اکثر سُننے میں آتا ہے کہ سائنس نے گزشتہ صدیوں میں بہت تیز رفتاری سے ترقی کی ہے تاہم یہ ترقی سائنس نے نہیں بلکہ انسان نے کی ہے کیونکہ سائنس ایک عِلم ہے اور اس کا موجد انسان ہی ہے اور اسی علم پہ غوروفکر کے بعد انسانوں نے جدید سے جدید ایجادات پیش کر کے ثابت کر دیا ہے کہ انسان ہی ترقی کا وسیلہ بنا ہے۔ اس لئے جب بھی بات ترقی کی ہو تو یہ کہنا غیرمناسب ہے کہ ترقی سائنس نے کی ہے کیونکہ انسان کا گلہ بانی کے دور سے اب تک کا ہر مرحلہ اس کی کاوشوں کاہی صلہ ہے جسکی وجہ سے آج کے انسان کو وہ تمام سہولیات میسر ہیں جن کا ماضی کے ادوار میں تصور بھی ممکن نہیں تھا ۔ بہت سے سائنسدان ہیں جنہیں درجہ بدرجہ مختلف ایجادات کی بنا پہ پہچانا جاتا ہے جبکہ ہر انسان کے پاس فطری طور پہ سوچنے سمجھنے اور تخلیق کرنے کی صلاحیت موجود ہے یہ الگ بات ہے کہ انسان اپنے آپ کو کس سمت لے جانے کو ترجیح دیتا ہے۔ خیر بات سائنسدانوں کی ہو رہی ہے تو کئی سائنسدان ایسے بھی ہیں جنہیں نوبل پرائز سے بھی نوازا جا چکا ہے مجھے نوبل پرائز سے یاد آیا کہ اس میں بھی دھاندلی کی جاتی رہی ہے اس لئے کہ اصل نوبل پرائز کا حقدار وہ انسان ہے جس نے چابی والا چوزہ ایجاد کیا ۔ کیا آپ نے کبھی غور کِیا کہ یہ چابی والا چوزہ کتنا اہم ترین کردار ادا کرتا ہے ۔آپ پوری دنیا کا نظام دیکھ لیں صرف ایک چابی والے چوزے کی بدولت دنیا کا نظام چل رہا ہے آپ بھی کبھی بچپن میں اس چابی والے چوزے سے کھیلتے رہے ہوں گے ۔اس کی خاصیت یہ تھی کہ جب چوزے کو چابی دیں تو وہ چلتا اور نہ دیں تو وہ رک جایا کرتا ،آپ یقین مانیے یہ انسان کی سب سے بڑی اور سوچنے والے انسان کو تجسس میں لے جانے والی ایک نایاب ایجاد ہے اور اب آپ غور کریں تو دنیا کا تمام سسٹم اس میں واضح نمایاں ہوتا ہے کمال کی بات تو یہ ہے کہ انسان کی ترقی کے باوجود ابھی تک انسان اس حقیقت سے محروم ہیں کہ سب سے اوپر والا چوزہ کونسا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟ جس کے چابی دینے سے عالمی نظام حرکت میں آتا ہے ورنہ ساکت ہو جاتا ہے اور پھر وہ حرکات بھی رونما ہوتی ہیں کہ جن سے انسانی تہذیب کی بے حرمتی منظرِعام پر آتی ہے۔ ایسے ایسے مناظر جو انسانی ذہن کو دھچکا در دھچکا دیتے ہیں لیکن بات وہی ہے اس عالمی چوزے کو چابی دینے والا بھی ایک مرغا ہے جواس کا باپ ہے لیکن وہ کون ہے ؟ وہ وہی ہے جو عالمی امن کو بدامنی میں مبتلا کر کے تماشائی بنا بیٹھا ہے لیکن اس کی حقیقت اور اس کا اصل مقصد کیا ہے؟ اگر وہ یہ سوچتا ہے کہ عالمی سطح پہ وہ خود کو امن کا پیروکارمنوانے کی سوچ رکھتا ہے اور اس میں وہ کامیابی حاصل کر لے گا تو یہ اس کا وہم ہے درحقیقت یہ اس کا خود کے ساتھ ایک مذاق ہے خیر میں نے بارہا یہ چابی والے چوزے ٹوٹتے بھی دیکھے ہیں اور اس حالت میں بھی کہ پھر یہ دوبارہ جڑنے کے قابل نہیں رہتے البتہ ایسے چوزے کھیلنے کے کام ضرور آیا کرتے ہیں اور دنیا بھر کے بچوں کو کھیلنے کیلئے دیدئیے جاتے ہیں، یہ بچوں کا دل بہلانے کیلئے بہت اہم ہوتے ہیں اور بچے بھی ان سے خوب کھیلتے ہیں اور اسی وجہ سے بچے اپنی اصل توجہ سے بے خبر رہتے ہیں کیونکہ ان کا مکمل فوکس چوزے پہ ہی رہتا ہے کہ اسے چابی دیتے ہیں ، اس کا کھیل دیکھتےہیں اور پھر جب دل بھر جاتا ہے تو بالآخر اس چوزے کو توڑ کر پھینک دیا جاتا ہے ۔ میں دنیا کی تمام ماؤں کو اس بات سے آگاہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو اگر بہترین مستقبل دینا چاہتی ہیں تو بچوں کو اس کھلونے سے دور رکھیں تاکہ ان کے بچوں کی ذہنی نشوونما ایک تخلیقی نشوونما کے زیرِسایہ رہے جس سے وہ انسانی اصلاح و بہبود کو پروان چڑھا سکیں اگر وہ اسی چوزے کے ساتھ کھیل کر بڑے ہوئے تو یقین کریں وہ اپنی تمام ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہو کر اسی چوزے والے کرتب کا ایک کردار بن جائیں گے جو انسانیت کیلئے توہین کا باعث ہو گا۔ اس لئےاگر اپنے بچوں کو انسانیت کے دفاع والا انسان بنانا چاہتے ہیں تو یہ آپ پہ منحصر ہے ۔یاد رکھئے چابی والا چوزہ بنانے والا انسان نوبل پرائز کا اصل حقدار ہے اگر یہ چوزہ نہ ہوتا تو آج تک یہ چوزے کا استعمال اور اصل کھیل کبھی عیاں نہ ہوتا۔ دراصل میرے مطابق یہ چوزہ بنانے والے نے چوزہ بنا کر دنیا بھر کے انسانوں کے ذہن کو بیدار کرنا چاہا ہے لیکن انسانوں کی کم عقلی ہے کہ وہ اسے ابھی تک دل بہلانے والا کھلونا سمجھ کر خریدتے اور اپنے بچوں کے ہاتھوں میں دیدیتے ہیں۔ اس لئے اس کے موجد کو برا بھلا مت کہیے بلکہ سلیوٹ کریں کیونکہ وہ سلیوٹ کا حقدار تو بنتا ہی ہے حالانکہ اسے نوبل پرائز دینے سے محروم رکھا گیا ۔ آگے بڑھنے کیلئے ہمیشہ دو پیروں کا ہونا ضروری ہوتا ہے اگر عالمی سطح پہ خود کو بااختیار بنانے والوں نے اس چابی والے چوزے کے کرتب سے غلط راستہ اخذ کیا تو اس میں اس کے موجد کا کوئی قصور نہیں ۔ کسی کو رہے یا نہ رہے لیکن مجھے اس بات کا غم ضرور رہے گا کہ چوزے کے موجد کا کہیں کوئی نام نہیں اُبھرا ۔