• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیامِ پاکستان کے بعد ملک کے تقریباً ہر ادارے نے مختلف شہروں میں اپنے افراد کیلئے گیسٹ ہاؤسز، کلبز اور رہائشی مراکز قائم کیے مگر ادب کے شعبے کو مسلسل نظرانداز کیا جاتا رہا۔اسلام آباد میں اکادمیِ ادبیات کے ’’رائٹرز ہاؤس‘‘ کے سوا کسی شہر میں اہلِ قلم کیلئے کوئی باقاعدہ، باوقار اور مستقل مہمان خانہ کبھی میسر نہ ہوسکا۔اگر اکادمیِ ادبیات کے صوبائی دفاتر کی عمارتیں بروقت تعمیر ہو جاتیں جس کیلئے ہر مجلس نشین نے بھرپور کوشش کی،تو لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ، مظفرآباد اور گلگت جیسے شہروں میں بھی ادیبوں کیلئے ادبی مہمان خانے اور ادبی بیٹھکیں قائم ہو چکی ہوتیں۔ایسے مراکز نہ صرف تخلیق کاروں کیلئے آرام و رہائش کا باعث بنتے بلکہ صوبوں کے درمیان فکری ہم آہنگی، مکالمے اور ادبی روابط کی مضبوطی کا بھی ذریعہ بنتے۔بدقسمتی سے ادب و ثقافت کو غیر ضروری اور غیر منافع بخش سمجھنے والی ذہنیت ہمیشہ سے ایسے اداروں کو نہ صرف پیسے کا ضیاع قرار دیتی رہتی ہے بلکہ ادبی عمارتوں کو ہتھیا کر وزیروں مشیروں کے دفاتر میں تبدیل کرنے کے منصوبے بناتی رہتی ہے۔لاہور جیسے تاریخی اور ثقافتی شہر میں ادبی مہمان خانے کا قیام اب محض خواہش نہیں، ایک شدید ضرورت بن چکا ہے۔پورے ملک سے آنیوالے ادب و فن کے متوالوں ،شاعروں ،ادیبوں ، محققین اور تخلیق کاروں کو رہائش کی مشکلات نہ صرف انکی تخلیقی سرگرمیوں کو متاثر کرتی ہیں بلکہ شہر کی ادبی میزبانی پر بھی سوال اٹھاتی ہیں۔اسی محرومی کو محسوس کرتے ہوئے منفرد سوچ اور رویوں کے حامل حسین مجروح نے لاہور میں ادبی مہمان خانہ قائم کرنے کا خواب دیکھا۔انہوں نے تمام متعلقہ اداروں، محکموں اور افسران کے دروازوں پر بارہا دستک دی، تجاویز اور یاد دہانیاں بھجوائیں، مگر کہیں سے مثبت جواب نہ ملاتاہم حسین مجروح اُن لوگوں میں سے نہیں جو ناکامی کو اپنی راہ کی دیور بننے دیں ۔اتنے برسوں کی کاوشوں کے بعد سرکار دربار کی بے حسی سے مایوس ہو کر بیٹھ رہنے کی بجائے تنِ تنہا یہ بیڑہ اٹھایا کہ اگر ادارے اپنا فرض نہیں نبھاتے تو وہ اپنی قوتِ ارادی اور خلوص سے یہ کام ضرور کریں گے،تاکہ آنے والا ہر ادیب عزت، وقار اور سکون کیساتھ لاہور میں قیام کر سکے۔ ایک فرد کی عملی بصیرت کا نتیجہ پوری ادبی برادری کیلئے ایک پکار ہے کہ وہ خوابوں کو حقیقت میں ڈھالنے کا ہنر رکھنے والے فرد کا ساتھ دے۔حلقۂ اربابِ ذوق کی فعالیت ہو، پاک ٹی ہاؤس کی بحالی کی جدوجہد یا ادبِ لطیف جیسے معتبر مجلے کی حیاتِ نو، حسین مجروح نے ہمیشہ ادب کیلئے وہ کام کیے ہیں جو اداروں کے ذمے تھے۔گزشتہ چند برسوں سے وہ سائبان کے نام سے ایک بھرپور ادبی تحریک چلا رہے ہیں۔اس کے تحت انہوں نے ملک بھر کے ادیبوں سے ملاقاتوںکے نتیجے میں مستحق ادیبوں کی کتابوں کی اشاعت ممکن بنائی،اداروں کو ادبی جرائد کی خریداری پر آمادہ کیا ،چالیس برس بعد پنجاب بھر میں بزمِ ادب اور لائبریری پیریڈ کا دوبارہ آغاز ہوا اور سائبان کے نام سے ایک اعلیٰ ادبی مجلہ تسلسل کیساتھ شائع ہونا ممکن ہوا۔

یہ سب اس امر کی شہادت ہے کہ وہ صرف زبانی کلامی نعروں ، بے برکت تحریر نہیں بلکہ عمل کے آدمی ہیں ۔ادبی مہمان خانے کا قیام بھی اسی جذبۂ خدمت کا تسلسل ہے۔لاہور کی ویسٹ ووڈ سوسائٹی (ٹھوکر نیاز بیگ) میں ادیبوں کیلئے ایک باوقار مہمان خانہ اور ایک گرمجوش ادبی بیٹھک کے افتتاح میں شریک ہو کر احساس ہوا کہ لاہور جیسے بڑے ادبی مرکز میں اس کمی کو دیگر لوگوں اور پالیسی سازوں نے کیوں محسوس نہ کیا،اس ادارے کا قیام پورے شہرِ ادب کیلئے خو شخبری ہے۔یہ مہمان خانہ صرف ادیبوں کیلئے مخصوص ہوگا، جہاں معیاری رہائش نہایت رعایتی نرخ پر فراہم کی جائے گی اور سائبان تحریک کی جانب سے ناشتہ اعزازی طور پر پیش کیا جائے گا۔ادبی بیٹھک میں تازہ اور معیاری چائے نصف قیمت پر دستیاب ہوگی اور مستقبل میں اسے ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کا فعال مرکز بنایا جائےگا۔

یہ سب کچھ ایک فرد نےکسی سرکاری سرپرستی کے بغیراپنے ذاتی وسائل اور دوستوں کی مدد سے کیا ہےافتتاحی تقریر میں بتایا گیا کہ ابتدائی اخراجات (پیشگی کرایہ، سیکورٹی ڈیپازٹ، کمیشن، فرنیچر، بستر، کچن اور ضروری سامان) پر بارہ تیرالاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ماہانہ اخراجات (کرایہ، یوٹیلٹی بلز، سوسائٹی چارجز اور عملہ) تقریباً 3 لاکھ روپے ہیں، جب کہ آمدن ستر اسی ہزار تک محدود ہوگی ،یوں ہر ماہ تقریباً 2 لاکھ 20 ہزار روپے کا خسارہ رہے گا۔ جو لوگ اکادمی کے مہمان خانے سے اس کا مقابلہ کر رہے ہیں انھیں سوچنا چاہیے کہ اکادمی ادبیات میں جہاں عملہ، عمارت، بلز اور دیگر سہولتیں پہلے سے موجود ہیں، وہاں ایک دن کا کرایہ دو ہزار روپے ہے، جب کہ سائبان مہمان خانے میں تمام اخراجات خود برداشت کرنے کے باوجود کرایہ صرف تین ہزار روپے رکھا گیا ہے۔اتنا کم کرایہ اس منصوبے کی نیت، خلوص اور خدمت کا کھلا ثبوت ہے۔کسی بھی تنہا شخص کیلئے یہ مہمان خانہ چلانا ممکن نہیں ،ضروری ہے کہ ادیبوں پر مشتمل ایک مشاورتی بورڈ تشکیل دیا جائے تاکہ یہ ادارہ مشترکہ ذمہ داری کیساتھ کامیابی سے آگے بڑھ سکے۔

لاہور کے اہلِ قلم، ادبی حلقوں اور باشعور شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بے لوث، بلند اور خالص ادبی خدمت میں بھرپور کردار ادا کریں ، تاکہ یہ مرکز قائم بھی رہے اور آئندہ نسلوں کیلئے ایک روشن مثال بھی بن سکے ۔ دیگر بڑے شہروں کے ادیبوں کو بھی ازخود ایسی کاوشیں کرنی چاہئیں کیونکہ پاکستان جیسے معاشرے میں ادبی روایات کی ترویج کی ذمہ داری حکومت کے نہیں ادیبوں کے سرہے۔

تازہ ترین