پچھلے ہفتے ماں کی دعاؤں کی وجہ سے میں رسوا ہونے سے بچ گیا ۔اگر وہ غلطی مجھ سےسرزد ہوجاتی تونتیجتاً بڑی خواری خرابی ہوجاتی ۔ جان جوکھوں میں پڑ جانے کےعلاوہ جان جا بھی سکتی تھی ۔ خدا بھلا کرےمیرے محسنوں کا جنہوں نے مجھے جھنجھوڑنے کےبعد کہا تھا۔ بالم توپاگل ہوگیا ہے ؟ ہوش گنوا بیٹھا ہے؟ ماں کی ہدایتوں اور نصیحتوں کے منافی ایک سب سے بڑی فاش غلطی کرنے جارہا تھا؟ اتنی بڑی غلطی سرزد کرنے کے بعد نہ تو رہتا اور نہ تیرا نام و نشان رہتا لوگ بھول بھال جاتے کہ توکبھی اس دنیا میں آیا بھی تھا۔تب میں نے ہوش کے ناخن لئے تب مجھےاپنی غلطی کا احساس ہوا نجانے کون سی نیکی میرے کام آگئی میں بد ترین حالات کی چکی میں پسنے سے بچ گیا۔ سچ بتادوں کہ نوے برس کی عمر میں،میں کسی قسم کا ٹارچر برداشت نہیں کرسکتا۔ تفتیشی افسروں کے سامنے میں تاریخ میں ہونے والے ہر گھناؤنے جرم کا اعتراف کرلیتا۔ مہاتما گاندھی کےقتل کا اعتراف کرلیتا۔ جان ایف کینیڈی کے قتل کا اعتراف کرلیتا۔ لیاقت علی خان کےقتل کا اعتراف کرلیتا، اندراگاندھی کے قتل کا اعتراف کرلیتا۔ مجھے افسوس ہونے لگاتھا کہ میں خود کشی کرنے جارہا تھا اور میرے محسنوں نے مجھےخود کشی کرنے سے روک دیا تھا ۔ ایک محسن نےمیرےکان میں سرگوشی کی تھی ۔ جب بھی تو اپنی ماں کےبتائے ہوئے اصولوں سےانحراف کرے گا ماں کی نصیحتوں کو بھول بیٹھے گا،تو منہ کی کھائے گا تو کسی کھنڈرمیں چاروں شانے چت پایا جائے گا ۔ تو سب کچھ بھول چکا ہوگا ۔ اس مرتبہ توہماری وجہ سے بچ گیا ہے اگلی مرتبہ ہم نہ جانےکہاں ہوں گے۔ تو نجانے کہاں ہوگا۔ماں کی نصیحتوں کو یاد رکھ اور ہیبت ناک مصیبتوں سے بچتارہ ۔ اسی میں تیری بھلائی اور تیری عافیت ہے ہم جانتے ہیں کہ ایک پیار کرنے والی ماں کی طرح تجھے تیری ماں نےاچھے مشورے اور اچھی نصیحتیں یاد رکھنے کیلئے دی ہوں گی ۔ اب توہماری بات سن لےاور یاد رکھ ۔ تو ووٹ دینے کےلئے پیدا ہوا تھا تو زندگی بھر ووٹ دیتارہے گا باپ ، بیٹے،بیٹی ،نواسے ،داماد ، بھانجوں ، بھتیجوں اور ان کے ازدواج کو ووٹ ڈالتے ڈالتے ایک روز تو مرجائے گا۔ یہی تیرے نصیب میں لکھا ہوا ہے ۔ کبھی بھی نصیب کے لکھے سے تجاوز کرنے کی غلطی مت کرنا ۔ ورنہ توپچھتائے گا تو نے اس دنیا میں آنے کی غلطی کیوں کی تھی ؟ حالانکہ اس دنیا میں آنے اس دنیا میں نہ آنے کا فیصلہ تیرے بس کی بات نہیں ہے ۔ عام طور پر مائیں اپنے بچوں کو لوریاں سناتی ہیں ۔ لوریاں سنتے سنتے بچے سوجاتے ہیں اور پھر مائیں بھی سوجاتی ہیں میری ماں مجھے لوریاں نہیں سناتی تھیں۔ وہ مجھے نصیحت آمیز کہانیاں سناتی تھیں۔ وہ مجھے لاجواب مشورے دیتی تھیں ۔ مجھے نصیحتیں کرتی تھیں۔ دانشوروں کے اقوال سمجھاتی تھیں ۔ دنیا میں جوکچھ تجھے دکھائی دیتا ہے درحقیقت وہ کچھ اور ہوتا ہے ۔ مگر تجھے دکھائی کچھ اور دیتاہے۔ یہ قول ایک قدیم فلسفی کا ہے اس نوعیت کے ڈھیر سارے اقوال بیان کرنے کے بعد اس فلسفی نے خودکشی کرلی تھی۔ وہ اگر خودکشی نہ کرتا تو قتل کردیا جاتا۔ اس اقوال سے سب لوگ اپنے اپنے مطلب کی کوئی نہ کوئی بات نکال لیتے ہیں اس قدر نرلے ، الگ الگ ،منفرد ، مطلب نکانے کے بعد لوگ آپس میں اکثر لڑپڑتے تھے ۔ اور ایک دوسرے کو ٹھکانے لگا دیتے تھے ۔ ایک قول پر بڑا جھگڑا ہوا تھا، بلکہ جھگڑے ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ قول آپ بھی سن لیجئے۔تم جب سورج کو غروب ہوتا ہوا دیکھ رہے ہوتے ہو اصل میں وہ غروب نہیں ہورہاہوتا۔ سورج عین اسی وقت دنیا کے کسی دوسرے ملک میں طلوع ہورہا ہوتا ہے۔ ماں سے سنی ہوئی نصیحتوں کے اعداد و شمار مجھے یاد نہیں ، مگرماں کی بار بار دہرائی ہوئی نصیحتیں مجھے یاد نہیں ۔ماں کہا کرتی تھیں کہ زمانہ بدل گیا ہے ۔ فطرت میں سانپ اور بچھو سے زیادہ زہریلے لوگوں نے سانپ اور بچھو جیسا روپ دھارلیا ہے ۔ اب انہوں نے بھی کوٹھیوں کے علاوہ بلوں میں رہنا شروع کردیا ہے اس لئے بھولے سے بھی سانپ اور بچھوکے بلوں میں ہاتھ ڈالنےکی غلطی مت کرنا ۔ تمھیں پچھتانے کا بھی وقت نہیں ملے گا۔ بچھو اور سانپ کبھی کبھار معاف کردیتے ہیں ۔ مگر سانپ اور بچھو جیسی فطرت رکھنے والے با اثر سانپ اور بچھو جیسے کرتا دھرتا کبھی معاف نہیں کرتے ۔ آپ گم کردیئے جاتے ہو،اور وہ ظاہر ظہور سامنے ہوتے رہتے ہیں ۔ ایسی خوفناک بلاؤں کا ایک کاکروچ کیا بگاڑ سکتا ہے ؟ اگر تیرے محسن بچھو اور سانپوں کے بلوں میں ہاتھ ڈالنے سے نہیں روکتے تو کاکروچ آج صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا ۔
ماں تیری دعائیں محسن بن کر مجھے بلاؤں سے بچاتی رہتی ہیں ورنہ میں کب کا خاک ہوچکا ہوتا۔