گزشتہ ہفتے ایک یونیورسٹی میں سابق طالب علموں کا اجتماع ہوا جس میں استاد نے اپنی دانست میں خوش خبری سنائی کہ زمانہ بدل گیا ہے ہمارے طالب علم ماشاءاللہ کتاب خانے میں جاتے ہی نہیں اور نہ اس پر توجہ دیتے ہیں کہ کہ مرکزی یا شعبےکتاب خانے کیلئے کتب عطیہ کرنیوالے کون کون تھے اور انکے نام سے منسوب گوشے کیا ہیں اور کیوں ہیں؟۔بے شک ہرانٹرویو میں پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ آپ نے تازہ ترین کون سی کتاب دیکھی ہے ،اسی لئے وہ کتابوں سے ناواقف ہیں ان کے موبائل میں سینکڑوں ڈیجیٹل کتابوں کے لنک ہیں کئی ہزار صفحے محفوظ ہیں گوگل ہی نہیں ریختہ ہی نہیں کئی ان کے معلم اور محسن ہیں۔جب کسی جامعہ کا کوئی استاد ایسی باتیں کرے تو کبھی کبھی گمان ہونے لگتا ہے کہ زمانہ واقعی بدل گیا یا ہمارا وقت گزر گیا مگر پڑھنے کا شغف رکھنے والے ملیں تو وہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں گوادر تک میں اردو کی کتاب پڑھی جاتی ہے شرط یہ کہ وہ ڈاکٹر مبارک علی ،سبطِ حسن ،احمد سلیم یا فہمیدہ ریاض کی ہو یا اسی طرح کی روشنی دینےوالے کی ہو ۔تاریخی اور تنقیدی شعور دینے والے بے شک منو بھائی،مسعود اشعر نہیں رہے مگر کیا لوگ ابن انشاء ،شوکت تھانوی ،چراغ حسن حسرت کے کالموں اور کتابوں کو بھی بھلا دینگے؟ شاعری ،ادب ،اساطیر تاریخ ،کی دنیا میں کتاب ہی آپ کو لے جاتی ہے ۔شاہ محمد مری نے عشاق کے قافلے کی سیریز لکھی ہے، سید قاسم محمود نے شاہکار سیریز کی کتابیں پانچ پانچ ہزار کی تعداد میں چھاپیں اور طالب علموں کی قوت خرید کے مطابق قیمتیں رکھیں ،جنگ کے ادارے نے بھی اشاعت کتب کا ایک سلسلہ شروع کیا اچھے استاد وسیلہ بنتے ہیں کتابوں تک پہنچنے کا ابھی کل ہی ڈاکٹرناصر عباس نیئر نے ایک انگریزی اخبار میں غازی صلاح الدین کی کہانیوں کے مجموعے ’’جینا وعدہ خلافی ہے ‘‘ پر تبصرہ لکھا توکتاب نگر کے شاکر حسین نے بتایا کہ کل سے ہی اس کتاب کو تلاش کر رہے ہیں ۔
فرض کیجئے جس کلاس کو آپ پڑھاتے ہیں اس میں پچاس طالب علم ہیں بے شک سب کے موبائل میں ڈیجیٹل کتابیں ہیں ان میں جھانکنے کے میکانکی طریقوں سے وہ واقف ہیں مگر ان میں پندرہ بیس تو ایسے ہونگے جو کا غذ اور کتاب کے لمس کو چھو کر ذہنی افق کو کشادہ کرنا چاہتے ہیں ویزے کے بغیر بھارت،ایران،ترکیہ،روس یا امریکہ جانا چاہتے ہوں تو اچھی اور تازہ کتاب کیلئے تجسس اور اضطراب تو اچھا استاد ہی پیدا کرتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ ایک استاد نے اپنے طالب علموں میں تحریک چلائی تھی کہ بچوں اور دوستوں کی سال گرہ پر کیک اور مٹھائی کی جگہ کتاب کا تحفہ دیں اسی استاد کو ایک ہوٹل میں ایک ادبی تقریب میں مہمان خصوصی بنایا گیا جہاں انہوں نے کہا کہ کیک یا مٹھائی کی جگہ کتاب کا تحفہ دیں،تقریب کے خاتمے پر میزبان نے رونی صورت بنا کے ہوٹل کا بل ان کے سامنے رکھا کہ الحاج شیریں خان نے تقریب کے مصارف میں تعاون کا وعدہ کیا تھا وہ آپکے ارشاداتِ عالیہ سنتے ہی غائب ہو گئے۔ نامور مورخ ڈاکٹر مبارک علی کی درجنوں کتابوں سے شیلف سجے ہیں انہوں نے ایک جریدہ ’تاریخ‘بھی نکالا ، آسان زبان میں انہوں نے ماضی کے مشکل اور نازک مرحلوں کو بیان کرنا سکھایا،جراتِ اختلاف اور دیانت ِ فکر کو رواج کیا بدقسمتی سے وہ بینائی سے محروم ہو گئے ہیں مگر اب بھی وہ اپنے خطبات کی وڈیو بناکے کچھ درسگاہوں کو بھیجتے ہیں یا یو ٹیوب پر اپ لوڈ کرتے ہیں ۔ڈاکٹر مبارک بے شک خود یونیورسٹی کے استاد رہے ہیں مگر وہ جب گفتگو کرتے ہیں تو برہنہ تلوار بن جاتے ہیں کچھ محفلوں میں بعض لوگ ان سے ناراض بھی ہو جاتے ہیں مگر وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان کا تیر نشانے پر لگا ان کے نزدیک کچھ بت توڑے بغیر تاریخ کی معروضیت سامنے نہیں آ سکتی تھی ۔
غازی یونیورسٹی کے بین الصوبائی ہم آہنگی کے سیمینار میں کتابوں کے اسٹال بھی تھے ،بے شک وہاں تونسے کی ایک استاد ایک وکیل کو بتا رہی تھیں کہ ان کے شوہر نے فون پر ہی کہا ہے کہ میں کعبہ شریف میں بیٹھا ہوں اور غور سے سنو میری بات ’طلاق ! طلاق! طلاق!‘ اگر عدالت میں جا کر بچے کا خرچ یا نکاح نامے میں لکھا حق مہر مانگا تو تمہاری گود میں پلتا بچہ بھی چھین لوں گا۔ایسی دکھ بھری بات پر عدالت اور وکیل کیا کرتے ہیں ؟ میں نہیں جانتا ایک اسٹال سے کچھ کتابیں خریدیں انہی میں ایک مراٹھی زبان کے ادیب گوری پٹوردھن کی کتاب ’ولاس سارنگ‘(انکی کے دیس میں) میں ہے جس کے مترجم ہیں اجمل کمال۔
گوری پٹوردھن بصرہ یونیورسٹی(عراق) میں شعبہ انگریزی کے سربراہ رہے۔عراق اور سومیریوں کی تہذیب اور ادب کا ذکر ہو تو ان کے اساطیر اور ادب کے عاشق مرزا ابن حنیف یاد آتے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ اس کتاب سے دو اقتباس پیش کر دئیے جائیں: ’’شروان نے بتایا کہ اس کے والد نے کردستان کی تحریک میں سرگرم حصہ لیا تھا وہ اب جیل میں ہیں،انہوں نے ابا کو بہت ایذائیں دیں،مجھ سے وہ یاد کرنا بھی نہیں سہا جاتا،لیکن یادوں کو کوئی کیسے روک سکتا ہے‘‘۔’’تیسری دنیا کی زیادہ تر حکومتیں پہلی اور دوسری دنیا سے خوف زدہ رہتی ہیں،انہیں بائیں بازو سے بھی خطرہ رہتا ہے اور دائیں بازو سے بھی،یہی تیسری دنیا کا المیہ ہے ،اصلی تیسری دنیا کا کوئی وجود ہی نہیں،نام نہاد تیسری دنیا دراصل پہلی اور دوسری دنیا کے تناؤ کا مقام ہے‘‘۔
٭٭٭٭
میں نہیں جانتا کہ دبئی کے ایر شو میں گرنے والے جہاز کے پائلٹ کے بارے میں کچھ کب لکھا جائے گا مجھے تو یہ پتا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت نے دکھ کا اظہار کیا ہے جانے ہمارے نریندر مودی کو یہ بات کب اور کیسے سمجھائی جائے کہ ہمسائے کے گھر میں کوئی ماں کُرلا رہی ہو تو ادھر بھی کسی ماں کی خود کلامی ماتمی ہوتی ہے۔