• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا موجودہ سماجی اور معاشی منظرنامہ ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں نوجوان پہلے سے کہیں زیادہ بے یقینی، اضطراب اور مستقبل کے خوف کا شکار ہیں۔ ایسے میں بیرون ملک جانے کی خواہش محض ایک خواہش نہیں رہتی، بلکہ بسا اوقات یہ ایک خاندان کے معاشی استحکام، اور معاشرتی وقار کی امید بن جاتی ہے۔ مگر گزشتہ کچھ ہفتوں سے ملک کے ہوائی اڈوں پر جس قدر بے رحمی کے ساتھ نوجوانوں کو آف لوڈ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے، اس نے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر شدید نوعیت کے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایک طرف بیرون ملک جانے والوں کی تعداد بڑھتی ہے، دوسری طرف ایئرپورٹ سے واپس بھیجے جانے والے نوجوانوں کے چہروں پر مایوسی کی گہری لکیریں ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے معاشرتی بحران کی شدت کو ظاہر کرتی ہیں۔آف لوڈ ہونا کوئی محض انتظامی کارروائی نہیں، یہ ایک ایسے لمحے کی شکل اختیار کر چکا ہے جو نہ صرف سفر روک دیتا ہے بلکہ انسان کے اندر کی دنیا کو بھی منجمد کر دیتا ہے۔ وہ نوجوان جو مہینوں تک پیسے جوڑ کر، قرض اٹھا کر، کسی دوست کی مدد سے یا گھر کی جمع پونجی بیچ کر ویزا حاصل کرتا ہے، وہ جب ایئرپورٹ کے امیگریشن کاؤنٹر پر صرف اس وجہ سے روک دیا جاتا ہے کہ ’افسر کو شک ہے‘، تو یہ محض سفر کا نہیں بلکہ اس کی عزت، اعتماد اور خودداری کا بھی قتل ہے۔ اس کے ہاتھ میں ٹکٹ، ویزا، بورڈنگ پاس اور مکمل سفری ریکارڈ ہونے کے باوجود اگر اسے روک دیا جائے تو پھر اس کے پاس اور کیا ثبوت باقی رہتے ہیں؟ اس کے پاس تو صرف آنکھوں میں ہلکورے لیتی وہ امید رہ جاتی ہے جسے ایئرپورٹ کی ٹھنڈی دیواروں سے ٹکرا کر ہر ثانیہ شکست کھانی پڑتی ہے۔

یہ مسئلہ اس قدر سنگین ہو چکا ہے کہ اسے محض چند جعلی ایجنٹوں کے نام پر نہیں ٹالا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، معاشی غیر یقینی، خراب تعلیمی ماحول، بڑھتے ہوئے جرائم، سیاسی انتشار اور بداعتمادی کے باعث بیرون ملک جانے پر مجبور ہے۔ جب ریاست انہیں روزگار، تحفظ، سہولتیں اور انصاف نہ دے سکے تو پھر لوگوں کے ہجرت کرنے کو جرم کہنا کہاں کا انصاف ہے؟ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی ریاستیں اپنی نوجوان نسل کو مواقع دینے میں ناکام ہو جائیں، وہاں ہجرت بڑھتی ہے۔ ہجرت کو روکنے کا طریقہ بارڈر مضبوط کرنا نہیں، معاشرہ مضبوط بنانا ہوتا ہے۔

نوجوانوں کے آف لوڈ ہونے کا سب سے گہرا اثر معاشرتی سطح پر پڑا ہے۔ ایک خاندان اپنی تمام جمع پونجی ایک بچے کے ہاتھ میں دیتا ہے کہ وہ باہر جا کر محنت کرے گا، گھر کے حالات بہتر کرے گا، بہن کی شادی ہوگی، چھوٹے بھائیوں کی تعلیم ممکن ہوگی۔ جب یہی نوجوان واپس گھر لوٹتا ہے تو وہ اکیلا نہیں آتا،اس کے ساتھ والدین کی امیدیں، بہنوں کے ارمان، اور ایک خاندان کی برسوں کی محنت بھی مایوسی کی شکل میں گھر میں داخل ہوتی ہے۔ والدین کی آنکھیں سوال کرتی ہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوا، مگر نوجوان خود بھی نہیں جانتا کہ اس کا قصور کیا تھا۔

ایک اور حقیقت یہ ہے کہ بیرون ملک جانے والے زیادہ تر نوجوان پاکستان کی معیشت کی شہ رگ کہلانے والی ترسیلات زر کا بنیادی ستون ہیں۔ وہ بیرون ملک محنت کرتے ہیں، ہزاروں روپے ٹیکس دیتے ہیں، ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرتے ہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ ایئرپورٹ پر انہی کو سب سے زیادہ بے عزتی اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آف لوڈنگ کا عمل اکثر ایک ایسے شک پر مبنی ہوتا ہے جو کسی قانون کے دائرے میں آنے کے بجائے محض ایک افسر کی ذہنی کیفیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کہیں افسر یہ سمجھتا ہے کہ نوجوان غیر قانونی طور پر باہر جانا چاہتا ہے، کہیں اسے لگتا ہے کہ ویزا جعلی ہوگا، کہیں اسے مسافر کی شکل ’’مشکوک‘‘ لگتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ انسانی عزت نفس کی توہین کے مترادف بھی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں امیگریشن کا عمل مکمل طور پر ڈیٹا، ریکارڈ اور ثبوت پر مبنی ہے۔ وہاں افسر خواہش یا شبے سے نہیں بلکہ ثبوت سے فیصلہ کرتا ہے۔اس پورے بحران نے ایک اور خطرناک رجحان کو جنم دیا ہے،اور وہ ہے نوجوانوں میں ریاست پر عدم اعتماد۔ جب ایک باصلاحیت، تعلیم یافتہ اور محنتی نوجوان ملک کے اندر اپنے لیے جگہ نہیں دیکھتا، باہر جانا چاہتا ہے اور اسے وہاں بھی دیوار سے لگا دیا جاتا ہے تو پھر وہ ریاست کو اپنا نہیں سمجھ پاتا۔ یہ فاصلہ انتہائی خطرناک ہے کیونکہ نوجوان ہی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں، اور جب مستقبل بدگمان ہو جائے تو قوم کی سمت بدل جاتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ آف لوڈنگ کے قواعد مکمل طور پر شفاف اور قانون کے تابع ہوں۔ امیگریشن کے عملے کی تربیت جدید خطوط پر ہو، ان کے رویوں میں نرمی اور پیشہ ورانہ صلاحیت شامل کی جائے۔ نوجوانوں کے پاسپورٹ، ویزا اور سفری دستاویزات کو مکمل قانونی حیثیت کے ساتھ تسلیم کیا جائے۔ ہر آف لوڈ کیس کا ریکارڈ، وجہ اور ثبوت تحریری ہوں تاکہ مسافر کو پتا ہو کہ اسے کیوں روکا گیا۔ اس کے خلاف اپیل کا پورا حق دیا جائے، اور بے جا روکنے پر متعلقہ افسر کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ریاست کا کام شک کی بنیاد پر شہریوں کو روکنا نہیں بلکہ انہیں قانونی، محفوظ اور باعزت سفر کی سہولت فراہم کرنا ہے۔یہ مسئلہ وقتی نہیں، بلکہ ہماری قومی ترجیحات کی سمت کا امتحان ہے۔ اگر ہم نے نوجوان کو تحفظ دیا، اس کے اعتماد کو سہارا دیا اور بیرون ملک جانے کے راستوں کو منصفانہ اور شفاف بنایا تو یہی نوجوان کل پاکستان کی معاشی، علمی اور سماجی دنیا کا سہارا بنے گا۔ لیکن اگر بے یقینی اور بے اعتمادی کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو پاکستان کا مستقبل دھندلا ہوتا چلا جائے گا، اور افسوس کہ آنے والی نسلیں ہمیں اس ناکامی پر معاف نہیں کریں گی۔

تازہ ترین