2029ء میں فیلڈ مارشل کی نگرانی میں عام انتخابات ہونگے،اسکے بعد شاید غیبی امداد کے نتیجے میں کوئی ”اِن ہاؤس“ تبدیلی آئے لیکن یہ تبدیلی قومی اسمبلی کے ذریعے نہیں آئیگی۔